میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
محمد ﷺ ہی رسول امن

محمد ﷺ ہی رسول امن

ویب ڈیسک
جمعه, ۱ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

محمد قاسم حمدان
محمد ؐ ساری دنیا کے لیے امن کا پیامبر بن کرآئے ۔آپﷺ کی آمد سے قبل معاشرہ بہائمی تصویر پیش کرتا تھا ۔بیٹیوں کو قتل کرنا غیرت اور شرافت کی علامت سمجھا جاتا ،لوٹ مار کرنا ،آزاد انسانوں کو غلام بنانا ،زنا اور شراب نوشی ایک فیشن تھا ۔محمدﷺ عربی جب دنیا میں تشریف لائے تو آپؐ نے مسلمان کی تعریف ہی یہ کی کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ،اسلام نے جو زریں اصول دنیا کو دئیے وہ کوئی بھی نہ دے سکا ۔اسلام پر جو ایمان رکھتا ہے ا س کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مذہب کے پیر وکے خدا کو گالی بھی دے ، اس کو مارنا اسے نقصان پہنچانا تو بہت دور کی بات ہے ۔پھر فرمایا گیا کہ جس نے کسی انسان کو بلا وجہ قتل کیا یا فتنہ وفساد کا موجب بنا تو گویا اس نے ساری انسانیت کا قتل کر ڈالا ۔ان تعلیمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام اول تا آخر دہشتگردی کے خلاف ہے ۔اسلام سے قبل دنیا میں جتنی قومیں اور سلطنتیں تھیں وہ اسیران جنگ کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتی تھیں جسے سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔عالم عیسائیت میں لوگوں کو ایسی ایسی اذیتیں دی جاتیں کہ روح کانپ اٹھتی ہے لیکن رسول امن ؐ نے جنگ بدر کے بہت سارے اسیران کی رہائی کا فدیہ مدینہ والوں کو تعلیم دینا مقرر کیا ۔
غزوہ بنو مصطلق میں سو سے زاہد زن ومرد قید ہوئے تھے آپؐ نے سب کو بلاکسی فدیہ کے آزاد کر دیا ۔جنگ حنین میں چھ ہزار مردوزن کو بلا کسی شرط وجرمانہ آزاد کر دیا بلکہ اکثر اسیران کو خلعت وانعام دے کر رخصت کیا ۔ نبی مکرؐم تو عدل ورحم ،شرم و حیا ،صبروحلم ،عفوودرگذر، صداقت وامانت ، عفت و عصمت ،زہدوتقوی میں اپنی مثال آپ تھے۔آپؐ درشت خو اور نہ سخت گو تھے ۔آپؐ کی تعلیم اندھوں کو آنکھیں اور بہروں کو کان دیتی اور غافل دلوں کے پردے اٹھا دیتی ہے ۔آپؐ ہر ایک خوبی سے آراستہ ،جملہ اخلاق فاضلہ سے متصف تھے ۔سکینہ ان کا لباس ،نکوئی ان کا شعار ،تقوی ان کا ضمیر ،حکمت ان کا کلام ،عدل ان کی سیرت تھا ،وہ ضلالت کو اٹھا دینے والے ، گمناموں کو رفعت بخشنے والے مجہولوں کونامور کر دینے والے ،قلت کو کثرت اور تنگ دستی کو غنا سے بدل دینے والے تھے ۔ کائنات میں آپؐ واحد ہستی ہیں جنھیں رحمہ للعالمین ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ جو رحمہ للعا لمین ہو وہ فتنہ و فساد ،ظلم و جور ،قتل عام اور دہشت گردی کا خو گر کیسے ہو سکتا ہے ۔رحمہ للعالمین وہی وجود مزکی ٹہرے گا جس نے اہل عالم کی بہبود ،رفاہ وفلاح ،خیروصلاح ،عروج و ارتقاء ،صفاوبہا کے لیے بلا شائبہ غرض اور بلا آمیزش طمع اپنی مقدس زندگی کو صرف کیا ہو ۔جس نے دل کو پاک ،روح کو روشن ،دماغ کو درست، طبع کو ہموار کیا ہو ،جس کی تعلیم نے امن کو مستحکم اور مصلحت عامہ کو استوار کیا ہو جو غریبی وامیری ،جوانی وپیری ،امن وجنگ ،امیدو ترنگ ،گدائی وبادشاہی ،مستی و پارسائی ،رنج و راحت ،ہر پایہ اور ہر مقام پر انسان کی رہبری کرتا ہو ۔
یہ پیغمبر امن ہی ہے جس کی تعلیم نے درندوں کو چوبانی ،بھیڑیوں کو گلہ بانی ،رہزنوں کو جہاںبانی ،غلاموں کو اخوانی سکھائی ہے جس نے خشک میدانوں میں علم و معرفت کے دریا بہائے ہیں جس نے سنگ لاخ زمینوں سے کتاب و حکمت کے چشمے چلائے ہیں جس نے خود غرضوں کو محبت قوی کا درد مند بنایا ہے جو غریب کا محب ،مسکینوں کا ساتھی ،غلاموں کا محسن ، یتیموں کا سہارا، بے آسراوں کا آسرا ،بے خانماوں کا ماوی ،درد مندوںکی دوا ،مساوات کا حامی ،اخوت کا بانی صدق کا منبع،صبر کا معدن ،اور خاکساری کا نمونہ ہے ۔محمدﷺاگر رسول امن کے لقب سے ملقب نہ ہو گا تو ان جملہ صفات کے جامع کا کیا نام ہو گا ۔اگر محمد ﷺ رسول امن نہیں تو اصلاح معاشرہ کے داعی اور ایمان باللہ کے پرچار آدم تا عیسی سے بنی عمارت آخری اینٹ کے بغیر تا قیامت نامکمل رہے گی ۔یہ پیغمبر امن ہی ہیں جنھوں نے ملکوں کی دوری ،اقوام کی بیگانگی ،رنگتوں کے اختلاف ،زبانوں کا تباین دور کر کے سب کے دلوں میں ایک ہی ولو لہ،سب دماغوں میں ایک ہی تصور ،سب زبانوں پر ایک ہی کلمہ جاری کر دیا ۔محمدﷺ کے دربار میں عداس نینوائی اور عدی طائی ،بلال حبشی اور اثامہ نجدی ،ضماد ازدی اور سراقہ مدلجی،سلمان فارسی اور صہیب رومی ،ابو زر غفاری اور کرز فہری پہلو بہ پہلو بیٹھے نظر آتے ہیں ۔یہ پیغمبر امن ہی ہیں جو خونخوار لڑائیوں کو بند کرتے ،حکمرانی کی آرزویا توسیع ملک کی تمنا ،قوت کے اظہار یا جوش انتقام کے وفور کے اصول پر لڑائی کرنے کو قطعاممنوع ٹہراتے ہیں ۔آپ ؐجنگ کو صرف مظلوم کی امداد کا آخری ذریعہ اور عاجزوں ،درماندوں ،عورتوں ،بچوں کو ظالموں سے چھڑانے کا وسیلہ ،مذاہب مختلفہ اور ادیان متعددہ میں عدل وتوازن قائم کرنے کا آخری حیلہ بتاتے ہیں ۔دنیا کا رحم دل سے رحم دل شخص بھی ان اصولوں کے لیے لڑائی کی ضرورت سے انکا ر نہیں کر سکتا ۔اگر اسلام میں جنگ کو اختیار کیا گیا ہے تو نہ ملک گیری کے لیے نہ ہوس حکمرانی کے لیے بلکہ ضعیفوں ،عورتوں ،بچوں کو ظالموں کے پنجہ سے رہائی دلانے کے لیے ۔
ایسی ہستی کے خاکے بنا کرا ہانت کرنا اور ان کے سر پر عمامہ پہنا کر اور اس میں بم کو چھپا انہیں دہشت گرد بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا کہ اسلام کی راہ کو روکا جا سکے تو یہ نہیں ہو سکتا ۔اسلام تو ہر اس کچے اور پکے مکان میں رہنے والوں کے دلوں میں جگہ بنا ئے گا۔آج دنیا میں سب سے زیادہ رکھا جانے والا نام محمد ہے ۔ہر کوئی اسلام کو جاننے کے لیے بے چین ہے اور جو جان جاتا ہے وہ اسلام کا جا نثار بن جاتا ہے ۔امریکا‘ برطانیا‘ فرانس ،جرمنی ،ہالینڈ ،اور دیگر ممالک میں بہت سے فلم اسٹارز،سائنسدانوں ،کھلاڑیوں ،انجینئرزاور سیاستدانوں نے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر دنیا کو پیغام دیا کہ اسلام ہی دین ہدایت ہے ۔2010میں یورپ میں مسلمانوں کی آبادی 5کروڑ تھی جو تیس تک چھ کروڑ ہو جائے گی اور 2030میں جب دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہو گی تو مسلمانوں کی آبادی دو ارب بیس کروڑ ہو گی اور پیو ریسرچ سنٹر کے مطابق 2070میں اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا ۔اسی طرح 2050تک جرمنی اور فرانس مسلم اکثر یتی ملک ہوں گے ۔اسلام کی اسی مقبولیت نے مغرب کو اسلام فوبیا میں مبتلا کر دیا ہے ۔
آپؐ نے جنگ کے لیے بھی اصول اور ضابطہ دیا ہے۔ فرمایا جنگ سے پہلے اسلام کی دعوت دینا ،انکار پر جزیئے کی پیش کش کرنا یہ آپشن بھی نہ مانیں تو پھر آخری حل جنگ ہو گا لیکن یاد رکھنا جنگ میں بوڑھوں ،بچوں خواتین،اور مذہبی پیشواوں ،راہبوں کو قتل نہ کرنا ۔جو ہتھیار اٹھائے اس سے لڑنا ،باغ نہ اجاڑنا ،کھیتوں کو آگ نہ لگانا جو ہتھیار ڈال دے اسے قتل نہ کرنا جو صلح کے لیے ہاتھ بڑھائے فورا تھام لینا
آج نبی رحمت کی ذات پر طعن وتشنیع کے تیر برسانے والوں کے لیے چیلنج ہے کہ وہ اپنی تہذیبوں ،اپنے مذاہب کی کتابوں ،اپنی تاریخ کی یاد داشتوں میں سے ڈھونڈ کر ایک مثال ہی لے آئیںکہ ان کے حکمرانوں ،سپہ سالاروں نے جنگوں کی خونریزیوں کو روکنے کے لیے کچھ ایسے اصول د یئے ہوں ۔ نبی مکرم ؐکی دس سالہ جنگی کارروائیوں میں طرفین سے 1082افراد مارے گئے جن میں سے 310مسلمان اور 851دشمنان اسلام تھے ۔اسلام کو دہشت گرد کہنے والوں کی اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی کو شش ہی نہیں کی ۔انہوں نے ایک ایک جنگ بلکہ ایک ایک حملہ میں لاکھوں جانوں کو ضائع کر دیا ۔جنگ عظیم اول میں 75لاکھ جبکہ جنگ عظیم دوم میں ساڑھے چار کروڑ افراد لقمہ اجل بنے ۔امریکا جو دنیا کو امن کا درس دیتا نہیں تھکتا اس کی سیاہ کاریوں کی لمبی داستان ہے ۔اس نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرا کر انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا ،ویتنام ،افغانستان، عراق اور شام میں لاکھوں لوگوں کو اس نے موت کی بھینٹ چڑھا دیا ۔
دوسری طرف نبی رحمتﷺنے حجاز کو پر امن بنانے کے لیے حلف الفضول جیسا معاہدہ نبوت سے قبل کروایا آپؐ نے بڑے بڑے سرداروں کی غیرت کو جھنجھوڑ کر ظلم کے خلاف ایک اتحاد قائم کر دیا ۔حجر اسود کی تنصیب کے معاملے کو اس خوش اسلوبی سے طے کیا کہ حرم پاک خون سے تر ہونے سے بچ گیا ۔پیغمبر امن نے یہ انہونی بھی کر دیکھائی کہ مدینہ کے آس پاس کے قبائل کو ایک معاہدے کی لڑی میں پرو دیا ۔میثاق مدینہ دنیا کا پہلا تحریری دستور تھا جس سے انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی آج یہ دستور یو این سمیت دنیا بھر کے لیے ایک حوالہ بن چکا ہے ۔صلح حدیبیہ سے بڑھ کر آپؐ کے امن پسند ہو نے کی اور کیا دلیل ہو سکتی کہ حدیبیہ کی ایک ایک شق اہل اسلام کے جذبات سے کھیلنے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانو ں کے دل کو چھلنی کر دینے والا تھاپھر بھی ر سول اللہؐ نے محض امن کی خاطر سب کچھ بخوشی قبول کر لیا ۔آپؐکی زندگی کی کھلی کتاب پڑھنے کے بعد بھی اگر کوئی آپ ؐکی سیرت طیبہ پر کیچڑ اچھالتا ہے تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اسلام فوفیا کا کوئی علاج نہیں ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں