طالبان کی افغان حکومت کو تسلیم کیا جانا بہت اہم قدم ہو گا،عمران خان
شیئر کریں
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن کے لیے جامع حکومت ہونی چاہیے، تین لاکھ افغان فوج نے طالبان سے لڑائی نہیں کی، کیا پاکستان نے ان سے کہا وہ جنگ نہ لڑیں،پاکستان عالمی برادری کا حصہ ہے، طالبان کی افغان حکومت کو تسلیم کیا جانا بہت اہم قدم ہو گا۔روس کے سرکاری ٹیلیویژن ینٹ ورک آر ٹی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ پاکستان نے طالبان کی امریکا کے خلاف مدد کی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان امریکا اور یورپی ممالک سے زیادہ طاقتور ہے اور اتنا طاقتور ہے کہ اس نے 60 سے 65ہزار معمولی اسلحے سے لیس ملیشیا کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ بہترین اسلحے سے لیس فوج کو شکست دینے میں کامیاب رہی۔انہوںنے کہاکہ یہ ہمارے خلاف پراپیگنڈا ہے جو سب سے افغان حکومت نے شروع کیا تاکہ اپنی نااہلی، کرپشن اور افغانستان کو مناسب حکومت کی فراہمی میں ناکامی کو چھپا سکیں، اسے ایک کٹھ پتلی حکومت تصور کی جاتا تھا جس کا وہاں کے عوام احترام نہیں کرتے تھے اور دوسرا بھارت ہے جس نے اشرف غنی حکومت پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی لیکن اس پراپیگنڈے کی کوئی منطق نہیں ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے، پاکستان کا 22کروڑ عوام کے لیے کْل بجٹ 50ارب ڈالر ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم شدت پسندی کو مدد فراہم کر سکتے ہیں جو امریکا پر حاوی ہو گئی، وہ بھی ایک ایسی جنگ میں جہاں امریکا نے 20سالوں میں 2کھرب ڈالر جھونک دیے لہٰذا یہ محض پراپیگنڈا ہے۔انہوںنے کہاکہ آخر تین لاکھ افغان فوج نے طالبان سے لڑائی نہیں کی، کیا پاکستان نے ان سے کہا کہ وہ جنگ نہ لڑیں لہٰذا اگر آپ نے وجوہات جاننی ہیں کہ طالبان کیوں جیتے اور امریکا کو بالآخر 20سال بعد شکست ہوئی تو آپ کو تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر دنیا کی بہادر ترین افغان قوم کی فوج نے لڑے بغیر ہتھیار کیوں ڈال دئیے۔طالبان کو تسلیم کرنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان عالمی برادری کا حصہ ہے، طالبان کی افغان حکومت کو تسلیم کیا جانا بہت اہم قدم ہو گا، ہم اس وقت افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں کہ افغان حکومت کو ایسا کیا کرنا چاہیے کہ ہم اس کو تسلیم کر سکیں اور ایک متفقہ بات ابھر کر سامنے آئی ہے کہ طالبان کی حکومت کو جامع ہونا چاہیے۔انہوں نے حکومت اس لیے جامع ہونے چاہے کیونکہ افغانستان میں بہت زیادہ تنوع ہے، طالبان ایک پشتون تحریک ہے اور پشتون افغانستان کی نصف آبادی ہیں، پھر وہاں تاجک بڑی اقلیت ہیں، اس کے علاوہ ازبک اور ہزارہ بھی ہیں لہٰذا افغانستان کے مفاد اور دیرپا امن کے قیام کے لیے ہم سب محسوس کرتے ہیں وہاں ایک جامع حکومت ہونی چاہیے جو افغانستان کو متحد کر سکے۔انہوںنے کہاکہ طالبان ایک مشکل جدوجہد سے گزرے ہیں اور انہوں نے انسانی تاریخ کے مہلک ترین ہتھیاروں کا مقابلہ کیا ہے، انہیں اس میں بہت جانی نقصان بھی ہوا لہٰذا اس جنگ میں جنہوں نے زیادہ قربانیاں دی ہیں، چالبان چاہیں گے کہ انہیں حکومت میں مرکزی حصہ ملے البتہ طالبان میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک باقی اقلیتی گروہوں کو جب تک ایک چھتری تلے جمع نہیں کیا جاتا، اس وقت تک حکومت غیرمستحکم رہے گی۔عمران خان نے کہا کہ افغانستان اس وقت ایک تاریخی دوراہے پر کھڑا ہے جو یا تو چالیس سال کی جنگی صورتحال کے بعد استحکام کی طرف بڑھے گا یا پھر یہاں سے غلط سمت میں چلا گیا تو اس سے افراتفری، انسانی بحران، پناہ گزینوں کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے، جو ایک بڑے مسئلے کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