ترک صدر کا ممکنہ دورہ سعودی عرب اور اس کے مضمرات ؟
شیئر کریں
سعودی عرب اور ترکی کے درمیان سفارتی تناؤ، سیاسی مخاصمت اور مذہبی منافرت کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں اور اگر یہ کہا جائے اِن دونوں ممالک کے حکمرانوں کے درمیان وقتاً فوقتاً ہونے والی اقتدار کی رسہ کشی سے فائدہ اُٹھاکر ہی مغربی اقوام عالمی اُفق سے مسلم اُمہ کے اقتدار کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے غروب کرنے میں کامیاب رہے تو عین قرین قیاس ہوگا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کو اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی عربوں کی جانب سے جس واحد الزام کا سامنا رہا ،وہ یہ تھاکہ عثمانیوں نے خلافت کو عرب حکمرانوں سے بزور طاقت جنگ کر کے چھیناہے۔ جس کے جواب میں ترکوں نے ہمیشہ یہ وضاحت اور توجیہی پیش کرنے کی کوشش کی کہ ’’نااہل عرب حکمرانوں نے انہیں جزیرہ نما عرب تک عثمانی سلطنت کا اقتدار حاصل کرنے کی ترغیب دی تھی اور اگر وہ ایسا نہ کرتے تو دنیا سے اسلامی سلطنت کا خاتمہ کئی صدیوں قبل ہی ہوگیا ہوتا‘‘۔چونکہ مغربی ممالک سعودی عرب اور ترکی کے درمیان حائل برسوں پرانی خلیج کی وسعت اور مضبوطی سے اچھی طرح آگاہ تھے ، اس لیئے اسلام دشمن قوتوں نے عربی و عجمی تفرقے کی آڑ میں اپنی عالمی بالادستی قائم کرنے میں نہ صرف کامیاب رہے بلکہ آج بھی مسلم اُمہ کو زبان ،نسل اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کر کے ہی اُنہیں بے رحمی سے ظلم و جبر کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پیسا جارہاہے ۔
اس تناظر میں آئندہ ماہ ترک صدر رجب طیب اردوغان کی جانب سے سعودی عرب کا اپنے سرکاری دورے کا اعلان کرنا یقینا بہت بڑی خبر ہے خاص طور پر مسلم اُمہ کے لیے یہ بات انتہائی خوش آئندہے کہ عالمِ اسلام کے دو بڑے اور طاقت ور ممالک کم و بیش پوری ایک صدی کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ دوطرفہ سفارتی و سیاسی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے براہ راست آمادہ گفتگو دکھائی دے رہے ہیں ۔واضح رہے کہ گزشتہ دنوں ترک صدر اردوغان نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اب سعودی عرب کے ساتھ تجارت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ سعودی عرب کی حامی الشرق نیوز اور دیگر عرب میڈیا اداروں نے اردوغان کی سعودی عرب روانگی کے اعلان کی ویڈیو کو نمایاں طور پر اپنے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی شیئر کیاہے۔مسلم دنیا میں وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں صحافی اردوغان سے حالیہ برسوں میں ترکی سے سعودی عرب میں ہونے والی برآمدات میں کمی سے متعلق سوال کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، جس کے جواب میں ترک صدر طیب اردوغان نے کہا کہ’ ’سعودی حکام میرا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ امید کر رہے ہیں کہ میں سعودی عرب جاؤں۔ میں اگلے ماہ فروری میں سعودی عرب جاؤں گا‘‘۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی تک سعودی عرب نے ترک صدر طیب اردوان کے دورے کے حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا ہے لیکن اس کے باوجود سعودی عرب کے میڈیا میں طیب اردوغان کے اعلان کو جابجا نمایاں کوریج مل رہی ہے۔سعودی عرب کے سب سے بڑے اخبارات عکاظ اور المرصد نے اردوغان کے اعلان کو نمایاںانداز میں صفحہ اول پر ہی شائع نہیں کیابلکہ اس عنوان پر ادارے، تجزیئے اور کالمز کو بھی اپنی اشاعت میں شامل کیا ہے۔ جبکہ سوشل میڈیا پر بھی سعودی عوام کی اکثریت ترک صدر کے دورے پر مسرت کا ہی اظہار کرتے ہوئے دلچسپ تبصرے ،میمز اور ٹوئٹس کررہی ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب کے سیاسی مبصربرائے ترکی الفیصل الرشید نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ’ ’ہماری قیادت کی دانش مندی اور بالغ نظری کی وجہ سے بہت سی چیزیںاَب تیزی کے ساتھ ہمارے حق میں ہو رہی ہیں۔ یہ اس خطے کے لیے بھی اچھا ہے‘‘۔
دوسری جانب عرب میڈیا نے اپنے باثوق ذرائع سے یہ خبر بھی دی ہے کہ ترک صدر اردوغان آئندہ ماہ سعودی عرب کے علاوہ، متحدہ عرب امارات کا دورہ کرنے کا بھی پختہ ارادہ رکھتے ہیں۔دراصل سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سبکدوش ہونے اور جو بائیڈن کے منصبِ صدارت سنبھالے جانے کے بعد سے لے کر اَب تک مشرق وسطی میں کافی ہنگامے برپا ہوچکے ہیں ۔بالخصوص افغانستان سے امریکی افواج کے شرمناک انخلاء کے بعد دفاعی لحاظ سے امریکا پر انحصار کرنے والے عرب حکم ران بھی اَب سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگر کل کو کسی نازک صورت حال میں امریکا نے سابق افغان صدر اشرف غنی کی طرح انہیں بھی تنہا اور اکیلا چھوڑ دیا تو پھر اُن کا کیا بنے گا؟۔ اس لیے مشرق وسطی کے زیادہ تر ممالک مستقبل قریب میں کسی بڑے ریاستی نقصان سے بچنے کے لیے کسی بیرونی قوت پر انحصار کرنے کی پالیسی کو کلیتاً ترک کر کے اپنے آپس کے تنازعات اور دشمنیاں ختم کرنے کے لیے بھرپور انداز میں کوشش و سعی کررہے ہیں ۔ یقینا ترک صدر طیب اردغان کا دورہ سعودی عرب اسی سلسلہ جنبانی کی ایک مضبوط کڑی قرار دیا جاسکتاہے۔ جبکہ چند ماہ سے سعودی عرب اور ایران کے اعلیٰ حکام کے درمیان بھی مذاکرات جاری ہیں اور اس حوالے سے ہی نومبر میں ابوظہبی کے ولی عہد استنبول گئے تھے اور اَب ترک صدر اردوغان نے سعودی عرب کے دورے کا اعلان کرکے ساری دنیا کو خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔
درحقیقت مشرق ِ وسطی کے ہر حکم ران نے گزشتہ تین ،چار دہائیوں میں دوست نما دشمنوں یعنی غیروں کے اتنی بے اعتنائیوں اور جفاؤں کو بھگتا لیا ہے کہ اَب اُن سب میں ہی یہ احساس بڑی تیزی کے ساتھ جاگزیں ہوتاجارہے کہ ’’اپنے بالآخر اپنے ہی ہوتے ہیں ‘‘۔اس بدیہی راز کو پالینے کے بعد ہی تو تمام عرب ممالک ایک دوسرے کے درمیان حائل صدیوں پرانی نفرت اور تنازعات کی دیواریں گرا کر باہم شیر و شکر ہونے کے لیے پوری طرح سے پرعزم دکھائی دے رہے ہیں اور امریکا کے ساتھ سفارتی ، سیاسی و دفاعی تعلقات کے حوالے سے جو بداعتمادی کی ہول ناک فضا اس وقت پورے مشرق وسطی میں پائی جاتی ہے ، اُس کی مثال شاید ماضی میں کسی کو ڈھونڈھنے سے بھی نہ مل سکے۔ویسے بھی مشرق وسطی اب امریکاکی حکمت عملی سے کلیتاًباہر ہو چکا ہے اور امریکی صدر جوزف بائیڈن کی پوری توجہ انڈو پیسیفک خطے میں چین پر مرکوز ہوچکی ہے۔امریکا کی یہ خارجہ پالیسی مستقبل میں چین کے لیے کس قدر ضررر اور نقصان کا باعث ہوگی فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ایک بات یقین سے ضرور کہی جاسکتی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیوں نے مشرق وسطی میں امریکی مفادات کو ضرور شدید خطرات سے دوچار کردیا ہے ۔
امریکی صدر جوزف بائیڈن کا اپنے بیانات میں بار بار یہ کہنا کہ ’’ امریکا کا اصل ہدف چین ہے‘‘۔سے دنیا بھر میں بالخصوص مشرق وسطی میں یہ مطلب اور معنی اخذ کیئے جارہے ہیں کہ اَب امریکا کے حلیف ممالک کو بھی اپنے سیاسی و دفاعی مفادات کا تحفظ از خود کرنا ہوگا۔ یہ خلیجی ممالک کا احساسِ عدم تحفظ ہی ہے کہ سعودی عرب خود ایران سے بات کر رہا ہے۔ یو اے ای کی اعلیٰ قیادت خود ترکی سمت کھنچی جا رہی ہے، قطر اور سعودی عرب کی قربتیں روز بروز ا بڑھ رہی ہیں ۔ اگر مشرق وسطی کے اہم ترین ممالک میں سفارت کاری اسی نہج پر چلتی رہی تو کچھ بعید نہیں کہ دنیا بہت جلد عرب لیگ کی طرز پر ایک نیا عالمی بلاک تشکیل پاتاہوا دیکھے۔کتنی عجیب بات ہے کہ وہ مشرق وسطی جو کل تک امریکا کی ایک باجگزار ریاست کے طور پر نظر آتا تھا ، آج کل وہاں روسی صدر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ کا طوطی بول رہا ہے۔
واضح رہے کہ 2020 کے اختتام تک سعودی عرب ترکی میں بنی ہوئی بہت سی اشیا کا بائیکاٹ کی حوصلہ افزائی کررہا تھا۔نیز سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اردوغان اور ان کی ’’جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی‘‘ پر اخوان المسلمین کے ساتھ تعلقات کا الزام بھی عائد کیا جارہا تھا۔ جبکہ ترکی کی قطر کے ساتھ کئی سطحوں پر شراکت داری بھی جاری تھی اور یہ شراکت داری 2017 اور 2021 کے درمیان سعودی، مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے لیے شدید پریشانی کا باعث بھی بنتی جارہی تھی۔حتی کہ2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات اس قدر خراب ہو گئے تھے کہ اسی عرصے کے دوران سعودی حکومت نے اپنے شہریوں کو ترکی جانے اور وہاں کی بنی اشیا کے استعمال سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن پھر امریکی صدر بائیڈن کے اقتدار میں آتے ہی مشرق وسطی بدلا بدلا سے نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔
اس تبدیلی کا آغاز اُس وقت ہوا تھا جب گزشتہ سال اچانک ہی سعودی عرب اور ترکی نے اپنی اپنی سفارتی سطح پر بہت سے اقدامات کرنا شروع کردیئے ۔ جیسے ترک وزیر خارجہ میولوت چاوسولو نے گزشتہ سال اکتوبر میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ اردوغان نے سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز السعود سے فون پر بات کی تھی۔ترکی اور متحدہ عرب امارات کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کے درمیان سعودی عرب نے اردوغان حکومت کے ساتھ بات چیت میں اضافہ کیا۔ ابوظہبی کے ولی عہد اور متحدہ عرب امارات کے اصل حکمران کے طور پر دیکھے جانے والے محمد بن زید النہیان نے گزشتہ سال نومبر میں ترکی کا دورہ کیا تھا۔دراصل یہ دورہ ترکی اور عرب حکومتوں کے سفارتی تعلقات میں بہتری کے لیے گیم چینجر ثابت ہوا تھا۔
حالیہ برسوں میںمتحدہ عرب امارات نے ترکی کے ساتھ سرمایہ کاری کا ایک بڑا معاہدہ بھی کرلیا ہے، دونوں ممالک کے درمیان یہ معاشی معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب ترکی کی معیشت کئی محاذوں پر مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ترکی کی کرنسی لیرا تاریخی سطح پر کمزور ہوئی ہے۔نیز تجارتی خسارے یعنی ملکی درآمدات اور برآمدات کے فرق میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ ترکی میں مہنگائی کی شرح 36.1 فیصد تک پہنچ گئی۔جبکہ 2021 میں لیرا کی قیمت میں 44 فیصد کی کمی آچکی ہے۔ معروف ترین معاشی خبر رساں ادارے بلومبرگ کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دسمبر 2019 میں ترکی کی سعودی عرب کو برآمدات 1.02 بلین ریال سے کم ہو کر 506 ملین ریال ہو گئی تھی یعنی 95 فیصد کی تاریخی کمی آئی تھی۔ ترکی کے ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2020 میں ترکی کی سعودی عرب کو برآمدات میں 78 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
ہماری دانست میں سعودی عرب اور ترکی کے معاشی ، سیاسی اور سفارتی تعلقات مضبوط ہونے سے دونوں ممالک کی معیشت میں زبردست بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ چونکہ یہ بات دونوں ممالک کی قیادتیں بھی بہت اچھی طرح سے جانتی ہیں ۔ شاید اسی لیے طیب اردغان اگلے ماہ سعودی عرب کا دورہ کرکے اپنے دیرینہ مسائل کا کوئی قابل اور نتیجہ خیز عمل حل نکالنا چاہتے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ترکی کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں نمایاں بہتری واقع ہوتی ہے ،جس کے اَب واضح امکانات پیدا ہوچکے ہیں تو دونوں ممالک کے درمیان مستقبل قریب میں مضبوط دفاعی تعلقات کا بھی آغاز ہوسکتاہے اور ترکی سعودی عرب کو فوجی ساز و سامان مثلاً ڈرون وغیرہ باآسانی فراہم کر سکتا ہے، جس کی مدد سے سعودی عرب حوثی باغیوں کو باآسانی شکست سے دوچار کرسکتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