میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پولیس افسران کے تبادلے، آئی جی کے گرد گھیراڈالنے کی کوشش

پولیس افسران کے تبادلے، آئی جی کے گرد گھیراڈالنے کی کوشش

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۹ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے اختیارات ملتے ہی صرف ایک ہفتے میں 40 پولیس افسران کے تبادلے کر دیے
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے پاس صرف 6 ایڈیشنل آئی جیز کے تبادلوں کا اختیار رہ گیا،وہ پیر کے روز کر دیے گئے
الیاس احمد
پاکستان بننے سے لے کر آج تک ہر حکومت اس لیے بھی مضبوط ہوتی ہے کیونکہ وہ ہمیشہ پولیس کے ذریعہ حکومت کرتی ہے اور پولیس کو مخالفین کے خلاف استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے۔ یہ کھیل ایوب خان سے شروع ہوا اور اب تک بلا خوف و خطر جاری ہے۔ کبھی مولانا شاہ احمد نورانی، تو کبھی اکبر بگٹی، کبھی پاکستان قومی اتحاد کی قیادت تو کبھی ایم آر ڈی کی قیادت، پاکستان پی ڈی اے تو کبھی اے آر ڈی کی قیادت جیل بھیج دی جاتی ہے۔ یہ سب مارشل لاء اور جمہوری حکومتوں کے دور میں ہوتا رہتا ہے۔ اس حد تک پولیس کو استعمال کیا جاتا ہے کہ چادر اور چار دیواری اور مشرقی روایات کا تقدس بھی پا مال کیا جاتا ہے۔ بینظیر بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، کلثوم نواز ، وینا حیات، شہلا رضا، راحیلہ ا ٹوانہ، کلثوم چانڈیو سمیت ایسی سینکڑوں خواتین ہیں جو پولیس گردی کا شکار ہوئی ہیں۔ پویس انہیں صرف اس لیے گرفتار کرتی رہی کہ اس سے وقت کے حاکم کو خوشی ملے گی، موجودہ حکومت نے بھی پولیس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ حتیٰ کہ اپنے ہی دوستوں اور حامیوں کو نہیں بخشا گیا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ پہلے پولیس افسران کی تقرریاںا ور تبادلے کرتے تھے، اب کانسٹیبل سے لے کر ڈی آئی جی تک تبادلوں کا اختیار وزیر داخلہ سہیل انور سیال کو ملا ہے تو انہوں نے دھڑا دھڑ تبادلے شروع کر دیے ہیں اور ان کا دفتر اب ایک دُکان کی شکل پیش کر رہا ہے ،جہاں ہر عہدے کے دام مقرر ہیں اور دام دے کر خریداری کی جاسکتی ہے صرف ایک ہفتے میں 40 پولیس افسران کے تبادلے کر دیے گئے ہیں، ہر ڈویژن میں تبادلے کر دیے گئے ہیں جس پر زبردست تنقید بھی ہو رہی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر بآ لاخر وزیراعلیٰ نے بھی چپ کا روزہ توڑا ہے، وہ اب صرف 6 ایڈیشنل آئی جیز کے تبادلے کر سکتے ہیں اور وہی تبادلے انہوں نے پیر کے روز کر دیے ہیں۔ چیئرمین اینٹی کرپشن غلام قادر تھیبو نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ ان کو آئی جی سندھ پولیس لگایا جائے جس کے لیے انہوں نے طاقتور خاتون رکن قومی اسمبلی کے پاس حاضری بھی دی لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا اور بآلاخر وہ تھک ہار کر دوبارہ کراچی پولیس چیف بن گئے ہیں جہاں پہلے وہ غلام حیدر جمالی کے ساتھ کام کرچکے ہیں اب اپنے سے جونیئر اے ڈی خواجہ کے ماتحت کام کریں گے۔ مشتاق مہر کو کراچی پولیس چیف کے عہدے سے اس لیے ہٹایا گیا کیونکہ وہ واحد افسر تھے جو حکومت اور آئی جی سندھ پولیس کے تنازع میں کھل کر آئی جی کے ساتھ کھڑے ہوگئے جس پر حکومت سندھ ان سے ناراض ہوگئی۔ ایڈیشنل آئی جی ریسرچ سردار عبدالمجید دستی کو اس لیے ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس لگایا گیا تاکہ ان کے ذریعہ سندھ پولیس کے معاملات چلائے جائیں، صرف دو ایڈیشنل آئی جی ثناء اللہ عباسی اور ولی اللہ دل کو تبدیل نہیں کیا گیا ۔باقی پانچ ایڈیشنل آئی جی سردار عبدالمجید دستی، مشتاق مہر، غلام قادر تھیبو، آفتاب پٹھان، خادم حسین بھٹی کے تبادلے کیے گئے ہیں۔
آفتاب پٹھان کو ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس کے عہدے سے اس وجہ سے ہٹایا گیا کیونکہ وہ اچھی شہرت رکھنے والے افسر ہیں اور انور مجید ان سے خفا ہیں۔ اس وجہ سے سندھ پولیس میں ایڈیشنل آئی جی سندھ کے معاملات میں وہ انور مجید اینڈ کمپنی کے احکامات پر من و عن عمل نہیں کر رہے تھے۔ حالیہ تبادلوں میں غلام قادر تھیبو کو ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس اور سردار عبدالمجید دستی کو ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس مقرر کرکے آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کو تنگ کرنے کی کوشش کا آغاز کیا گیا ہے۔ ان دونوں افسران کو کہاگیا ہے کہ وہ وہی کام کریں گے جن کا انہیں انور مجید سے حکم ملے گا۔ مزیدار بات یہ ہے کہ دونوں پولیس افسران غلام قادر تھیبو اور سردار عبدالمجید دستی آئی جی سندھ پولیس کے عہدے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ 3 اپریل 2017 کو حکومت سندھ نے وفاقی حکومت کو جو تین نام بطور نئے آئی جی سندھ پولیس کے لیے سفارش کرکے بھیجے تھے ان میں دونوں افسران شامل تھے، اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں پولیس افسران کیسے آئی جی کے عہدے تک پہنچ پاتے ہیں؟ اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ ان میں سے کون سے افسران آئی جی سندھ پولیس کو زیادہ تنگ کرتے ہیں؟ اور پھر حکومت سندھ سے شاباس وصول کرتے ہیں۔ مگر حالیہ تبادلوں سے ایک بات تو طے ہوگئی ہے کہ سپریم کورٹ میں آئی جی سندھ پولیس کے اختیارات کی بحالی کے لیے رٹ پٹیشن دائر ہوئی ہے، تب سے حکومت سندھ سب سے زیادہ پریشان ہے حکومت سندھ سپریم کورٹ میں جانے سے قبل آئی جی سندھ پولیس کو تنگ کرنا چاہتی ہے اور آئی جی سندھ کو محدود کرنا چاہتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں