میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کی ’’دفاعی امداد‘‘ کے لیے امریکی ایوان نمائندگان کی ناروا شرائط

پاکستان کی ’’دفاعی امداد‘‘ کے لیے امریکی ایوان نمائندگان کی ناروا شرائط

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۹ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

امریکی ایوان نمائندگان نے پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد پر مزید شرائط عائد کرنے کا بل منظور کر لیا ہے۔بل کے تحت بھارت سے دفاعی تعاون بڑھایا جائے گا جبکہ پاکستان کی 40 کروڑ ڈالر امداد سے پہلے امریکی وزیر دفاع کو پاکستان سے متعلق سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوگا کہ پاکستان کسی دہشت گرد کی مالی یاعسکری مدد نہیں کررہا اور یہ کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن اور عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے افغان حکومت سے تعاون کررہا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ امریکا افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے نئی پالیسی کا اعلان بھی جلد کردے گا۔امریکی امداد کے 696اراب ڈالر سے زائد کے اس دفاعی پالیسی بل کے حق میں 344 اور مخالفت میں 81 ووٹ ڈالے گئے، بل پرعمل اسی سال یکم اکتوبر سے ہوگا۔بل میں لگائی گئی نئی شرائط کے تحت پاکستان کودفاعی امدادحاصل کرنے کے لیے انسداد دہشت گردی آپریشنز کے لیے واضح اقدامات کرنے ہوں گے، سرحد پارحملے روکنے کے ساتھ ساتھ بارودی سرنگوں سے نمٹنے کے لیے مناسب کارروائی کرنا ہوگی۔بل کے تحت یکم اکتوبر 2017 سے31 دسمبر 2018 تک پاکستان کے لیے مخصوص 40 کروڑ ڈالرامداد اس وقت تک نہیں دی جائے گی جب تک امریکی وزیر دفاع اس بات کی تصدیق نہ کردیں کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف مسلسل فوجی آپریشن کر رہا ہے اور پاک افغان سرحد پر عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے افغان حکومت سے مکمل تعاون کر رہا ہے۔دفاعی پالیسی بل اب سینٹ سے منظورہوگا جس کے بعدامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس کی حتمی منظوری دیں گے اوریہ قانون کی شکل اختیار کر جائے گا۔ادھر امریکی قومی سلامتی کے مشیر جنرل ایچ آر میک ماسٹر کا کہنا ہے کہ امریکا ایسی پالیسی پر کام کررہا ہے جوکسی ایک ملک کے لیے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے لیے ہوگی لیکن اس کااطلاق خصوصی طورپر پاکستان اور افغانستان دونوں پر کیا جاسکے گا، پالیسی کا اعلان جلدکر دیا جائے گا۔
امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد پر مزید شرائط عائد کرنے کا یہ بل امریکا کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کے ناقابل فراموش کردار سے جس کااعتراف خود امریکی صدر اورفوجی قائدین بھی کرتے رہے ہیں، روگردانی ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس جنگ میں جہاں پاکستان کی معیشت ڈوبی ،وہیں 6 ہزار سکیورٹی اہلکاروں سمیت ساٹھ ہزار سے زائد پاکستانی اس جنگ کی نذر ہو گئے۔ اتنی ہلاکتیں تو اب تک مجموعی طورپر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا اور اس کے 50 کے قریب اتحادیوں کی بھی نہیں ہوئیں۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ پاکستان کو دہشت گردی کی لعنت کاسامنا بھی امریکا کا ساتھ دینے کی وجہ سے ہی کرناپڑرہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا معاون ہی نہیں محسن بھی ہے۔ پاکستان نے اپنی استعداد سے بڑھ کر امریکاکا ساتھ نہ دیا ہوتا تو اسے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے محض خواب ہی دیکھنے پر اکتفا کرنا پڑتا۔ پاکستان کے افغان وار ٹو میں بھی اہم کردار کے باوجود امریکا کا مکمل جھکائو بھارت کی جانب ہے جو امریکا کی طوطا چشمی کا اظہار ہے۔
امریکا جس کو دفاعی امداد کہتا ہے وہ کوئی امداد یا خیرات نہیںبلکہ امریکا کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی رقوم امریکی فوج اور فوجی سازوسامان کے لیے پاکستان کی جانب سے فراہم کی گئی راہداری ، تنصیبات کے استعمال اور سہولت کا غیر طے شدہ معاوضہ ہے۔ پاکستان کی متعلقہ وزارتوں اور حکام کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انفراسٹرکچر کی تباہی کی مد میں پاکستان کو 108 ارب ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ امریکا کی طرف سے فراہم کی گئی رقم جسے امریکا امداد کہتا ہے اس کی کل مالیت 16 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں، یہ رقم بھی قسطوں میں ادا کی گئی جو نقصان کا عشر عشیر بھی نہیں اور 60 ہزار سے زائد انسانی جانوں کی قیمت اور مداوا ہر گز نہیں ہوسکتا۔
بھارت کی طرف امریکا کے اس جھکائو کی بظاہر یہی وجہ ہے کہ چین کی تیز رفتار معاشی ترقی اور بڑھتی ہوئی دفاعی قوت کے پیش نظر امریکا بھارت کو چین کے مقابل لانے اور خطے کا تھانیدار بنانے کے لیے کوشاں ہے مگر یہ سب پاکستان کی قیمت پر کرنا افسوسناک اور اس ملک کو نظر انداز کرنا شرمناک بھی ہے جسے امریکا اپنا فرنٹ لائن اتحادی قراردیتا ہے۔ دفاعی امداد کے لیے اب جو شرائط عائد کی جا رہی ہیں ان میں سے کچھ کا پورا کیا جانا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس میں ایک تو سرحد پار حملوں کو روکنے کے حوالے سے ہے۔ پاکستان کی طرف سے افغانستان میں کبھی دراندازی نہیں کی گئی۔ سرحد کے دونوں جانب دہشت گرد اگر جاتے آتے ہیں تو اس کابنیادی سبب افغانستان کی طرف سے دہشت گردوں کی پشت پناہی ہے۔ بھارت افغان سرزمین پاکستان میں مداخلت اور دہشت گردی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ پاکستان سے دہشت گرد اگر افغانستان میں داخل ہوتے ہیں تو اس میں پاکستان کا عمل دخل نہیں ہو سکتا۔ 27 سو کلومیٹر طویل سرحد ناپسندیدہ عناصر کی آمدورفت کے لیے کھلی ہے۔ اس سرحد پر نقل و حمل کو کنٹرول کرنا پاکستان کے کنٹرول میں ہوتا تو آپریشن ضرب عضب کے ساتھ ہی ہزاروں دہشت گرد افغانستان فرار نہ ہو جاتے۔ جن کی افغانستان میں حکومتی سطح پر پزیرائی ہوتی ہے۔ اور انہیں وہاں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں۔ مولوی فضل اللہ اور اس جیسے دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی کے لیے سازشوں کے تانے بانے بُنتے اور وہاں سے دہشت گردوں کو دہشت گردی کے لیے بھجواتے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردوں کی آمدورفت روکنے کے لیے بارڈر مینجمنٹ شروع کی تو افغانستان نے بھارت کے ایما پر اس کی سخت مخالفت شروع کردی ہے کیونکہ بھارت کو پاکستان کے خلاف مداخلت کے راستے مسدود ہوتے نظر آتے ہیں۔ امریکا بھی پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب اور دیوار کی تعمیر کے پاکستانی منصوبے پر خاموش ہے حالانکہ سرحد پار دہشت گردی روکنے کا اس سے بہتر کوئی منصوبہ نہیں ہو سکتا مگر امریکا باڑ اور دیوار کے مجوزہ منصوبے کی مخالفت پر افغانستان کو شٹ اپ کال نہیں دے رہا۔
امریکی وزیردفاع کو40 کروڑ روپے کی امداد کے لیے یہ سرٹیفکیٹ بھی دینا ہو گاکہ پاک افغان سرحد پر عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے پاکستان افغان حکومت سے مکمل تعاون کر رہا ہے۔ افغان حکمران جو بھارت کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہے ہیں وہ کسی صورت عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے پاکستان کے تعاون کا اعتراف نہیں کریں گے۔ بھارت کے ایما ہی پر تو افغان انتظامیہ افغانستان کے اندر ہونے والی دہشت گرد ی کی کارروائیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتی ہے۔ افغانستان اور بھارت تو پاکستان کے خلاف کھل کر زہر اگلتے اور ہرزہ سرائی کرتے ہیں ان کو امریکا کی اب تائید اور حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے تو امریکی وزیر دفاع کی طرف سے پاکستان کی ’’امداد‘‘ کے لیے تصدیق کا کتنے فیصد امکان رہ جاتا ہے؟
امریکا جس طرح بھارت کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے، اس کے شانہ بشانہ ہے اور روایتی اسلحہ کے ساتھ سول نیو کلیئر توانائی کے معاہدے کر رہا ہے، اس کے پیش نظرہمارے خیال میں اب پاکستان کو امریکا بھارت گٹھ جوڑ کے مقابلے میں چین اور روس کے ساتھ مل کر ایک اقتصادی و دفاعی بلاک بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ چین اور روس کو ایسے بلاک کی ضرورت کا ادراک بھی ہے اور پاکستان کے لیے اس کی اہمیت اب دو چند ہوچکی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں