میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پورے پاکستان میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل حلقہ انتخاب

پورے پاکستان میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل حلقہ انتخاب

ویب ڈیسک
هفته, ۱۹ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

ایچ اے نقوی
لاہور سے قومی اسمبلی کاحلقہ 120 پورے پاکستان میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ،اس حلقے کولاہور کادل کہاجاتاہے اس حلقے کو سب سے پہلے اہمیت اس وقت ملی جب 1970کے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اسی انتخابی حلقے سے کم و بیش 78132ووٹ لیکر علامہ اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال کو شکست دی تھی جو اس وقت کونسل مسلم لیگ کے امیدوار تھے اور وہ بھٹو کے مقابلے میں صرف 32921ووٹ حاصل کرسکے تھے۔
الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے نواز شریف کی اہلیہ کے کاغذات نامزدگی پر اٹھائے جانے والے اعتراضات مسترد کرکے انھیں الیکشن لڑنے کی اجازت دئے جانے کے بعدپاکستان کے دل لاہور کے حلقہ 120میں انتخابی معرکے کا عملاًآغاز ہوچکاہے۔ یہ انتخابی حلقہ تاجروں، دکانداروں اور ورکنگ کلاس کے باسیوں کا حلقہ ہے جس میں آرائیں اور کشمیری برادریاں رہتی ہیں اور شیعہ کمیونٹی قابل ذکر تعداد میں موجود ہے۔اس حلقے میں خواندگی کی شرح 80فیصد ہے۔ 1970کے انتخابات میںذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے لاہور کی ساری نشستیں جیت لی تھیں جو بھٹو صاحب کی کرشماتی شخصیت اور نظریاتی سیاست کا معجزہ تھا۔ اقتدار کی مصلحتوں کے پیش نظر پاکستان پیپلز پارٹی نظریاتی سیاست سے دور ہوتی چلی گئی جس سے اس کا ووٹ بینک سکڑتا چلا گیا۔ 1985کے غیر جماعتی انتخابات میں میاں نواز شریف اس انتخابی حلقے سے پہلی بار منتخب ہوئے اور اس طرح سیاست اور تجارت کے امتزاج کا آغاز ہوا۔ 1988میں میاں نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ کے ٹکٹ اور آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑا اور 48318ووٹ حاصل کرکے پاکستان پیپلز پارٹی کے اْمیدوار عارف اقبال بھٹی مرحوم کو ہرا دیا۔ 1990کے انتخابات میں میاں نواز شریف نے اسی حلقے میں ائیر مارشل اصغر خان کو شکست دی۔ 2002کے انتخابات میں شریف خاندان جلاوطن تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے اْمیدوار جہانگیر بدر ، جماعت اسلامی کے اْمیدوار حافظ سلمان بٹ کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
2008کے انتخابات میں میاں نواز شریف کے کاغذات سزائوں کی وجہ سے مسترد ہوگئے تھے اور مسلم لیگ(ن) کے اْمیدوار بلال یٰسین نے اس حلقے سے 65946ووٹ لیکر پاکستان پیپلز پارٹی کے اْمیدوار جہانگیر بدر کو شکست دیدی جنہوں نے 24380ووٹ حاصل کیے۔ 2013کے انتخابات میں تحریک انصاف کا جنون سیاست میں نئے فیکٹر کے طور پر نمودار ہوا۔ میاں نواز شریف نے 91666ووٹ لیے اور تحریک انصاف کی اْمیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد نے 52354 ووٹ حاصل کرکے مسلم لیگ(ن) کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ مسلم لیگ(ن) کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس انتخابی حلقے پر خصوصی توجہ دی۔ ہزاروں افراد کو روزگار اور خصوصی سرکاری مراعات سے نوازا گیااورجس طرح نوازا گیااس کااندازہ ٹی وی اینکر کامران خان کے اس بیان سے لگایاجاسکتاہے کہ اس حلقے میں سب سے زیادہ بجلی چوری کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد باصلاحیت انتھک سیاسی لیڈر ہیں انہوں نے ڈور ٹو ڈور مہم شروع کررکھی ہے۔ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد ڈاکٹر یاسمین راشد کی کامیابی کے امکانات روشن ہوگئے تھے۔ تحریک انصاف کے لیڈر عدلیہ کے تاریخ ساز فیصلہ کے بعد سنہری موقع سے سیاسی فائدہ نہیں اْٹھاسکے۔ تحریک انصاف کے کارکن اگر ہر شہر میں شکرانے کے نوافل ادا کرکے سکتے میں آئے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو مزید دبائو میں لے آتے تو میاں نواز شریف کے لیے جی ٹی روڈ پر ریلی شاید آسان نہ ہوتی۔نواز شریف نے اگرچہ ریاستی اداروں خاص طور پر عدلیہ پر افسوسناک تنقید کرکے سیاسی کلچر کو مزید آلودہ کردیا ہے مگر وہ کامیاب اور پرجوش ریلی کے بعد سیاسی دبائو سے بڑی حدتک باہر نکل آئے ہیں۔
جی ٹی روڈ مارچ نے لاہور کے انتخابی حلقہ 120پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے متوالے پرجوش اور پرعزم ہوگئے ہیں۔مسلم لیگ نے اس حلقہ میں3 بار خاتون اول رہنے والی بیگم کلثوم نواز کو مسلم لیگ(ن) کا اْمیدوار قرار دے کر یہ ثابت کیاہے کہ نواز شریف اقتدار اپنی پارٹی کے بھی کسی انتہائی وفاداراورجاں نثار رہنما کوبھی منتقل کرنے کوتیار نہیں ہیں اور ہرحال میں اقتدار کو اپنے خاندان ہی میں محدود رکھناچاہتے ہیںاگر مسلم لیگ ن کلثوم نواز کی بجائے کسی اور مسلم لیگی رہنما کو اس نشست سے انتخاب لڑانے کافیصلہ کرتی تو شاید مسلم لیگ ن کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ،اورمسلم لیگ ا قتدار شریف خاندان تک محدود رکھنے کے الزام سے بھی بری الذمہ ہوجاتی جبکہ کلثوم نواز کی نامزدگی کی صورت میں اب مسلم لیگ ن کو یہ نشست جیتنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنا پڑے گی اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ یہ نشست جیتنے کے لیے پنجاب حکومت کی پوری مشینری لگانے سے گریز نہیں کیاجائے گا اور اس حلقے کے مختلف محکموں کے سربراہوں اورکاروباری برادری کے لوگوں کو کلثوم نواز کے حق میں مہم چلانے اور ان کے حق میں ووٹ ڈلوانے کے لیے دبائو ڈالا جانا کوئی غیر متوقع بات نہیں ہوگی، جہاں تک اس حلقے میں کلثوم نواز کی مقبولیت کاسوال ہے تو یہ بات واضح ہے کہ کلثوم نواز خاتون اول ہونے کے باوجود کبھی اس حلقے میں نہیں گئیں انھوں نے کبھی اس حلقے کے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی جدوجہد نہیں کی ،اور اس حلقے سے ان کی عدم دلچسپی اور لاتعلقی کا اندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ اس اہم معرکے کو نظر انداز کرتے ہوئے کلثوم نواز علاج کے بہانے کسی اہم خفیہ
مشن پر لندن روانہ ہوگئی ہیں ،حالانکہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو ایاز صادق اور عبدالعلیم خان کے درمیان کڑے انتخابی معرکے کے بعد محتاط ہوجانا چاہئے تھا۔ اس امرسے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ حلقہ نمبر 120کا ضمنی انتخاب مسلم لیگ (ن) کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اگر وہ یہ انتخاب ہار گئی تو شریف خاندان اور مسلم لیگ(ن) دونوں کا سیاسی مستقبل خطرے میں پڑسکتا ہے۔ تحریک انصاف کی اْمیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد لاہور کی مقبول اور انتھک شخصیت ہیں۔وہ کوئی عہدہ اور اختیار نہ ہونے کے باوجود اس حلقے میں انتہائی فعال کردار ادا کرتی رہی ہیں۔اگر تحریک انصاف اپنے 2013کے ووٹوں میں20 ہزار ووٹوں کا اضافہ کرنے اور اس حلقے میں ووٹنگ کے دوران جعلی ووٹنگ روکنے میں کامیاب ہوگئی تواس نشست کانتیجہ مسلم لیگ ن کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتاہے ۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بیگم کلثوم نواز جنرل پرویز مشرف کے دور میں ’’آئرن لیڈی‘‘ کے طور پر سامنے آئیں۔ انہوں نے ’’سیاست کی دلدل‘‘ سے اپنے آپ کو بچا کررکھا ہے۔پاکستان کے سیاسی حلقے جماعتی اختلاف کے باوجود ان کا احترام کرتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران شریف خاندان نیب عدالتوں سے ضمانتیں کرارہا ہوگا۔ تحریک انصاف اس صورت حال سے فائدہ اْٹھا سکتی ہے مگر اس کا میڈیا منظم، مربوط اور یکسو نہیں ہے جبکہ عمران خان کیمروں کا سامنا کرنے کی بجائے ٹویٹ پر زیادہ سرگرم رہتے ہیں جس کا امپیکٹ بہت کم ہوتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی نے سرگرم نوجوان فیصل میر کو انتخابی میدان میں اْتارا ہے۔ وہ اگر حلقہ کے غریب اور محنت کش عوام سے رابطے کریں تو قابل ذکر تعداد میں ووٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ بلاول بھٹو کی لاہور میں موجودگی اور جلسوں میں دھواں دھار تقریروں سے انھیں فائدہ پہنچ سکتاہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن یہ نشست حاصل کرنے کے لیے کیاحکمت عملی اختیار کرتی ہے اور تحریک انصاف اپنی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشداور پاکستان پیپلزپارٹی اپنے امیدوار فیصل میرکو کامیاب بنانے کے لیے کیاحکمت عملی اختیار کرتے ہیں، اس نشست پر یاسمین راشد فیصل میر جیسے مضبوط امیدواروں کی موجودگی کا فائدہ بھی کلثوم نواز کو ہوسکتاہے اور مسلم لیگ ن کے مخالف ووٹ دو جگہ پر تقسیم ہوجانے کی صورت میں کلثوم نواز نسبتاً کم ووٹ حاصل کرکے بھی کامیابی حاصل کرسکتی ہیں، لیکن اگر کلثوم نواز نسبتاً کم مارجن سے یہ نشست جیتتی ہیں تو بھی نواز شریف اور ان کی پارٹی کوسبکی کاسامنا کرناپڑے گاکیونکہ اس سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کو عوام نے قبول کرلیاہے اور اب عوام کے دلوں میں نواز شریف کے لیے وہ عزت واحترام نہیں ہے جو 4سال قبل تھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں