آئینی ترمیم کے محاذ پر حکومت کو بدترین شکست
شیئر کریں
پیر کو بھی آئین میں ترمیم کیلئے بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں آئینی ترامیم کی قرارداد پیش نہیں کی جاسکی اور اس طرح یہ دونوں اجلاس رسمی کارروائی کے بعد ملتوی کردیے گئے۔مجوزہ ترامیم پیکیج پاکستان کے 1973ء میں منظور ہونے والے آئین میں چھبیسویں ترمیم ہوں گی۔ لیکن جیسا کہ اوپر ذکر کیاگیا کہ اس ترمیم کے لیے حکومت کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے، یعنی قومی اسمبلی میں حکومت کے پاس 224 ووٹ ہونے چاہئیں جبکہ سینیٹ میں 64 ووٹ درکار ہیں۔ اس وقت تک قومی اسمبلی میں حکومت کے پاس 211 اور سینیٹ میں 54 ارکان ہیں۔ یوں ایوانِ زیریں میں حکومت کو 13 اور ایوانِ بالا میں 10 مزید ووٹ درکار ہیں جن کے بغیر مجوزہ آئینی ترامیم پیکیج کی منظوری ممکن نہیں۔ حکومت مسلسل اس تگ و دو میں لگی ہوئی ہے کہ کسی بھی طرح سے وہ اتنے ارکان کو اپنے حق میں کر لے کہ وہ آسانی سے مجوزہ ترامیم منظور کراسکے۔حکومت کی طرف سے کئی بار یہ کہا جاچکا ہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم پیکیج کا مقصد پارلیمان اور عدلیہ کو مضبوط بنانا ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پارلیمان اور عدلیہ کو مضبوط بنانے کے دعووں کے باوجود اس پیکیج میں شامل ترامیم کو تاحال منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ اس سلسلے میں جے یو آئی اور بی این پی نے حکومتی ارکان سے یہ تقاضا کیا کہ اگر آپ ہم سے ووٹ لینا چاہتے ہیں تو ان ترامیم کا ڈرافٹ ہمیں دیں تاکہ ہم ان کا جائزہ لے سکیں۔ اگر حکومت واقعی کچھ غلط نہیں کررہی اور مجوزہ پیکیج کے ذریعے کسی ایک جماعت، گروہ یا شخص کو فائدہ یا نقصان نہیں پہنچایا جارہا تو پھر اس پیکیج کو خفیہ رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
آئین ایک عوامی دستاویز ہے اور ملک کے ہر شہری کو یہ جاننے کا حق ہے کہ پارلیمان اس دستاویز میں کون سی تبدیلیاں کرنا چاہ رہی ہے۔ یہ بات اپوزیشن سے زیادہ حزبِ اقتدار کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک اور عوام کا مفاد کسی بھی شخص، گروہ یا جماعت سے برتر ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس ملتوی کئے جانے کے عمل سے ثابت ہوگیاہے اگر حکومت کے پاس آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظور کرانے کے لیے دو تہائی اکثریت یعنی 224 ووٹ درکار ہوتے، جو حکمرانوں کے بلند بانگ دعووں کے باوجود حکومت اور اس کے اتحادیوں کے پاس بظاہر نہیں ہیں۔جبکہ سینیٹ میں بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں ہے اس حوالے سے 14 ستمبر کو چیئرمین سینیٹ نے صحافیوں کے سوال کے جواب میں صاف کہا تھا کہ ’نمبر کے متعلق جو افواہیں ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ نمبرز پورے ہوں گے تو بل پاس ہوگا۔ اس میں آپ کو فکر کی ضرورت ہی نہیں،نمبرز کی کمی کی وجہ ہی سے گزشتہ روز قومی سمبلی کے اجلاس میں ترامیم نہ پیش نہیں کی جا سکیں اور سینیٹ و قومی اسمبلی کے اجلاس پیر تک ملتوی ہوئے تھے۔پیر کے روز سینیٹ کا اجلاس جب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان کی زیرصدارت شروع ہوا تو پارلیمنٹ کی جانب سے احمدیوں کو غیرمسلم قرار دینے کے دن کو سرکاری سطح پر منانے اور چھٹی کے اعلان سے متعلق قرارداد سینیٹ میں سینیٹر عطاالرحمان نے پیش کی تو 7ستمبر کو سرکاری تعطیل سے متعلق قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔پیر کے روز ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے حکومت کے اس موقف کے برخلاف کہ اس کے پاس نمبر پورے ہیں صاف کہہ دیا کہ ’ترامیم پر اتفاق ہوگیا تو ایوان میں لائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ آئینی مسودے کو آئینی شکل دے کر منظور کرائیں گے۔ آئینی عدالت میثاق جمہوریت کا حصہ ہے اور کئی ممالک میں یہ موجود ہے آئینی عدالت عدلیہ کی ہی ملکیت رہے گی یہ آئینی معاملات ہی دیکھے گی۔ عام سائل کے مقدمات کا جلد فیصلہ ہو گا۔ ایک کیس کا فیصلہ 25 سال میں ہوا، عدالتوں میں 27 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں ان کا جلد فیصلہ ہونا چاہیے۔پاکستان مسلم لیگ ن کے دیگر رہنماؤں نے آئین میں ترمیم کا بل ایوان مین پیش کرنے میں حکومت کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی ترامیم پر مشاورت کے لیے معاملہ 10 سے 15 روز تک موخر کر دیا گیا ہے۔ جبکہ حکومتی وزرا بالخصوص وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ اب بھی، میڈیا پر یہ دعویٰ کرتے سنائی دیے کہ حکومت کے پاس آئینی ترمیم کے لیے ’نمبر‘ پورے ہیں اور حکومت کو مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قومی اسمبلی میں 8 جبکہ سینٹ میں 5 اراکین ہیں لیکن وزرا کے ان دعووں کے برعکس جمعیت علمائے اسلام کے رہنماؤں کا کہناہے کہ انھوں نے ابھی حکومت کی حمایت یا مخالفت کے حوالے سے کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا۔ اس کا فیصلہ آئینی ترمیم کا مسودہ دیکھنے اور اس پر غور کے بعد ہی کیا جائے گا۔آنکھ بند کرکے کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کی جاسکتی۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ حکومت کی جانب سے کسی نہ کسی طرح آئینی ترامیم کا بل منظور کرانے کی خواہش نے پارلیمنٹ میں 13 نشستیں رکھنے والی جماعت جے یوآئی کو بڑی جماعتوں سے بھی زیادہ اہم بنا دیا ہے۔اس سے قبل آئین میں مجوزہ ترمیمی بل پر وفاقی حکومتی اور مولانا فضل الرحمن کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے درمیان اتوار کو رات گئے تک اتفاق نہ ہونے کے سبب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے الگ الگ اجلاس پیر کو 12:30 بجے طلب کیے گئے تھے۔آئینی ترامیم کا معاملہ گزشتہ چند روز سے زیر بحث تھا سیاسی ملاقاتیں اور مشاورت بھی جاری رہیں۔ اتوار کے روز امکان تھا کہ ترامیم کا بل ایوان میں پیش کیا جائے گا لیکن وزیراعظم شہباز شریف کی تمام تر منتوں اور ترلوں کے باوجود نمبر گیم پورے کرنا حکومت کے لیے ممکن نہ ہو سکا۔ گزشتہ روز اتنی افراتفری تھی کہ لگ رہا تھا کہ حکومت رات گئے ہی ترامیم منظور کروانے میں کامیاب ہوجائے گی،لیکن حکومت کی تمام تر کوششیں رائیگاں گئیں اور آج ایک دم ہی معاملہ موخر کر دیا گیاحکمراں اتحاد کی کوشش تھی کہ انھیں اس آئینی ترمیم پر مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی حمایت مل جائے، جبکہ دوسری طرف پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی چاہ رہی تھی کہ مولانا فضل الرحمان ان کے موقف کی حمایت کریں اور عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم منظور نہ ہوسکے۔حکمراں اتحاد اور پی ٹی آئی کے رہنما اتوار کو بار بار مولانا فضل الرحمان کے گھر پر ملاقاتوں کے لیے پہنچے اور اس دوران ان کی امامت میں نمازیں ادا کرنے کی تصاویر بھی منظر عام پر آئیں۔ تاہم ان ملاقاتوں کے دوران مولانا فضل الرحمان نے کسی بھی جماعت کو اپنی حمایت کا یقین نہیں دلایا۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمداللہ نے بتایا کہ ان کی جماعت کا مقصد پارلیمنٹ کو خود مختار بنانا ہے اور ان کی جماعت طاقت پر نہیں بلکہ عوامی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔اب حکومتی حلقوں نے آئینی ترامیم غیر معینہ مدت تک موخر ہونے کی تصدیق کر کے اپنی بدترین شکست تسلیم کرلی ہے اور یہ ثابت ہوچکاہے کہ اب حکومت پارلیمنٹ میں بھی عام قانون سازی کے علاوہ طاقت کے بل پرآئین میں چھیڑ چھار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اوراسمبلی اور سینیٹ میں ان کے پر کترنے کیلئے مولانا فصل الرحمان ہی کافی ہیں۔
