میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مولویوں کے زرداری مفتی نعیم کی کالی میراث، جرائم اور ناجائز دولت کے گورکھ دھندے

مولویوں کے زرداری مفتی نعیم کی کالی میراث، جرائم اور ناجائز دولت کے گورکھ دھندے

جرات ڈیسک
بدھ, ۱۹ اکتوبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

٭ مولانا کے پاس صرف کیش کی صورت میں 3 5/کروڑ1 4/ لاکھ 4ہزار 271 روپے مختلف بینکوں میں موجود تھے۔ یہ رقم صرف چار بینک کھاتوں میں تھیں

٭مفتی نعیم اور بچوں نے کب کتنا ٹیکس دیا، ہائیکورٹ میں ریکارڈ پر بھاری رقم کے سامنے آنے کے بعد ایف بی آر اور انکم ٹیکس حکام نے تاحال کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟

٭مفتی نعیم مرحوم اور صاحبزادوں کا لیاری گینگ وار اورشاہد بکک سے تعلق نے کس طرح فردوس کالونی کی لال مسجد کے مہتمم مولانا عبدالصمد سومرو کی جان لی؟سنسنی خیز حقائق منظرعام پر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جامعہ بنوریہ العالمیہ سائٹ، مدارس کی دنیا کا وہ بھیانک چہرہ ہے، جسے پہچانتے ہوئے احادیث مبارکہ میں علمائے سو کے متعلق تمام وعیدیں یاد آجاتی ہیں۔ دولت کی حرص اور زمینوں کی بھوک نے مفتی نعیم مرحوم اور ان کے پورے خاندان کو ایک ایسی پستی میں دھکیل دیا ہے کہ خود علمائے کرام کا ایک بڑا طبقہ اُن سے دوری کو اپنی نیک نامی کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ علمائے دیوبند کی شاندار تاریخ پر یہ ٹولہ ایک نحوست بن کر چپک گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں جامعہ بنوریہ سے متعلق ایسے گھناؤنے حقائق سامنے آئے ہیں کہ دینی طبقے نے اپنے دانتوں میں انگلیاں دبا لی ہیں۔ مفتی نعیم مرحوم نے جامعہ بنوریہ کے نام پر ایک ایسی بھیانک دنیا بنائی کہ جو اُن کی موت کے بعد بھی اسی گھناؤنے پن کے ساتھ پوری طرح آباد ہے اور دینی طبقے کو منظم طور پر اپنے پنجے میں لے کر اُنہیں برباد کیے جارہی ہے۔ مفتی نعیم مرحوم کی موت کے بعد اُن کے خاندان میں کسی علمی میراث کا تذکرہ نہ ہوا بلکہ وہاں جو جھگڑے سامنے آئے وہ ناجائز دولت کی تقسیم کے تھے۔ مولانا روم ؒ نے فرمایا ہے کہ ریشم کا کیڑا ریشم میں اور تعفن کا کیڑا تعفن میں رہتا ہے۔ مفتی نعیم مرحوم نے مولویوں کے زرداری بننے کی آرزو پالی تو وہ تعفن کی اسی دنیا میں رہے۔ اُن کے بچے بھی مفتی نعیم کی حرص وہوس کی اسی کالی وراثت کو دانتوں سے پکڑے ہوئے ہیں تو وہ بھی اسی طرح آلودہئ نان ونمک رہتے ہیں۔


مفتی نعیم مرحوم کی موت کے بعد خود اُن کے بیٹے مفتی نعمان نے عدالت سے رجوع کرتے ہوئے اپنے والد کی جائیداد کے بٹوارے کی درخواست دائر کی۔ اس ضمن میں عدالت نے جب مفتی نعیم کی جائیداد کا تخمینہ لگانے کو کہا تو جو حقائق سامنے آئے، اس نے خود ہائیکورٹ کے منصفین کو بھی ہکا بکا کردیا۔ مولانا کے پاس صرف کیش کی صورت میں 3 5/کروڑ1 4/ لاکھ 4ہزار 271 روپے مختلف بینکوں میں موجود تھے۔ یہ رقم صرف چار بینک کھاتوں میں تھیں۔ جن میں الائیڈ بینک لمیٹڈ سائٹ برانچ کا ایک کھاتا، فیصل بینک کی سائٹ برانچ کے دو کھاتے اور فیصل اسلامک سیونگ گروتھ فنڈ کا ایک کھاتا شامل ہے۔جرأت کے مستند ذرائع کے مطابق یہ چار کھاتے صرف وہ تھے، جو خاندان کے اندر تنازع کا باعث بنے، اس کے علاوہ رقوم کا ایک بہت بڑا خزانہ وہ بھی ہے جو مفتی نعیم نے مختلف صورتوں میں کھپایا ہوا تھا۔ (جس کی سنسنی خیز تفصیلات الگ شائع کی جائیں گی)۔ مزید براں خاندان کے بچوں کے پاس پہلے سے موجود رقم کو کہیں پر بھی تقسیم کے گوشوارے میں نہیں لایا گیا۔ بلکہ وہ رقم جس کے پاس جیسے تھی، اُسی صورت میں ہضم کر لی گئی۔ ایسی مختلف رقوم کو جرأت نے اپنے تحقیقی ذرائع سے کھوجنے کی کوشش کی تو نہایت چشم کشا ہندسے برآمد ہوئے۔ (ان تفصیلات کو شواہد کے ساتھ الگ شائع کیا جائے گا)۔سر دست ان چار کھاتوں میں موجود رقم کے حوالے سے جس پہلو کو ابھی تک نظر انداز کیا گیا، وہ یہ ہے کہ اس آمدنی پر مفتی نعیم اور اس کے خاندان نے کب کتنا ٹیکس دیا۔ اور ہائیکورٹ میں ریکارڈ پر اس بھاری رقم کے سامنے آنے کے بعد ایف بی آر اور انکم ٹیکس حکام نے تاحال کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ (جرأت کی تحقیقاتی ٹیم نے اس پر فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے ایف بی آر کے حکام کو متوجہ کرنے کے لیے اپنی قانونی ٹیم سے صلاح مشورے شروع کردیے ہیں)۔یہ مفتی نعیم کی مذہب کی آڑ میں بنائی ہوئی بھیانک دنیا کا محض ایک پہلو ہے۔ مذہب کو حرص و ہوس کے لیے استعمال کرنے والے ان جھوٹے مدعیان کے لیے بڑی بوڑھیوں کا یہ فقرہ حسب حال ہے کہ کیسا خدا، کیسا نبی، پیسہ خدا پیسہ نبی۔

  • جامعہ بنوریہ سے متعلق ایسے گھناؤنے حقائق سامنے آئے ہیں کہ دینی طبقے نے اپنے دانتوں میں انگلیاں دبا لی ہیں۔ مفتی نعیم مرحوم نے جامعہ بنوریہ کے نام پر ایک ایسی بھیانک دنیا بنائی کہ جو اُن کی موت کے بعد بھی اسی گھناؤنے پن کے ساتھ پوری طرح آباد ہے اور دینی طبقے کو منظم طور پر اپنے پنجے میں لے کر اُنہیں برباد کیے جارہی ہے۔علمائے کرام نے اپنی نیک نامی کے لیے ان سے دوری اختیار کرنا ضروری سمجھ لیا۔
  • مفتی نعیم مرحوم نے مذہب کی آڑ میں ایسی بھیانک دنیا تشکیل دینے کے لیے انتہائی گھناؤنے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ اس ضمن میں کراچی میں موجود جرائم کی دنیا سے ایک تال میل قائم کی۔ ایم کیوایم کے زمانہئ عروج میں موجود دہشت گردوں کو اپنے پے رول پر رکھا۔ ایک مذہبی تنظیم کے زبردست دینی کاز کے لیے سرگرم نوجوانوں کو اپنے آلودہ مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ ایک سابق گورنر سندھ کے ساتھ تعلق قائم کرکے سائٹ سمیت بہت سے علاقوں کے کاروباری حضرات کو خوف کے ماحول میں رکھ کر دولت سمیٹی۔ یہی وہ خفیہ تال میل تھی، جس کے نتیجے میں بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کا سانحہ رونما ہوا۔ اس فیکٹری میں لگی آگ سے اپنے آلودہ ہاتھوں سے جیبوں کو گرم رکھنے کے لیے مفتی نعیم مرحوم بھی متحرک ہوئے۔ کراچی میں پڑے لاشے ان کی حرص کو معدوم نہ کرسکے۔ فیکٹریوں میں اُٹھتے دھویں نے ان کی دولت کی ہوس ختم نہ کی۔ نشانہ کشی (ٹارگٹ کلنگ) کی وارداتوں نے بھی ان کے ہوسناک دلوں کو ٹھنڈا نہیں کیا۔ اس کے بالکل برعکس طور پر یہ ساری وارداتیں ان کو مزید کٹھور اور مزید حریص بنانے کا باعث بنیں۔ اس ضمن میں حقائق اتنے بھیانک ہیں کہ اسے بیان کرتے ہوئے بھی قے آنے لگتی ہے۔ مذکورہ تمام پہلوؤں کی تفصیلات الگ الگ طور پر شائع کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ جسے قسط وار قارئین کے سامنے بے نقاب کیا جائے گا۔ اس حوالے سے یہ تمام حقائق منظرعام پر لائیں جائیں گے کہ کس طرح مفتی نعیم مرحوم اور ان کے صاحبزادوں نے لیاری گینگ وار کو استعمال کیا۔ شاہد بکک سے مولانا اور ان کے بچوں کاکیا تعلق تھا؟ اس تعلق نے کس طرح فردوس کالونی کی لال مسجد کے مہتمم مولانا عبدالصمد سومرو کی جان لی؟ یہ واقعہ کس پلاٹ پر قبضہ خالی کرانے کی مہم کا نتیجہ تھا؟ مفتی نعیم مرحوم نے اپنے ہی ساتھی کی جان جانے کے بعد اُس کی نماز جنازہ پڑھنا اور پڑھانابھی کیوں گوارا نہیں کیا؟ ایک مذہبی تنظیم کے زبردست کاز سے وابستہ کن کن نوجوانوں کو کہاں کہاں کن کن وارداتوں میں استعمال کیا گیا؟ مولانا عبدالحمید تونسوی اور ان جیسے مختلف ادوار میں جنم لیتے کردار مفتی نعیم مرحوم اور ان کے بیٹوں کے پاس کیا کردار ادا کرتے ہیں؟پھر ان کا انجام کیا ہوتا ہے؟ اب تک مفتی نعیم مرحوم کی حرص وہوس نے کتنے لوگوں کی جانیں لی ہیں۔ یہ تمام حقائق الگ الگ موضوع بحث بنائیں جائیں گے۔
  • چار کھاتے صرف وہ ہیں جو خاندان کے اندر تنازع کا باعث بنے، اس کے علاوہ رقوم کا ایک بہت بڑا خزانہ وہ بھی ہے جو مفتی نعیم نے مختلف صورتوں میں کھپایا ہوا تھا۔ مزید براں خاندان کے بچوں کے پاس پہلے سے موجود رقم کو کہیں پر بھی تقسیم کے گوشوارے میں نہیں لایا گیا۔ بلکہ وہ رقم جس کے پاس جیسے تھی، اُسی صورت میں ہضم کر لی گئی۔ ایسی مختلف رقوم کو جرأت نے اپنے تحقیقی ذرائع سے کھوجنے کی کوشش کی تو نہایت چشم کشا ہندسے برآمد ہوئے۔
  • مفتی  نعیم مرحوم اور ان کے بچے مجرمانہ سرگرمیوں کا حصہ دراصل زمینوں پر قبضے کی گھناؤنی مہم کے باعث بنے۔ بنوریہ کے نام سے سائٹ پر  قائم مدرسے کا بیشتر حصہ دراصل غیر قانونی ہے۔ یہی نہیں اس مدرسے پر تعمیرات بھی کسی نقشے اور منظوری کے بغیر ہے۔ ضوابط کے خلاف قائم مدرسے کی تعمیرات کے اندر ایسے ذیلی ادارے بھی بنالیے گئے ہیں جن کے کمرے کرایوں پر دیے جاتے ہیں اور جہاں مشکوک سرگرمیوں کے عینی شاہدین بھی موجود ہیں۔یہی نہیں بنوریہ سائٹ کے ساتھ بنوریہ ریسٹورنٹ کی زمین بھی انتہائی ناجائز طور پر نابینا بھائیوں سے ہتھیائی گئی۔ اس حوالے سے جرأت کی جاری تفتیش کے حقائق بھی جلد منظر عام پر لائے جائیں گے۔ واضح رہے کہ مفتی نعیم مرحوم کے ناجائز قبضوں کی داستان کا یہ صرف ایک پہلو ہے۔ وگرنہ سائٹ اور کراچی بھر میں مفتی نعیم اور ان کے بچوں نے ان گنت جگہوں پر قبضے کر رکھے ہیں۔ اس حوالے سے سالم زمینوں پر قبضے اور قبضے چھڑانے کے نام پر کی جانے والی وارداتیں الگ موضوع بنائیں گے، یہاں صرف یہ پہلو پیش نظر رہنا چاہئے کہ مساجد پر قبضوں کے ذریعے اس سے ملحق خالی جگہوں کو ہتھیانے کا عمل جامعہ بنوریہ میں ایک صنعت کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ اس حوالے سے ان کے طریقہ واردات کا یہ پہلو واضح رہنا چاہئے کہ جامعہ بنوریہ کسی بھی مسجد پر قبضے سے پہلے مذکورہ مسجد کے اندر پہلے سے موجود انتظامیہ کے خلاف ایک گروپ اور محاذ کھڑا کرتی ہے، اس دوران وہ مسجد یا مدرسے کے دونوں فریقوں کو اپنی حمایت کا الگ الگ یقین دلاتے ہوئے اُن سے اپنی ثالثی منواتے ہیں۔ جب وہ فریقین سے اس انجینئرڈ رضامندی کو حاصل کرلیتے ہیں تو پھر مسجد کے امام، موذن اور انتظامیہ کو اپنی مرضی سے تبدیل کردیتے ہیں۔ اگر اس کی مزاحمت ہو تو پھر وہ اپنے کچھ افراد کی کہیں نہ کہیں تعیناتی ضرور کرواتے ہیں۔ اس معاملے میں ایک گھناؤنا انکشاف یہ بھی ہوا ہے کہ مفتی نعیم مرحوم اور ان کے بیٹوں نے باقاعدہ مسجد کا مصلیٰ بیچنا شروع کیا۔ اس سے مراد مسجد کے امام کی تعیناتی ہے۔ وہ جس مسجد میں بھی فتنے کا کوئی بیج بوتے ہیں تو سب سے پہلے وہاں اپنے امام کی تعیناتی پر زور دیتے ہیں۔ اگر مسجد پوش علاقے کی ہو، جہاں مستقل بنیادوں پر چندے میسر آتے ہوں تو پھر اپنے ہی امام کو وہ اس منصب کو فروخت کرتے ہیں۔ نمائندہ جرأت کو مستند ذرائع سے ایسے پانچ اماموں سے گفتگو کرنے کا موقع ملا جنہوں نے تسلیم کیا کہ وہ بنوریہ کے ذمہ داران کو امامت کا منصب حاصل کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں سے رقوم دے چکے ہیں۔ جرأت کے پاس موجود بے شمار رسیدوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بنوریہ ماہانہ بنیادوں پر اپنی زیرتحویل مساجد سے مختلف مدات میں رقوم اینٹھتی ہے۔ (جاری ہے)

مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں