دشمنوں کے درمیاں وجہ دوستی ہے تو
شیئر کریں
ہمارے نوید منتظر میاں المعروف بہ مونٹی کو دیکھیں تو پنجاب ضلع جھنگ کی تحصیل اٹھارہ ہزاری کی اس مٹیار کی آہِ محبوبیت سمجھ میں آجاتی ہے کہ اُچا لمّا گبھرُو تے اَکھ مستانی۔۔پُتر کسے ماں دا، تے میرا لگے ہانی(ہم عمر)…..قد چھ فٹ،کشادہ سینہ،بوجھل آنکھیں،زخموں کی ٹکور کرتا لب و لہجہ،حلقہ¿ یاراں میں بریشم کی طرح نرم طبیعت، اس پر مرے کو مارے شاہ مدار‘ امریکی شہریت۔نیویارک کے سب سے ٹونی علاقے مین ہٹن میں رہائش۔اندر سے کڑے مسلمان۔بس مسواک اپنی بریسٹ پاکٹ میں نہیں رکھتے اور ایلاسٹک کے کمر بند والی ٹخنوں سے اوپر والی شلوار اور اسامہ بن لادن والا عمامہ نہیں پہنتے، دفتر میں کبھی سوٹ ویسے جینز۔پاکستان سے منگوائی ہوئی کاٹن کی قمیضیں،عمران خان کے من پسند کپتان پشاوری سینڈل،گلے میں دو تولے کی چین، جس میں افغانستان والا Lapis Lazuli (لاجورد ) پتھر کا منکا، ہاتھوں میں برسلیٹ،مگر مسلکاً سلفی، دیوبندی، سعودی عرب کی محبت میں خاک بہ سر، اللہ جھوٹ نہ بلوائے،فرصت ہو، ہم ہوں، تو وہ جب ہمیں اپنی جھمجھماتی نیلی Lamborghini (لامبر گھینی) کی AVENTADOR ایس وی کوپ میں بٹھا کر نکلتے ہیں تو گوگل والوں سے پوچھ لیں ان کے علاوہ امریکا کی پتھر دل خواتین کی جانب سے ہمیں بھی کئی ہٹس ملتے ہیں۔گو ہم اتنے وائرل نہیں ہوتے جتنے دانیال عزیز یا پی ٹی آئی کے فیصل واوڈا ہیں۔ وہ جو احساسِ محرومی ہمیں پی آئی اے سے سفر کرنے میں لاحق ہوجاتا ہے وہ برستے ساون جیسی اُن بیبیوں کی نگاہوں سے وسیم اکرم والے ڈیٹرجنٹ کی طرح سے دُھل جاتا ہے۔
ہمیں بتا رہے تھے کہ پچھلے دنوں وہ کمپیوٹر کے حوالے سے مصنوعی ذہانت ( Artificial Intelligence) ایک کانفرنس میں گئے تھے۔AAAI یعنیAssociation of the Advancement of Artificial Intelligenceنے اس کا انعقاد کیا تھا۔پچھلے سال اس کانفرنس میں اس وقت رولا پڑگیا جب اعلان ہوا کہ جنوری سن 2017ءکی کانفرنس امریکا کے شہر نیو اورلینز میں ہوگی۔چینی‘ جو اب اس کانفرنس کا جزوِ لاینفک بن چکے ہیں ،انہیں مقام پر تو سوائے سخت سردی کے کوئی اعتراض نہ تھا مگر اجلاس کے ایّام ان کے نئے سال کی تعطیلات سے متصادم تھے۔
انہوں نے اپنا اعتراض اس ادارے کے سربراہ آندھرا پردیش بھارت سے تعلق رکھنے والے پروفیسر راﺅ سبارو کمپابھاتی کے سامنے اس دلیل کے ساتھ پیش کیا کہ امریکا میں کوئی کانفرنس کرسمس کی تعطیلات میں منعقد کی جاسکتی ہیں۔نتیجہ یہ نکلا کہ مقام سانٹاکلارا منتقل کردیا۔کانفرنس کے اختتام پر حساب لگایا گیا تو وہاں پڑھے جانے والے مقالات میں چینی اور امریکی مقررین کا نمبر برابر تھا۔ یہ بات خود راﺅ صاحب اور امریکا کے لیے حیرت کا باعث بنی کیوں کہ کمپیوٹر کے باب میں مصنوعی ذہانت پر امریکا کی ایک عرصے سے اجارہ داری چلی آرہی تھی۔
پچھلے دنوں جب اوباما امریکا کے صدر تھے تو وہائٹ ہاﺅس کو ایک دستاویز strategic plan کے ذریعے باخبر کیا گیا تھا کہ مصنوعی ذہانت کا ایک گرما گرم باب جسےDeep-Learning کہتے ہیں،اس میں امریکا چین سے پیچھے رہ گیا ہے۔معاملہ یہیں تک محدود نہیں، ان کی کمپنی Baidu جسے ان کا گوگل سرچ انجن سمجھیں، چینی کمپنی Didi جو Uber کی طرح کی سروس ہے اور ٹین سینٹ جو واٹس ایپ کی طرح کی وی چیٹ کی مالک کمپنی ہے۔ان سب کی اپنی لیبارٹریاں اپنی تحقیق اور پھیلاﺅ میں اب امریکی لیبارٹریوں کو آنکھیں دکھانے لگی ہیں۔
مونٹی میاں کہنے لگے کہ اس ترقی میں چینی حکومت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جو دنیا بھر سے کمائی ہوئی آمدنی کا ایک خطیر حصہ چینی جامعات میں ہر طرح کی سائنسی تحقیق پر خرچ کرتی ہیں۔ہمیں تو اس نے ہمارے حکمرانوں کی کرپشن اور لالچ کو بھانپ کر سڑکوں اور نارنجی ریل کے سنگترے کی پھانکیں پکڑادی ہیں۔اس حوالے سے بی ژنگ اور ژنگوا کی جامعات کا مقابلہ اب بآسانی امریکی جامعات ہارورڈ اور ایم آئی ٹی سے کیا جاسکتا ہے۔چینی جامعات کا خاص جھکاﺅ اس حوالے سے دو موضوعات پر ہے یعنیdeep learning اور Machine learning۔ان کے طالب علموں کی سوچ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے کسی بھی صنعت کو جدید سے جدید تر بنانے کے بے تحاشا مواقع ہیں اور اس میں ملازمتوں کے بھی انبار لگے ہیں۔جامعات بالخصوص ہانگ کانگ کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی جانب سے بے تحاشا وظائف اور آسان ترین قرضے طالب علموں کو دستیاب ہیں ۔کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان سی پیک میں یہ شرط بھی ڈال دے کہ ان جامعات میں سو طالب علم پاکستان سے سی ایس ایس کی طرز کے ایک مقابلے کے ذریعے منتخب کرکے بھجوائے جائیں گے۔
مونٹی میاں کی ملاقات اس کانفرنس میں دو یہودی لڑکیوں سے ہوئی ۔تلوری (شبنم) کا تعلق نتانیا (اسرائیل) سے تھا اور سفیرہ کا تعلق البتہ این ہائم کیلیفورنیا سے تھا۔ دونوں آپس میں بڑی گہری دوست تھیں۔تلوری کا سراپا بیان کرتے وقت مونٹی میاں کچھ بہک گئے تھے ۔کہہ رہے تھے کہ دیکھو تو آنچ دیتی ہوئی برسات کی یاد آتی تھی۔ بات کرو تو لگتا تھا کہ نوری ٹاکے کی بون چائنا کی اجلی پلیٹ پر کسی نے بہت احتیاط سے سونے کی خالص اشرفی اچھال دی ہو۔اس پر الفاظ کا انتخاب ایسا کہ اس کی بات اپنے ہی دل کی بات لگتی تھی۔
مونٹی کو لگا کہ تلوری کے حسن جہاں تاب کا اپنا ایک بھیانک ایجنڈا ہے جسے ان کی حکومت کی آشیرباد بھی حاصل ہے۔سفیرہ جب کسی اجلاس میں مصروف ہوتی تو وہ مونٹی کو ساتھ لے کرچینیوں سے ان زیر تحقیق مشینوں کے بارے میں معلومات اکھٹی کرتی تھی جنہیں اس فیلڈ کے لوگ computer capital کہتے ہیں اور جو ان ملازمتوں کو نشانہ بناتی ہیں جہاںملازمت کے مواقع زیادہ ہوں۔یہ مشینیں creative disruption یعنی تخلیقی انتشار پیدا کرتی ہیں۔عجب بات یہ تھی کہ تلوری ایک ایسے ادارے سے وابستہ تھی جس کا تعلق کمپیوٹر سے نہیں بلکہ مالیات یعنی فائنانس سے تھا۔ وہ مونٹی کو بتارہی تھی کہ سن2025ءتک اس کا ادارے کا اندازہ یہ ہے کہcreative disruption impact اتنا عظیم ہوگا کہ یہ 14 سے33 ٹریلین ڈالر ہوگا جب کہ اس ضمن میں صرف ملازمتوں کی مد میں لگ بھگ 9 ٹریلین ڈالر کی بچت کے برابر ہوگا۔اگر آپ کو ٹریلین شمار کرنے میں دشواری ہو تو 9,000,000,000,000 کے بعد اطمینان سے بارہ صفر بڑھالیجیے۔مونٹی نے پوچھا کہ اسرائیل سے اسے کمپنی نے کمپیوٹر کی کانفرنس میں کیوں بھیجا ہے۔۔اس نے وہی اشرفی اچھالتے ہوئے انداز میں جواب دیا ”چینی شک نہ کریں©©“۔
”تو آپ کی کمپنی کیسے اندازہ لگائے گی کہ کونسا ادارہ کس طرح کی مشین تیار کرے گا اور وہ کس طرح مستقبل میں کسی مخصوص صنعت پر اثر انداز ہوگی؟“وہ کہنے لگی اس کی رپورٹ اورساتھ نتھی بزنس کارڈ ز اور کمپنی کے تعارف کے بعد اس کی کمپنی کسی اور ادارے سے رابطہ کرے گی ،کسی مخصوص معاملے میں تکنیکی مشاورت ہو گی۔بات پھر آگے بڑھے گی۔
وہ پھر مونٹی کے بارے میں سوال پوچھنے لگی ،خفیہ ادارے سے وابستہ افراد کی ایک تیکنیک یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ سامنے والے کی انا کو تعریف کے شیرے میں ایسا ڈبودیتے ہیں کہ وہ خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔وہ کہنے لگی کہ مونٹی سے مل کر یقین نہیں آتا کہ وہ ایک تو مسلمان ہے، دوسرا اس کے والدین پاکستانی ہیں، تیسرا وہ خود امریکی ہے۔مونٹی نے کہا ©” اگر یہ سب باتیں سچ ہوں تو وہ کیا کرے گی۔اس نے شرما کر جواب دیا ”صبر اور دوستی۔ دل نہیں مانتا کہ میں تمہیں اس بھری دنیا میں یوں اکیلا چھوڑ دوں“۔ (جاری ہے)
٭٭