مجوزہ آئینی ترامیم پیکیج کی منظوری کے لیے پارلیمان کے ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی کا اجلاس اتوار کو بلایا گیا تھا لیکن حکومت نمبر پورے نہیں کرسکی جس کی وجہ سے اجلاس رات گئے تک بار بار ملتوی کیا جاتارہا،قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بار بار ملتوی کئے جانے اور شہباز شریف کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کے در پر حاضریوں سے پورے ملک کو پتہ چل گیا تھا کہ حکومت کے پاس مجوزہ ترامیم کو منظور کرانے کے لیے پارلیمان میں نمبر پورے نہیں تھے جن کے لیے مسلسل کوششیں کی جا رہی تھیں۔حکومت نے ناکامی کی شرمندگی سے بچنے کیلئے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو اپنے حق میں کرنے کے لیے تمام حربے استعمال کیے۔ اسی سلسلے میں جمعہ کو وزیراعظم محمد شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی اور انھیں آئینی ترامیم کے لیے حکومت کا ساتھ دینے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔ جے یو آئی کے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کو بھی آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دینے کے لیے منانے کی کوشش کی جا تی رہی لیکن یہ دودھ کے جلے چھاچھ بھی بغیر پھونکے پینے کو تیار نہیں ہوئے اور اس طرح حکومت کو ناکامی کا کلنک اپنے ماتھے پر سجانے پر مجبور ہونا پڑا۔
حکومت پارلیمان میں آئینی ترامیم کا جو پیکیج پیش کرناچاہتی تھی اس میں چالیس سے زائد شقیں ہیں جن میں آئین کی شق 51، 63، 175 اور 187شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، بلوچستان اسمبلی میں کی نشستیں 65 سے بڑھا کر 81 کرنے سے متعلق ترمیم بھی اس پیکیج میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں حزبِ اختلاف کے لیے جو ترامیم پریشانی کا باعث بنی ہوئی تھیں ان کا تعلق عدلیہ سے ہے۔ ممکنہ طور پر حکومت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری اور تعیناتی کا اختیار بالواسطہ طورپر اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی تھی تاکہ اپنے من پسند ججوں کو بٹھاکر من پسند فیصلے حاصل کئے جاسکیں اور ہائیکورٹ کے ججوں کے سروں پر ملک میں کہیں بھی تبادلے کی تلوار لٹکتی رہے اور وہ تبادلوں سے بچنے کیلئے حکومت کے اشارے پر فیصلے دینے پر مجبور ہوجائیں۔اپنی ان کوششوں کو درست ظاہر کرنے کیلئے حکومت نے بھرپور پروپیگنڈا مہم چلائی اور نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار بھی اس پروپیگنڈا مہم میں نمایاں نظر آئے ان کہنا تھا کہ 2006ء میں ہونے والے میثاقِ جمہوریت نامی معاہدے میں بھی آئینی عدالت کا ذکر ہے اور اس پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے بھی دستخط کیے ہوئے ہیں۔حزبِ اختلاف کی طرف سے حکومت کے مجوزہ آئینی ترامیم پیکیج کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا تارہا۔ جس کی وجہ سے اس ترمیم کو حق بجانب ثابت کرنے کیلئے حکومت کی چلائی گئی پوری مہم اور حکومت کی جانب سے جاری کی گئی تمام وضاحتیں بیکار ثابت ہوئیں اور عوام تو درکنار حکومت ارکان اسمبلی کو بھی اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی،آئینی ترمیم کے حوالے سے حکومت کی اس ناکامی سے یہ ثابت ہوگیاہے کہ حکومت نے اپنے کارناموں کو اجاگر کرنے اور اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کی پردوپوشی کرنے کیلئے پروپیگنڈاکرنے کی ذمہ داری جن لوگوں کے حوالے کی ہے وہ اس کے قطعی اہل نہیں ہیں اور ان میں سے بعض لوگ صرف مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کیلئے اپنے بڑوں کی خدمات کے عوض ان عہدوں پر فائز ہیں۔