حمزہ شہباز تو گئے، شہباز شریف کی وزارتِ عظمیٰ خطرے میں
شیئر کریں
تجزیہ: (باسط علی) نواز لیگ کے لیے پنجاب کے ضمنی انتخاب کے نتائج نے بقا کا مسئلہ پیدا کردیا ہے۔ تحریک انصاف کے ہاتھوں مسلم لیگ نون کی عبرت ناک شکست نے سنجیدہ حلقوں میں سوال پیدا کردیا ہے کہ کیا واقعی تحریک انصاف نے نواز لیگ کے سیاسی ورثے کو خطرات سے دوچار کردیا ہے؟ تاریخ میں پہلی مرتبہ نواز لیگ کے لیے یہ سوال اُبھر اہے کہ کیا یہ جماعت اپنی طبعی عمر پوری کرچکی اور اب پنجاب میں اس کا وجود لرز رہا ہے یا نہیں؟ درحقیقت تحریک انصاف کی پنجاب کے ضمنی انتخاب میں فتح عام فتح نہ تھی، یہ اسٹیبلشمنٹ کی واضح مخالفت اور تمام ریاستی اداروں کی کھلی یا چھپی عداوت کے باوجود حاصل کی گئی فتح تھی۔ اس ضمن میں اضافی عناصر بھی نہایت اہم تھے۔ مرکز اور پنجاب میں نواز لیگ کی اپنی حکومتیں تھیں، پندرہ جماعتی اتحادکی حمایت کے علاوہ انتخابی دنگل جن علاقوں میں تھا، یہ سب نوازلیگ کی سیاسی حمایت کے اہم مراکز تھے، شہبازشریف اسٹیبلشمنٹ کی نئی ڈارلنگ کے طور پر انتخابی میدان میں فتح یاب ہونے کی تمام سہولتیں رکھتے تھے، پھر مرکزی حکومت کے وزیر داخلہ ماڈل ٹاؤن فیم راناثناء اللہ تھے، جو اپنے سخت گیر رویے کے علاوہ اپنے اہداف حاصل کرنے کی خاطر ہر قسم کے طریقے اختیار کرنے کی عمومی شہرت رکھتے ہیں۔ اس پورے منظرنامے میں تحریک انصاف کی پنجاب میں حمایت اور ضمنی انتخاب میں کامیابی نے اس تاثر کو گہرا کردیا ہے کہ اب نوازلیگ کاسیاسی ورثہ ہی خطرے میں ہے جبکہ تحریک انصاف کا راستا روکنا ایک کارِ دشوار ہے۔ چنانچہ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ضمنی انتخاب کی حالیہ فتح 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی سے بھی بڑی فتح کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس صورتِ حال نے نواز لیگ کے فہمیدہ حلقوں کو پریشان کردیا ہے۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ نواز لیگ کے اندر ایک مرتبہ پھر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نوازشریف کی سخت گیر حکمت عملی کو دوبارہ اپنانے پر غور کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف اتحادیوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے مرکزی حکومت کے مستقبل پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ پنجاب کے ضمنی انتخاب کے بعد اگلے مرحلے میں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ میں تبدیلی کا بے قابو سفر اگلے تین روز میں شروع ہوگا، جس میں حمزہ شہباز کی وزارتِ اعلیٰ ماضی کا قصہ سمجھی جارہی ہے۔ اس تبدیلی کے بعد عملاً شہباز شریف کی حکومت سمٹ کر اسلام آباد کے ریڈ زون تک محدود ہوجائے گی۔ وہ تاریخ میں ایسے پہلے وزیراعظم ہو سکتے ہیں جن کی کسی صوبے میں کوئی حکومت نہیں ہوگی، اس حالت میں اُن کے لیے وزارتِ عظمیٰ چلانا ایک انتہائی کٹھن عمل ہوگا۔ چنانچہ پہلے سے حکومت چھوڑنے کو تیار نوازشریف سمیت پارٹی کے دیگر سنجیدہ سیاست دان بھی اب اپنے اس موقف کو نہیں چھپا رہے کہ نون لیگ کو اب فوری حکومت چھوڑ دینی چاہئے۔ یہ اس لیے بھی ضروری باور کیا جارہا ہے کیونکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پنجاب میں تبدیلی کے بعد شہباز سرکاری پر اپنا دباؤ ہر طرح سے بڑھائیں گے، جس کا اشارہ اُنہوں نے پی ٹی آئی کی کورکمیٹی کے اجلاس کے فوری بعد عوام سے اپنے خطاب میں دیا۔ جس میںعمران خان نے واضح کیا کہ فوری اور شفاف انتخاب ہی سیاسی بحران ختم کرنے کا واحد راستا ہے۔ اطلاعات زیر گردش ہیں کہ عمران خان پنجاب میں سیاسی تبدیلی کے بعد اپنی توپوں کا رخ مرکزی حکومت یعنی شہباز سرکار کی جانب کررہے ہیں، جوشہبازشریف کی بحرانوں کے نرغے میں گھری حکومت کے لیے مزید خطرات کا باعث ہوگا۔