میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سیکرٹ سروس کے منصوبے خاک میں مل گئے !

سیکرٹ سروس کے منصوبے خاک میں مل گئے !

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۹ جولائی ۲۰۲۴

شیئر کریں

جاوید محمود
13جولائی امریکہ کی تاریخ میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ امریکی ریاست پنسلوانیا میں ایک ریلی میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنے والے شخص کی شناخت ایف بی ائی نے تھامس میتھیو کروکس کے نام سے کی ہے جن کی عمر 20برس تھی اور وہ پیتھیل پارک کے رہائشی تھے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق پنسلوانیاکی عوامی عدالت کے ریکارڈ میں حملہ آور کی کوئی مجرمانہ تاریخ نہیں پائی گئی جبکہ حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس حملے کے محرکات کا اندازہ بھی نہیں لگا پائے ۔
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ کرنے والے تھامس کروکس کو ان کے ساتھی ایک خاموش تنہائی پسند اور ایسے لڑکے کے طور پر یاد کرتے ہیں جنہیں اسکول میں متعدد باربولنگ کیا جاتا تھا اور وہ اسکول میں بعض اوقات شکاریوں والا لباس پہن کر آتا تھا ان کی ایک سابق کلاس فیلو سمر بارکلے نے بتایا کہ اس کے ہمیشہ ٹیسٹ میں اچھے نمبر آتے تھے اور وہ تاریخ میں بہت دلچسپی لیتا تھا ۔وہ کہتی ہیں کہ حکومت اور تاریخ سے متعلق وہ بہت کچھ جانتا تھا لیکن یہ بالکل بھی غیر معمولی بات نہیں تھی ۔وہ ہمیشہ بہت اچھے انداز میں پیش آتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اساتذہ بھی انہیں پسند کرتے تھے۔ دیگر ساتھیوں نے بتایا کہ وہ خاموش رہتا تھا ۔میتھل پارک ہائی اسکول کی رائفل ٹیم کے سابق رکن جیمسن مائرز جو کروکس کے ساتھ 2022میں گریجویٹ ہوئے ،نے بتایا کہ وہ اس ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے تھے۔ مائرز کہتے ہیں کہ اسے جونیئر ٹیم میں بھی جگہ نہیں ملی تھی لیکن اس کے بعد اس نے دوبارہ کبھی کوشش نہیں کی۔ مائلزکروکس ایک مناسب لڑکے کے طور پر یاد ہیں جو زیادہ مقبول نہیں تھے لیکن انہیں کبھی کسی ٹیم میں شمولیت کا موقع نہیں ملا ۔وہ ایک اچھے بچے تھے وہ کبھی کسی کے بارے میں کچھ برا نہیں کہتے تھے اور میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ یہ سب کریں گے جو انہوں نے گزشتہ روز میں کیا ۔
کمیونٹی کے دیگر افراد کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا دھچکا لگا ہے اگرچہ ایف بی آئی ٹرمپ پر حملے کی تحقیقات کی قیادت کر رہی ہے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ تاہم الزام لگانے والوں کی انگلیاں واضح طور پر سیکریٹ سروس کی طرف ہی اشارہ کرتی ہیں۔ ایک حاضر سروس امریکی صدر پر ہوئے قاتلانہ حملے کو 43 برس ہو چکے ہیں۔ رونالڈ ریگن کو پھیپھڑوں میں گولی ماری گئی تھی لیکن وہ بچ گئے تھے۔ آج امریکی سیاستدان اور عوام جاننا چاہتے ہیں کہ ایک قاتل کس طرح رائفل سے لیس ہو ایک چھت پر پہنچا اور پوڈیم کی طرف چار گولیاں چلانے میں کامیاب ہوا اور یہ سب کچھ ایک ایسے علاقے میں ہوا جس کی مکمل سیکیورٹی کلیرنس دی گئی تھی۔ تحقیقات میں ایف بی آئی سیکرٹ سروس اور محکمہ ہوم لینڈ سیکورٹی شامل ہیں۔ سیکرٹ سروس کی ڈائریکٹر کیمبرلی چیٹل کو 22 جولائی کو امریکی ایوان نمائندگان کے سامنے گواہی کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ سیکرٹ سروس کتنی تیار تھی اس بارے میں کئی سوالات جواب طلب ہیں۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کوپنسلوانیا میں ایک ریلی کے دوران گولی مارے جانے کے بعد سیکرٹ سروس کو کئی سوالات کا سامنا ہے۔ سیکرٹ سروس کے ترجمان اینتھونی گلی کا کہنا ہے کہ ایک غلط دعویٰ پھیلایا جا رہا ہے جس کے مطابق ٹرمپ کی سیکیورٹی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے اضافی سیکیورٹی کی درخواست کی تھی مسترد کیا گیا تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بالکل غلط ہے۔ درحقیقت ہم نے اس الیکشن کی مہم کے دوران اضافی وسائل اور ٹیکنالوجی کو شامل کرتے ہوئے ٹیم کی صلاحیتوں تو کو بہتر بنایا ہے۔ فرینک گارڈ کہتے ہیں کہ اس واقعے کی فوری تحقیقات کے بنیادی طور پر دو راستے ہیں ۔پہلے میں ایف بی آئی اور پولیس کو مل کر جاسوسی کا کام کرنا ہے۔ حملہ آور کی شناخت ہو چکی ہے۔ لہٰذا اب جاسوسوں کو اس کے محرک حالیہ دنوں میں وہ کہاں کہاں گیا اور کس کس سے رابطے میں رہا وغیرہ بس اس کی تفتیش کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات جو انہیں پتہ لگانے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ کیا وہ اکیلا تھا یا اس کے کوئی ساتھی بھی موجود تھے جن سے وہ خود جا کر ملتا تھا یا یہ رابطے آن لائن تھے؟ کیا وہ کسی بھی قسم کے گروپ یا تنظیم کے لیے کام کر رہا تھا؟ شاید کسی بیرونی ملک کے لیے ایجنسیاں اس وقت اس کے گھر سے ملنے والی کسی بھی ٹیکنالوجی ڈیوائس کا جائزہ لے رہی ہونگیں اور یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہونگیں کہ وہ کن ویب سائٹس پر گیا کن چیٹ گروپس سے تعلق رکھتا تھا اور وہ کس کس سے بات کر رہا تھا اور پھر وہی عجیب سا سوال سامنے آتا ہے کہ ایجنسیوں نے سیکیورٹی کی بڑی کوتاہی کیسے ہونی دی؟ 7ہزار افراد پر مشتمل سیکرٹ سروس کا بنیادی کام ہی موجودہ اور سابق امریکی صدور کی حفاظت کرنا ہے۔ امریکہ میں بندوق خریدنا بہت آسان ہے۔ یہاں اتنا اسلحہ ہے کہ آبادی کے حساب سے تقریبا ہر تین افراد کے لیے ایک رائفل موجود ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک رائفل سے لیس شخص چھت پر چڑھ کر رینگتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک 130میٹر کے فاصلے تک پہنچ سکے۔ عوام کی جانب سے ملنے والی وارننگز کو کیوں نظر انداز کیا گیا اور ان کی چھان بین کیوں نہیں کی گئی اور لوگ یہ بھی پوچھیں گے کہ صدارتی انتخاب سے محض چار ماہ قبل سیکرٹ سروس اس شخص کی حفاظت کرنے میں کیوں ناکام رہی جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ امریکہ کے اگلے صدر ہوں گے؟
امریکی صدر کی سیکورٹی کی ذمہ داری خفیہ ادارے سیکرٹ سروس کے پاس ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ ایجنسی 1865 میں قائم ہوئی لیکن 1901 سے امریکی صدور کی حفاظت کا کام سونپا گیا۔ سیکرٹ سروس میں تقریبا 7ہزار ایجنٹس اور افسران کام کرتے ہیں اور اس میں خواتین بھی شامل ہیں ۔ان کی تربیتی مشقوں کو دنیا کی مشکل ترین مشقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ یوں تو امریکہ کے صدر کو طاقتور ترین عالمی رہنما تصور کیا جاتا ہے مگر ان کی سلامتی سے متعلق فیصلے وہ خود نہیں کر سکتے بلکہ یہ فیصلے سیکرٹ سروس کو لینے ہوتے ہیں ۔یہاں تک کہ اگر صدر چاہتے ہیں کہ انہیں تنہا چھوڑ دیا جائے تو ممکن ہے کہ اس حکم کی تعمیل نہ کی جائے۔ اگر امریکی صدر کسی بھی ملک کا دورہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو سیکرٹ سروس مقررہ تاریخ سے تقریبا تین ماہ قبل اپنا کام شروع کر دیتی ہے۔ امریکی صدر سیکورٹی کے متعدد تہوں میں مشتمل ڈھال پر چلتے ہیں جو اسے نہ صرف مضبوط بلکہ مہنگا بھی بنا دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں امریکہ کے چار صدور کو قتل کیا جا چکا ہے۔ 1865 میں ابراہم لنکن ،1881میں جیمز گارفیلڈ، 1901میں ویلیم میک کینیلے، 1963میں جان ایف کینیڈی۔ لہٰذا امریکہ اپنے صدور کی سلامتی کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہے۔ صدر کی حفاظت کی تین تہیں ہوتی ہیں۔ حفاظتی ڈویژن کے ایجنٹ اندر سے پھر درمیان میں سیکرٹ سروس کے ایجنٹ پھر پولیس کسی بھی ملک کے دورے سے پہلے سیکرٹ سروس اور وائٹ ہاؤس کا عملہ تین سے دو ماہ پہلے وہاں آتا ہے اور مقامی ایجنسیوں سے ملنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ وہاں انٹیلی جنس بیورو کے وی وی آئی پی سیکیورٹی ماہرین سے بات کرتے ہیں۔ سیکرٹ سروس فیصلہ کرتی ہے کہ صدر کہاں ٹھہریں گے اور اس کی جگہ مکمل چھان بین کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ہوٹل کے عملے کا بیک گراؤنڈ چیک کیا جاتا ہے اور بہت سے انتظامات نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایئرپورٹ پر فضائی حدود کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ صرف ان کا ایئر فورس ون طیارہ نہیں آتا چھ بوئنگ سی 17طیارے اس کے ساتھ اڑتے ہیں ۔ان میں ایک ہیلی کاپٹر بھی ہے۔ ان کے پاس لیموزین گاڑیاں مواصلاتی آلات بہت سے دوسرے ایجنٹ اور عملے کے ارکان ہیں۔ سیکرٹ سروس اور مقامی ایجنسی صدر کے قافلے کا راستہ طے کرتی ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں کہاں فرار ہونا ہے۔ قریبی ہسپتال کون سے ہیں ۔ایجنٹ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ صدر ہسپتال کے ٹراما سینٹر سے دس منٹ سے زیادہ دور نہ ہوں۔ ایمرجنسی کی صورت میں ڈاکٹروں کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے ہر قریبی ہسپتال کے باہر ایک ایجنٹ تعینات ہوتا ہے۔ ان کے بلڈ گروپ کا خون بھی ساتھ رکھا جاتا ہے تاکہ انہیں خون کی منتقلی ضرورت پڑنے پر انتظار نہ کرنا پڑے۔ جیسے جیسے ان کی آمد کی تاریخ قریب آتی ہے۔ ایجنٹ صدر کے راستے میں ہر ایک اسٹاپ کو چیک کرتے ہیں جس ہوٹل میں وہ ٹھہرتے ہیں، اس کے آس پاس سڑکوں پر کھڑی کاریں ہٹا دی جاتی ہیں۔ جب امریکی صدر سفر کرتے ہیں تو دنیا رک جاتی ہے۔ ہوٹل میں صدر کے لیے پوری منزل خالی کروا لی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اوپر سے نیچے کی منزلیں بھی خالی رکھی جاتی ہیں ۔وہاں صرف عملے کے لوگ ہی رہ سکتے ہیں ۔پورے کمرے کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ خفیہ کیمرے ریکارڈنگ ڈیوائسز تو نہیں ہیں۔ ٹی وی اور ہوٹل کے فون بھی ہٹا دیے جاتے ہیں اور کھڑکیوں پر بلٹ پروف شیلڈز بھی لگائی جاتی ہیں۔ صدر کا کھانا پکانے والا عملہ بھی ساتھ آتا ہے۔ سیکرٹ سروس بھی وہاں کھڑی نظر آتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرے۔ انہیں فوج میں اس شخص کی بھی حفاظت کرنی ہوتی ہے جو ہر وقت صدر کے ساتھ ہوتا ہے جس کے پاس امریکی ایٹمی میزائل داغنے کا بریف کیس ہوتا ہے ۔صدر اپنی لیموزین کار میں سفر کرتے ہیں اس گاڑی کا نام دی بیسٹ رکھا گیا ہے جو ہر سہولت سے لیس ہے نہ صرف بلٹ پروف ہے بلکہ اس میں زیادہ دفاعی آلات اور ٹیکنیکی بھی ہیں جیسے ا سموگ اسکرین انسو گیس، نائٹ ویژن ،ٹیکنالوجی کیمیائی حملوں سے تحفظ آور گرنیٹ لانچرز ڈرائیور اس قدر تربیت یافتہ ہیں کہ حملے کی صورت میں وہ مخالف سمت میں 180ڈگری موڑ لیتے ہیں۔ سیکرٹ سروس کے رہنما اصولوں کے مطابق صدر 45منٹ سے زیادہ کھلی فضا میں نہیں رہ سکتے۔ سیکرٹ سروس میں رہنے والے کچھ لوگ کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک کتاب جوف پیٹرو نے لکھی ہے جو 23سال تک امریکی خفیہ سروس میں اسپیشل ایجنٹ رہے۔ ان کے علاوہ رونا کیسلر نے صدر کی خفیہ سروس میں 100سے زیادہ سیکرٹ سروس ایجنٹوں کا انٹرویو کر کے کتاب لکھی ہے۔ امریکی صدر جب بھی کہیں باہر جاتے ہیں تو ہزاروں لوگ ان کے ساتھ موجود ہوتے ہیں ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب امریکی صدر سفر کرتے ہیں تو دنیا رک جاتی ہے۔ لیکن یہ حیرت کی بات ہے کہ ایک 20سالہ نوجوان نے سیکرٹ سروس کے تمام احتیاطی تدابیر کوخاک میں ملا دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں