تین لاپتا افراد کی کہانی ۔۔!!
شیئر کریں
حیرت ہے کہ ان تین میں سے دو افراد تو سندھ سے غائب ہوئے ہیں، تو پھر یہ احتجاج کیساہے اور کس کے خلاف ہے جو سابق صدر مملکت بھی بول پڑے ؟
تینوں لاپتا افراد پی پی پی جوائن کرنے سے پہلے قوم پرست تھے ،تینوں ہی پیپلز پارٹی میں کوئی خاص عہدہ یا اہمیت نہیں رکھتے تھے ،صرف زردار ی کے خاص الخاص ہیں
محمد فہد بلوچ
ابھی شرجیل میمن کی واپسی، پانچ ارب روپے کرپشن کیسز میں ضمانت اور ڈاکٹر عاصم کی ساڑھے چار سوارب روپے سے زائد کی کرپشن کیسز میں ضمانت پر پیپلز پارٹی اپنے قائد آصف علی زرداری کی قائدانہ صلاحیت اور ڈیل کرکے ان کو ریلیف دلوانے کے کارنامے کی جے جے کار کرنے سے فارغ ہی نہیں ہوئی تھی کہ زرداری صاحب کے تین خاص آدمیوں کے یکے بعد دیگرے گمشدگی نے جیالوں کے جشن کا مزہ کرکرا کر دیا۔آخریہ تین لوگ اشفاق لغاری، نواب لغاری اور غلام قادر مری کون ہیں؟ یہ پیپلز پارٹی کے اتنے خاص لوگ تو ہوں گے ہی کہ سندھ اسمبلی سے لے کر قومی اسمبلی تک پوری پارٹی سب کام چھوڑ کر ان کے لیے سراپا احتجاج ہے۔ اور ان کی گمشدگی کو پیپلز پارٹی صوبائی خود مختاری میں مداخلت قرار دے رہی ہے۔ اگر یہ بھی نہیں تو یہ لوگ پارٹی کے عہدیدار تو ضرور ہوں گے اوراگر وہ بھی نہیں تو بھلا پارٹی کے لیے ان کی ان گنت قربانیاں تو ضرور ہوں گی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہے، ان تینوں کی واحد خاصیت یہ ہے کہ یہ آصف علی زرداری کے خاص آدمی ہیں بس۔اس بات پر بھی حیرت ہے کہ ان تین میں سے دو افراد تو سندھ سے غائب ہوئے ہیں اور سندھ حکومت نے بھی ان کی گرفتاری کی نہیں گمشدگی کی ہی بات کی ہے، تو پھر یہ احتجاج کیسا اور کس کے ساتھ؟سندھ میں تو پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، ان کو ڈھونڈنا بھی ان ہی کو چاہیے۔ آخر یہ تین لوگ ہیں کون جن کے لیے پیپلز پارٹی بھرپور احتجاج پر اتر آئی ہے۔
غلام قادر مری سندھ میں لاپتہ ہونے والے ان افراد میں شامل ہیں جن کا پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری سے قریبی تعلق بتایا جاتا ہے۔غلام قادر مری کے بارے میں یہ درخواست ان کے بھائی اسماعیل مری نے دائر کی ہے۔ اس میں مو¿قف اختیار کیا گیا ہے کہ 4اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی سے واپسی پر غلام قادر مری کو جام شورو کے قریب سے تین ساتھیوں سمیت جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔درخواست میں مو¿قف اختیار کیا گیا ہے کہ غلام قادر مری کسی بھی مقدمے میں ملوث نہیں ہیں اور اگر وہ کہیں ملوث قرار بھی دیے گئے ہیں تو ان کی گرفتاری ظاہر کی جائے۔غلام قادر مری ٹنڈو الہیار کے رہائشی ہیں اور وہ ٹنڈو الہیار کے علاوہ سانگھڑ اور بدین میں زرداری خاندان کی زرعی زمینیں سنبھالتے ہیں۔ اس علاقے میں گنے کی کاشت بھی اچھی ہوتی ہے۔ ابتدا میں وہ ایک چھوٹے زمیندار تھے لیکن بعد میں ایک بڑے زمیندار بن گئے۔چند سال قبل آصف علی زرداری کی چھوٹی صاحبزادی آصفہ بھٹو کا ووٹ بھی ٹنڈو الہیار کے انتخابی حلقے میں درج کروایا گیا تھا، جہاں غلام قادر مری اثر و رسوخ رکھتے ہیں ،وہ ضلع کونسل کے رکن بھی ہیں۔غلام قادر مری، بلوچ قوم پرست مزاحمت کاروں کے بھی قریب رہے ہیں۔ 1970ءکی دہائی کی مزاحمتی تحریک کے رہنما شیر محمد عرف شیروف مری افغانستان سے واپسی پر جب حیدرآباد تشریف لائے تھے تو ان کے میزبان غلام قادر مری ہی تھے۔ کراچی میں مقیم نواب خیر بخش مری کے پاس بھی ان کا اکثر آنا جانا ہوتا تھا۔
غلام قادر مری سے قبل سابق مشیر نواب لغاری مبینہ طور پر اسلام آباد سے لاپتہ ہوگئے تھے۔ ان کی بیگم بدرالنساءنے اس گمشدگی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے اور عدالت نے وزرات داخلہ، وزرات دفاع اور پولیس کو نوٹس جاری کیے ہیں۔بدرالنساءنے مو¿قف اختیار کیا ہے کہ 4 اپریل کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کے روپ میں اغوا کار آئے اور ان سے شناختی کارڈ طلب کیا اور کارڈ چیک کرنے کے بعد انہیں گاڑی میں ڈال کر ساتھ لے گئے۔نواب لغاری کا تعلق سندھ کے ضلع دادو کے شہر خیرپور ناتھن شاہ سے ہے۔ انہوں نے سیاست کی ابتدا سندھی قوم پرست جماعت سے کی تھی۔ ان کا نام اس وقت سامنے آیا جب 30ستمبر 1988ءکو حیدرآباد میں فائرنگ کے واقعات میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔اس واقعے نے بعد میں سندھی مہاجر لسانی فسادات کی شکل اختیار کرلی تھی۔ ان واقعات کا مقدمہ موجودہ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ قادر مگسی، جانو آرائیں اور نواب لغاری پر بھی دائر کیا گیا لیکن بعد میں عدالت نے انہیں بری کر دیا تھا۔نواب لغاری کے کزن رمضان لغاری کا کہنا ہے کہ 1994ءمیں جب بینظیر بھٹو خیرپور ناتھن شاہ آئی تھیں تو نواب لغاری نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی، جس کے بعد سے ان کا خاندان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہے۔حیدرآباد میں جب 18ستمبر 1997ءکو سابق وفاقی سیکریٹری عالم خان عالمانی کو قتل کیا گیا تو ایف آئی آر میں آصف علی زرداری اور ان کے والد سمیت سات افراد پر یہ مقدمہ درج کیا گیا تھا اور دو ماہ بعد اس مقدمے میں نواب لغاری کا نام بھی شامل کیا گیا تھا۔اس وقت نواز شریف کی حکومت تھی اور آصف زرداری حراست میں تھے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور عالم عالمانی کے گھر گئیں تھیں، جس کے بعد فریقین نے صلح کرلی اور یوں عالمانی کاخاندان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گیا۔نواب لغاری کو 2012ءمیں سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کا خصوصی مشیر تعینات کیا گیا تھا، ان کے بارے میں بعض لوگوں کی رائے ہے کہ ابتدا میں وہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے قریب تھے۔گزشتہ چند برس سے انہوں نے اسلام آباد میں رہائش اختیار کی ہوئی ہے اور ان کے بچے وہاں زیر تعلیم ہیں جبکہ ایک بچے کا علاج بھی مقامی ہسپتال میں جاری ہے۔
کراچی سے اشفاق لغاری لاپتہ ہیں، جو اومنی گروپ کے ملازم تھے۔ اس گروپ کے سربراہ انور مجید ہیں جو آصف علی زرداری کے بزنس پارٹنر ہیں اور شوگر ملز کا کاروبار سنبھالتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آصف علی زرداری کی وطن واپسی کے دن بھی اومنی گروپ پر رینجرز نے چھاپا مارا تھا۔اشفاق لغاری کے خاندان کا سیاسی پس منظر بھی قوم پرست رہا ہے۔ خاندان کے افراد سندھ ترقی پسند پارٹی، سندھ نیشنل پارٹی اور ورلڈ سندھی کانگریس میں رہے ہیں۔ اشفاق لغاری پہلے جام شورو میں واقع ایک گیس کمپنی میں ملازم تھے اور بعد میں کراچی میں اومنی گروپ سے وابستہ ہوئے۔اس وقت وہ اومنی گروپ کے کنسلٹنٹ ہیںجس کے کرتا دھرتا انور مجید ہیں اور انور مجید آصف علی زرداری کے خاص الخاص ہیںاور سندھ کے کافی معاملات حکومت کے بجائے وہی چلاتے ہیں۔ پانچ اپریل کو اشفاق لغاری کی بیوی ڈاکٹرعاصمہ نے کراچی کے گڈاپ پولیس اسٹیشن پر ان کے اغوا کے خلاف درخواست دی ہے جس کے مطابق ان کے شوہر شام سات بجے ڈیفنس کراچی سے حیدرآباد جانے کے لیے نکلے مگر اس کے بعد ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ پولیس کو ان کی کار سپر ہائی وے پر دربار ہوٹل کے نزدیک ملی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ان مبینہ گمشدگیوں پر کہا ہے کہ ماضی کو دہرایا جارہا ہے۔ ماضی میں آصف زرداری پر مختلف الزامات میں 12 مقدمات دائر کیے گئے تھے جن سے وہ بری ہوئے۔ آصف علی زرداری نے غلام قادر مری کا نام لیے بغیر کہا کہ ‘میرا فارم مینیجر گرفتار ہوا ہے، پتہ نہیں کہ اسے کون لے گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ایک دوست ہیں لغاری، جو رات کو کہیں سے آرہے تھے کہ اغوا ہوگئے۔