تصوف پر اعتراضات
شیئر کریں
جب سے عمران خان نے بشریٰ بی بی سے تیسری شادی کی ہے منکرین تصوف کو تو جیسے مو قع مل گیا ہو ‘میڈیا اخبا رات اور سوشل میڈیا پر بھا نت بھا نت کے لو گ اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔ ایسے لو گ ہر وقت اِس تا ک میں رہتے ہیں کہ کو ئی مو قع ملے اور وہ تصوف اوراولیا ء کرام پر اپنا بغض نکا ل سکیں‘ پچھلے کالم میں تصوف کی تعریف ہم کر چکے ہیں۔ روز اول سے مخالفین کا گروہ تصوف پر الزامات لگا تا آیا ہے ‘کہیں تو اِسے رہبا نیت سے تعبیر کیا جا تا ہے کہیں پر جو گیوں سادھوئوں سے اِس کا رشتہ جو ڑا جا تا ہے۔ یہ الزام تو ہر دور میں لگا کہ یہ شریعت سے ہٹ کر یا شریعت کے متوازی کو ئی نظا م ہے جسے گروہ صو فیا نے نا فذ کر رکھا ہے کچھ اور نہ بن پڑے تو ہندی اور یو نانی فلسفے کی چھاپ لگا دی جا تی ہے۔ اِسے زندگی گریز فلسفہ حیات بھی کہا جا تا ہے یا زندگی کی تلخ حقیقتوں سے فرار کا نام دیا جا تا ہے۔ کو ئی با طنیوں کا نمائندہ تو کوئی اشرافیوں کا تر جمان کہتے ہیں۔ تصوف و سلوک کوکچھ لوگوں نے قول و فعل سے فرار یا شعبدہ با زی قرار دیا ہے یہ بالکل غلط اورحقائق کے منا فی ہے۔
سب سے بڑا الزام یہ بھی لگا یا جا تا ہے کہ اِس کا ماخذ کتاب اللہ اور شریعت محمدی ؐ نہیں ہے۔ یہ الزام بھی کہ تصوف میں چلہ کشی ریاضت وغیرہ ہندوئوں سے آیا ہے کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ مسلمانوںکے ہا دی رہنما سرتاج الانبیاء ﷺ نے غا ر حرامیں چلہ کشی کی تھی۔ سرور کو نین ﷺ چودہ صدیاں پہلے جب تلا ش حق اور غور و فکر کے لیے غا ر حرا میں جا یا کر تے تھے اُس وقت عرب کے با شندوں کو ہندو تہذیب اور روحانیت کے با رے میں سطحی قسم کی معلومات بھی میسر نہیں تھیں۔ اِس لیے صو فیا کرام کے چلوں یا مجا ہدوںریاضتوں رت جگوںکو ہندوئوں سے منسوب کرنا سرا سر غلط اور بے وزن الزام ہے۔ دوسرا الزام مسلم صوفیا پر یہ لگا یا جا تا ہے کہ اسلام میں رہبا نیت گو تم بدھ کی تعلیمات سے آئی ہیں جس طرح اُس نے تخت و تا ج ٹھکرا کر جنگل کی راہ لی اور خلو ت گزیں ہو گیا مسلم صوفیا بھی یہی کا م کر تے ہیں۔ یہ لو گ یہ بات بھو ل جا تے ہیں کہ گو تم بدھ تو خدا کے وجود کا ہی منکر تھا وہ تو خدا کو مانتا ہی نہیں تھا جبکہ صوفیا کی منزل تو صرف اور صرف با رگاہ ِ الٰہی میں قبو لیت ہے۔ اپنی تراش خراش کر کے اندرونی بیرونی طہارت کے بعد خود کو با رگا ہ ِ الٰہی میں کھڑا کر نا ہے جس طرح فوجی کو محاذ پر جانے سے پہلے ٹریننگ دی جا تی ہے۔ اسی طرح کامیاب زندگی گزارنے کے لیے اسلامی تعلیمات کے نور سے با طن کو روشن کر نے کے لیے کچھ عرصہ صوفیا کرام دنیا سے علیحدگی اختیار کر تے ہیں۔ تر بیت کے بعد معا شرے میں کامیاب زندگی گزارتے ہیں۔ اپنے کردار کی روشنی سے دوسروں کی زندگی میں ایمان کی روشنی بھرتے ہیں۔ ایک گروہ یہ الزام لگا تا ہے کہ اسلام کا تصوف فارسی تصوف کا آئینہ ہے تو یہاں بھی اِن کی عقل ٹھو کر کھا تی نظر آتی ہے۔ ایمان کا سورج طلوع ہو نے کے بعد دربار رسالت ﷺ سے فیض یاب ہو نے کے بعد مسلمان قرآن کا نور اپنے سینوں میں اتار نے کے بعد دنیا کے چپے چپے میں پھیل گئے۔ سرور دو جہاں ﷺ کے آنے فتح مکہ کے بعد عرب دو سری اقوام سے بر تر ہو گئے تھے اُس وقت علم و حکمت کے مو تی مسلمانوں کی جھو لیوں میں تھے جو مسلمانوں نے فراخ دلی سے دوسری اقوام تک پہنچائے ناکہ اہل فارس جو شکست خو ددہ تھے انہیںمسلمانوں کو تعلیمات سکھا ئیں۔ اسلام کے نور کے بعد ہی تو اہل فارس نے آتش پر ستی چھو ڑ کر کائنا ت کے اکلو تے خدا کے سامنے سر جھکا یا ‘پر فیسر برائون اور اُس کے ٹو لے کا یہ کہنا کہ مسلم تصوف ایرانی افکار سے متا ثر ہے تو یہ بھی سراسر غلط ہے۔
ایک گروہ یہ الزام لگاتا ہے کہ اسلام کے تصوف پر نصرانی تصوف کا گہرا اثر ہے لیکن یہاںبھی یہ گروہ غلطی کر رہا ہے کہ کیو نکہ حضرت عیسیٰ ؑ کو دنیا سے گئے ہو ئے ہزاروں سال ہو چکے تھے، اُن کی تعلیمات مسخ ہو چکی تھیں، پھر سرتاج الانبیاء ﷺ کے آنے کے بعد عیسائی تعلیمات کی جگہ اسلامی تعلیما ت نے لے لی تھی۔ شہنشاہِ دو جہاں ﷺ نے اپنے زیر سایہ صحابہ کرام ؓ کوتربیت عبا دت اورذکر سے گزار کر کامل انسان تک پہنچا یا، قرآن اور شریعت محمدی ﷺ کے سامنے عیسائی تعلیمات تو پہلے ہی زنگ آلو دہ تھیں، لہذا یہ سچ سامنے آیا کہ عیسا ئیت پر اسلام کا نور غالب آیا اسلام پر عیسائیت نہیں ‘آپ خو د سوچیں قرآن کی مو جودگی میں کسی اور دوسری کتا ب کی ضرورت رہتی ہی نہیں ہے ۔
معترض یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ تصوف ایک افیون ہے جس نے اہل تصوف کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے یہاں بھی یہ غلط ہیں کہ اولیا ء کرام نے ملت کے عروق مردہ میںہمیشہ نئی روح پھونکی ‘آپ خوا جہ معین الدین اجمیری ؒ کو ہی لیں صدیوں پہلے شنجر کی سر زمین سے صرف خدا اور رسول کریم ﷺ کے دین کی سر بلندی کے لیے صنم کدوں کی سر زمین کالی ما تا کے پجا ریوں کے دیس میں آکر اذان اسلام بلند کر نا‘ پر تھوی راج کے رعب و دبدے کا مقابلہ کر نا‘ بڑے سے بڑے سپہ سالار کی جرات نہیں تھی لیکن ایک درویش خدا کے بھر وسے پر سر زمین ہند میں اسلام کا جھنڈا لہراتا ہے اور پھر تا ریخ گوا ہ ہے کہ لاکھوں لوگ اِس درویش کی تعلیمات سے مسلمان ہو ئے ‘پھر فتنہ تاتار کو کون نہیں جانتا جب چنگیزی طو فان نے دنیا ئے اسلا م پر خوف طا ری کر دیا۔ بغدادکی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ عقل و دانش کے پر ستار اسلام کے مستقبل سے مایوس ہو گئے اور پھر اِس طو فان کا منہ کس نے مو ڑا ایک درویش جانبا ز جو سلسلہ قادریہ سے نسبت رکھتا تھا، اشارہ غیبی کے تحت میدان میں آتا ہے۔ ہلا کو کے بیٹے تگودار کو دعوت اسلام دیتاہے تو سپہ سالا ر نے کمزور حریف درویش کوچیلنج کر دیا کہ میں تو میدان کا کھلا ڑی ہوں اگر تم مجھے میدان میں شکست دے دو تو میں اسلام قبو ل کر لوں گا۔ درویش نے چیلنج قبو ل کیا پھر اہل دنیا نے دیکھا ایک طرف کمزور بو ڑھا درویش دوسری طرف پہلوان نما سپہ سالار ‘درویش نے ایک زور دار طما نچہ سپہ سالار کے منہ پر دے ما را ۔اُس کا سر پھٹ گیا غش کھا کر زمین پر گر پڑا اس پر دہشت طا ری تھی، اٹھا درویش کے ہا تھ پر بوسہ دیا اور شکست قبو ل کر لی۔ تگو دار چنگیزی نے اسلام قبو ل کیا اور اپنا نام احمد رکھا ‘تصوف میںسب سے بڑا الزام یہ لگا یا جا تا ہے کہ تصوف جا ہلوں اورنا خواندہ لوگوں کا کام ہے تو اِن کی خدمت میں عرض ہے کہ برصغیر پاک و ہند نے آج تک علا مہ اقبال سے زیا دہ عقل مند ذہین انسان پیدا نہیں کیا اُن کے تصوف کے بارے میں کیا خیا لات ہیں جانتے ہیں ۔ اُن سے سوال ۔ صوفیوں سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچا تو جواب دیا اہل تصوف کے صوفیا کرام نے اسلام کو وہ رونق بخشی اور بجا ئے تیر و تلوار کے محض حسن عمل اور اخلا ق محمدی ﷺ کے ذریعے اِس کی وہ اشاعت کی کہ ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں میں سے چھ کروڑ یقینا ان ہی بزرگوں کے فیوض و برکات کا نتیجہ ہیں پھر سوال ہوا صوفیوں سے مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچا تو جواب دیا مسلمانوں کی اخلا قی زندگی پر صوفیائے کرام نے بہت بڑا اثر ڈالا۔ تمام ایسے اوصاف جو اخلا قی پہلو سے انسانیت کا خا صا ہیں محض ان ہی بزرگوں کی تعلیم و تر بیت کا نتیجہ ہیں، انہوں نے انسانوں کو انسان اور مسلمانوں کو مسلمان بنا یا ‘سوال اسلامی تصوف دنیا داری کے متعلق کیا تعلیم دیتا ہے تو شاعر مشرق نے جواب دیا اسلامی تصوف کی یہی تعلیم ہے کہ وہ دین کے ساتھ دنیا بھی رکھے اور جنگلوں بیابانوں میں زندگی بسر کر نے کو نا پسند کر تاہے ایسا اسلامی تصوف جو لو گوں کو صرف اپنی ذات کے لیے ہو ایک بے فیض اورخشک چشم سے تشبیہ دیتا ہے بے شک یکسوئی کے لیے خلو ت گزینی ضروری ہے لیکن تمام لوگ اِس کے اہل نہیں ہیں۔ منکرین تصوف پہلے اقبال سے بڑا قد کریں پھر تصوف پر اعتراض کریں۔