پاکستان کے خلاف بھارت، امریکا اور یورپی یونین کی سازش
شیئر کریں
عبدالماجد قریشی
بھارت پاکستان کو شدید نقصان پہنچانے اور عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاتا رہا ہے۔ پاکستان سے دشمنی اسکی رگ رگ اور روئیں روئیں میں بھری ہے۔ اسکی پاکستان کے حوالے سے عیاری و مکاری کسی تعاوف کی محتاج نہیں۔ کل تک وہ روس کے قدموں میں لپٹا تھا تو آج اپنے مذموم مقاصد کی بجاآوری کے لیے امریکا کے تلوے چاٹ رہا ہے۔ آج کل صورتحال یہ ہے کہ بھارت نے جو کہہ دیا امریکا اسی پر یقین اور حقائق کو نظرانداز کرکے پاکستان پر الزامات اور دھمکیوں کی بھرمار کردیتا ہے۔
حال ہی میں ہوئے کابل پراسیس اجلاس میں ایک مرتبہ پھر بھارتی ایما پر امریکا ، افغانستان اور یورپی یونین نے پاکستان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی۔ اجلاس میں تین ایسی دستاویزات پیش کی گئیں جن میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ طالبان مذاکرات کی میز پر آئیں۔ اجلاس سے صرف ایک دن قبل دستاویزات مندوبین کو دکھائی گئیں۔تین اہم دستاویزات کابل ڈیکلریشن، امن کے حوالے سے کانسیپٹ پیپر اور علاقائی انسداد دہشتگردی کے حوالے سے دستاویز کا تبادلہ بروقت پاکستان سے نہیں کیا گیا تھا جو کہ معمول کے ضابطہ کار کی خلاف ورزی ہے۔ جس سے پاکستانی وفد دستاویزات کے مندرجات سے بے خبر رہا۔ کانفرنس کی تیاریوں کے عمل میں پاکستانی سفارتکار شریک نہیں تھے۔ جب پاکستانی وفد کے ارکان کو دستاویزات کے مندرجات کا علم ہوا تو انہوںنے اسے پاکستان کو شرمندہ کرنے کی ایک دانستہ کوشش سمجھتے ہوئے معاملے میں فوری طور پر مداخلت کی اور افغان سائیڈ کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر معاملہ اٹھاتے ہوئے واضح کیا کہ اگر پاکستان کی مرضی کے بغیر ان دستاویزات کی منظوری دی گئی تو یہ صرف یکطرفہ سوچ سمجھی جائیگی۔
اس طرح کی دستاویزات کا عمومی طور پر رکن ممالک کے ساتھ دو سے تین ماہ قبل تبادلہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ مندرجات کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کریں کہ انہیں منظو ر کرنا ہے یا کسی متنازع چیز کی صورت میں اس سے عدم اتفاق کرنا ہے۔فریقین نے ایک دوسرے کی شکایات کا ازالہ کرتے ہوئے دستاویزات میں سے متنازع مندرجات نکال دیئے تھے۔
یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں کیا گیاجب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کے افغان حصے کے افتتاح کے موقع پر اپنی تقریر میں افغانستان کی حمایت کا اعادہ کیاتھا۔ افغان صدر اشرف غنی نے بھی اس توقع کا اظہار کیا تھاکہ پاکستان کابل عمل میں فعال کردار ادا کریگا۔ پاکستان نے خیر سگالی کے جذبے کے طور پر اعلیٰ سطح کا وفد وزارت خارجہ کی خصوصی سیکرٹری تسنیم اسلم کی قیادت میں کابل پراسیس میں شرکت کے لیے بھیجا تھا۔ تسنیم اسلم کا عہدہ افغانستان کے نائب وزیر خارجہ کے مساوی ہے جبکہ بیشتر دیگر رکن ممالک نے اپنے سفیروں یا نائب سفیروں کے ذریعے نمائندگی کی۔پاکستان نے واضح کیا کہ وہ دستاویزات کے ایسے مندرجات یقینی بنانے کا خواہاں ہے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ پاکستانی وفد نے دستاویزات میں استعمال کی گئی زبان پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ۔
باقی جہاں تک افغانستان میں امن کا تعلق ہے تو پاکستان سے زیادہ کون اس کا حمایتی ہوگا۔ افغانستان میں تعینات پاکستان کے سفیر نے واضح طورپر کہا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کی کوئی مدد نہیں کر رہا بلکہ ہم تو طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار پاکستان ہے۔ پاکستان کے خلاف بد گمانیوں کے باوجود افغانستان کو برادر اسلامی ملک سمجھتے ہیں۔ جھگڑا افغانستان حکومت اور طالبان کا اپنا ہے۔ پاکستان کا کردار صرف سہولت کار کا ہے۔
وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ پاکستان نے افغان صدر کا طالبان کو سیاسی طاقت تسلیم کرنے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان افغان طالبان سے براہ راست یا چار فریقی گروپ کے ذریعے امن مذاکرات میں معاونت کے لیے تیار ہے۔اس چار فریقی گروپ میں امریکا، چین، پاکستان اور افغانستان شامل ہیں۔ اگر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں تو یہ مذاکرات دو سیاسی قوتوں کے درمیان ہوں گے۔ پاکستان امن مذاکرات کی حمایت جاری رکھے گا۔ اْنھوں نے کہا کہ پرامن افغانستان نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے۔
بھارت ایسا ہمسایہ ہے جسے امن پسند نہیں۔ امریکا پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات کی تلقین ضرور کرے لیکن اس سے پہلے جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی پالیسی میں توازن پیدا کرے۔ پہلے امریکا خود غیر جانبدار بنے کیونکہ اس کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے۔
امریکی عہدیداروں کی گفتگو سے یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ بھارت افغانستان کا غیر فوجی حل نہیں چاہتا اور اسے اس کے امن عمل سے کوئی سروکار نہیں۔ چین’ روس’ ایران اور پاکستان امن عمل میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مذاکرات کے ذریعے پائیدار امن قائم کرنے کے خواہاں ہیں تاہم اس ضمن میںامریکا کو بھی سنجیدگی سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ طاقت کا استعمال مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ امریکا اور نیٹو نے برسہا برس تک بھرپور طاقت استعمال کرکے دیکھ لیا اربوں ڈالر خرچ کرنے کا کیا نتیجہ نکلا۔ صورتحال یہ ہے کہ اب بھی بعض علاقوں پر افغان حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔ افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ اور بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کی سرگرمیوں اور افغان ایجنسی این ڈی ایس کے ساتھ اس کے اشتراک میں اضافہ کشیدگی میں اضافے کا باعث ہے۔ اگرچہ بھارت اس کے ذریعے پاکستان کے خلاف پراکسی وار شروع کیے ہوئے ہے لیکن دوسری طرف وہ افغانستان میں امن عمل کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہا ہے۔ علاقائی ممالک کا اس امر پر اتفاق ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی افعانستان میںامن قائم کیا جاسکتا ہے یقینا حقیقی راستہ یہی ہے۔ امریکا کو ان ممالک کی کوششوں میں روڑے اٹکانے کے بجائے انہیں نتیجہ خیز بنانے کی کوششیں کرنی چاہئیں اور یہ کوششیں نظر آنی چاہئیں۔
امریکا کے پاس افغانستان کا کوئی ٹھوس حل موجود نہیں جس کی بنیادی وجہ افغانستان کے معروضی حالات سے لا علمی اور امریکی پالیسی ساز اداروں میں تقسیم اور عدم تعاون ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ افغانستان میں امریکی ناکامی کی اصل وجوہات کیا ہیں، یہ بات تو گزشتہ سترہ سال کی جنگی حکمت عملی کے تناظر میں مصمم حقیقت کے طور پر سامنے آچکی ہے کہ مزید فوجی کاروائی کے ذریعے افغانستان میں امن قائم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ پاکستان میں عمومی تاثر یہی ہے کہ امریکا کی افغان پالیسی میں بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً امریکی ایوانوں میں یہ تاثر کہ افغان طالبان کی باگیں پاکستان کے ہاتھ میں ہیں، درست نہیں۔ مزیدبراں یہ سوچ کہ فوجی قوت میں اضافے کی مدد سے افغانستان میں حالات درست کیے جا سکتے ہیں، ناکام ثابت ہو چکی ہے۔
پاکستان دیگرعلاقائی ممالک مثلاً، روس اور چین، کی مدد سے افغانستان میں بات چیت کے ذریعے وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔ البتہ یہ سوچ کہ پاکستان افغان طالبان کی پالیسی یا حکمت عملی کو تبدیل کر سکتا ہے، پاکستانی حکومتی نمائدوں کے مطابق مبالغہ آمیز اور حقائق کے منافی سوچ ہے۔ اس کے علا وہ بہت سے امریکی نمائندہ گان کا یہ مفروضہ کہ پاکستان افغانستان میں عسکریت پسند کارروائیوں کی حمایت کرتا ہے،پاکستان کے پالیسی ساز حلقوں کے مطابق، بالکل بے بنیاد اور حالات میں بہتری کے لیے نہایت ناسازگار ہے۔ امریکا، پاکستان اور افغانستان کی ایک دوسرے پر الزام تراشی سے نہ صرف باہمی کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ پاکستان پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی وجہ سے بے پناہ جانی و مالی نقصان اٹھا چکا ہے اور بہت تگ و دو کے بعد شورش زدہ علا قوں میں امن بحال کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے۔ اس تناظر میں دیکھتے ہوئے پاکستان کا عسکریت پسندی کی حمایت کا جواز بعیداز قیاس ہے۔