’جی ایس کے‘ کا مکروہ دھندہ ، ادویات کی مصنوعی قلت اور بلیک مارکیٹنگ کا منافع
شیئر کریں
(جرأت انوسٹی گیشن سیل)ہم میں سے اکثر لوگ روزانہ بازار سے کوئی نہ کوئی چیز خرید ہی رہے ہوتے ہیں۔ ہم سو، پچا س روپے کلو بکنے والی سبزی خریدتے وقت اس کسان کا شجرہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس نے اُس آلو کا بیج بویا تھا، اسی طرح ہم جب موبائل خریدنے جاتے ہیں تو ایک موبائل خریدنے سے پہلے دُکان دار کا ایک گھنٹہ صرف اس کے معیار کے بارے میں جاننے میں صرف کردیتے ہیں، کمپنی کون سی ہے، اس کمپنی کا پس منظر کیا ہے، اس کی ریم کتنی ہے، بیٹری کتنی دیر چلتی ہے، کیمرا کیسا ہے ؟یہاں تک کہ ہم اس موبائل کی خوردہ قیمت سے ایک روپیہ بھی زیادہ ادا نہیں کرتے۔
بہت سے ادویہ ساز ادارے خلاف قانون خام مال کو اوپن مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کرنے کا مکروہ دھندہ تو کر ہی رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ کمپنیاں اسی خام مال کو استعمال کرتے ہوئے جعلی اور غیر معیاردی ادویات بنا کرانسانی جانوں کو موت کے خطرے سے دوچار کر رہی ہیں۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن کی مجرمانہ غفلت سے ادویہ ساز اداروں کو ’ بینک بیلنس ‘ بڑھانے اور ’ منی لانڈرنگ‘ کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
لیکن جب یہی موبائل خریدنے والا کسی میڈیکل اسٹور پر دوا خریدنے جاتا ہے تو اس کا رویہ بالکل تبدیل ہوتا ہے۔ دوا کے معاملے میں ہم ڈاکٹر کے لکھے گئے نسخے کو آسمانی صحیفہ سمجھ کر اس کی ردگرانی کو گناہ تصور کرتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر کے خیال میں جو ڈاکٹر نے لکھا وہی دوا سب سے اچھی ہے۔ دوا خریدتے وقت ہم نہ اس دوا ساز کمپنی کا نام اور پتا ٹھیک سے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، نہ ہی ہم اس دوا کے اندر موجود لیف لیٹ کو پڑھتے ہیں، سبزی اور پھل پر ایک روپے زائد لینے والے دُکان دار کو ہم کمشنر سے لے کر وزیر اعظم تک بات پہنچانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، لیکن یہی گاہک دوا پر درج قیمت سے تین، چار گنا پیسے ادا کر کے خاموشی سے گھر چلا جاتا ہے۔ غور کریں تو اس سارے معاملے میں غلطی ہماری نہیں بلکہ ہماری ضرورت کی ہے، ہمیں پتا ہے کہ پھل سبزی یا موبائل فون ہمیں کہیں نہ کہیں سے مل ہی جائے گا، لیکن دوا کے معاملے میں ہم اپنے اندر موجود فطری خوف کے آگے مجبور ہوجاتے ہیں، دوا نہ ملی تو کیا ہوگا؟
اگر دوا وقت پر نہیں کھائی تو مرض بڑھ جائے گا۔ ہمارا یہی فطری خوفGSK اور Zafa جیسی لالچی کمپنیوں اور غلام ہاشم نورانی جیسے زر پرست ادویہ فروشوں کا کاروبار بڑھاتاہے۔
’’جی ایس کے‘‘ نے وزارتِ صحت کے کچھ بدعنوان افسران سے ملی بھگت کرکے پاکستان میں تھائرویکسین کی مارکیٹ پر اپنا تسلط قائم کیا ، ادویہ کی مصنوعی قلت سے اربوں کمائے
