پیپلزپارٹی کے قوم پرست جماعتوں سے رابطے
شیئر کریں
(رپورٹ: شعیب مختار) سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے نالاں جی ڈی اے اتحاد میں شامل ایاز لطیف پلیجو کو منانے کے لیے پیپلز پارٹی نے کمر کس لی، وفاق کی جانب سے 1971میں پاکستان سے ہجرت کرنے والوں کی جائیدادیں منجمد کرنے کے معاملے پر پیپلز پارٹی نے قوم پرست رہنما سے رابطے تیز کر دیے۔ جمعیت علماء اسلام کے علامہ راشد محمود سومرو بھی قومی عوامی تحریک کے سربراہ کو پیپلزپارٹی مخالف اتحاد کا حصہ بنانے میں ناکام ہو گئے۔ذرائع کے مطابق گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے اتحاد میں شامل رہنما ارباب غلام رحیم کی پی ٹی آئی میں شمولیت پر پارٹی سے سخت ناراض دکھائی دیتے ہیں، جبکہ وفاق کی جانب سے1971میں پاکستان سے ہجرت کرنے والے بنگالیوں کی جائیدادیں ضبط کرنے پر جی ڈی اے کی پراسرار خاموشی کے بعد بھی مزاحمتی پالیسی کو اپنانے کوضروری قرار دے رہے ہیں جنہیں اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے پیپلزپارٹی حالیہ دنوں نہایت سرگرم دکھائی دیتی ہے۔گزشتہ روز لاڑکانہ میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی ارباب غلام رحیم کے کامیاب اجتماع کے بعد پیپلز پارٹی نے سندھ میں مزید متحرک ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس کے پہلے مرحلے میں ایاز لطیف پلیجو کو سندھ کی زمینیں وفاق کی جانب سے تحویل میں لینے پر مزاحمتی پالیسی اپنانے میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے پر آمادہ کیا جائے گا، جبکہ دوسرے مرحلے میں انہیں پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی جائے گی۔چند روز قبل جمعیت علماء اسلام کے جنرل سیکریٹری علامہ راشد محمود سومرو کی جانب سے بھی ایاز لطیف پلیجو کو پیپلز پارٹی مخالف اتحاد کا حصے بننے کی پیشکش کی گئی تھی، جس پر انہوں نے مزید مہلت کی درخواست کی ہے۔واضح رہے 5 اگست کو وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی سربراہی میں ایک اجلاس طلب کیا گیا تھا جس میں 1971میں پاکستان سے بنگلہ دیش ہجرت کرنے والوں کی جائیدادیں فروخت سے متعلق متروکہ پراپرٹیز آرگنائزیشن کو روک دیا گیا تھا اور آئندہ ہونے والے اجلاس میں ایسی تمام جائیدادوں کی تفصیلات طلب کی گئیں ہیں، جن سے ہجرت کرنے والوں کا متروکہ پراپرٹیز آرگنائزیشن کی جانب سے تعلق ختم کر دیا گیا ہے۔سندھ حکومت وفاق کے جائیدادوں کو تحویل میں لینے کو 18ویں ترمیم کی خلاف ورزی قرار دے رہی ہے، جبکہ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو کی جانب سے اس معاملے پرآئین کے آرٹیکل 172 کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔بین الاقوامی قوانین اور قانونی ماہرین کے مطابق ہجرت کرنے والا شہری اگر جائیداد کا قانونی مالک نہیں رہتا تو آئینی طور پر تمام تر اثاثوں کا مالک پاکستان نقل مکانی کرنے والوں کو تصور کیا جائے۔