تھائر ویکسین کی بلیک میں فروخت سابق چیف ڈرگ انسپکٹر کلب حسن رضوی اور ایک ہاتھ میں مذہب کی چھڑی رکھنے والے غلام ہاشم نورانی کی سرپرستی میں ہوئی
اعداد و شمار کے مطابق ’’جی ایس کے‘‘نے صرفPanadol CF کی بلیک مارکیٹنگ سے ہی سالانہ ایک سے ڈیڑھ ارب روپے کمائے
ہمارا یہی خوف ادویہ ساز اداروں کو غیر قانونی اور غیر معیاری ادویات بنانے کی جانب مائل کرتا ہے۔ اسی خوف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کمپنیوں نے پاکستانیوں کی جیب سے اربوں روپے نکا ل لیے۔ ایک طرف تو جی ایس کے پاکستان نے وزارتِ صحت کے کچھ بدعنوان افسران کے ساتھ ملی بھگت کرکے پاکستان میں تھائرویکسین کی مارکیٹ پر اپنا تسلط قائم کیا۔ دوسری جانب دنیا بھر میں کرپشن کی بے تاج بادشاہ جی ایس کے پاکستان نے ’مرے کو مارے شاہ مدار‘ کے مصداق اس اہم دوا کو صرف اپنے من پسند ’ بلیو آئیڈ‘ ڈسٹری بیوٹرز کو سپلائی کیا، جنہوں نے اس دوا کو بلیک میں تین سو سے پانچ سو روپے تک میں فروخت کیا۔ افسوس ناک بات تو یہ ہے جی ایس کے پاکستان کا یہ مکروہ دھندا کبھی’ ایک پیسا رشوت نا کھانے اور اس سفید جھوٹ پر مقدس کتاب پر حلف اٹھانے کی باتیں کرنے والے ‘ سابق چیف ڈرگ انسپکٹر کلب حسن رضوی اور ایک ہاتھ میں ’ مذہب کی چھڑی، اور دوسرے میں زرپرستی کے کالے پتھر‘ اٹھائے غلام ہاشم نورانی کی سرپرستی میں ہوتا رہا۔
تھائرویکسین کی طرح’’ جی ایس کے‘‘ نے نزلہ، زکام اور بخار میں استعمال ہونے والی ایک بہت ہی عام سی دوا Panadol CF کی بھی مصنوعی قلت پیدا کردی۔ ایک سال تک تو اس دوا کی دس گولیوں کی اسٹرپ 100روپے میں فروخت ہوتی رہی، جب کہ وزارت صحت کی جانب سے ایک اسٹرپ کی قیمت بیس روپے مقرر کی گئی تھی۔ اس طرح اس عام دوا سے ’’جی ایس کے‘‘ ریگولر منافع کے علاوہ80 فیصد اضافی نفع کماتی رہی۔
ادویات کی بلیک مارکیٹ کرنے والے خوردہ فروشوں کی بیج کنی کرنا اور اس کی اطلاع متعلقہ اداروں کو دینا غلام ہاشم نورانی کی ذمے داریوں میں شامل ہے، لیکن مذہب کی آڑ میں کالے دھندے کرنے والے غلام ہاشم نورانی کی اولین ترجیح دولت کمانا ہے۔ پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن پاکستان کے چیئر مین کا عہدہ زرپرست غلام ہاشم نورانی سے انصاف کا متقاضی تب بھی تھا جب لوگ تھائرویکسین، موٹی وال جیسی ادویات نہ ملنے پر ایڑیاں رگڑ رہے تھے، انسانیت بلک اور زندگی سسک رہی تھی۔ یہ عہدہ غلام ہاشم نورانی کی جانب سے انصاف کا متقاضی اس وقت بھی تھا جب اس کی مجرمانہ سرگرمیوں میں برابر کے شریک سابق چیف ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی المعروف بریف کیس کھلاڑی کی سرپرستی میں فوڈ اور ہیلتھ سپلیمنٹ کے نام پر معلوم نہیں کیا کچھ فروخت ہو رہا تھا اور اس زہر سے مرنے والے معصوم نوجوان حمزہ ( ہیلتھ سپلیمنٹ کی وجہ سے انتقال کرجانے والے 17سالہ نوجوان حمزہ پر رپورٹ یکم فروری 2019کے شمارے میں شائع ہوئی تھی) کی ماں بھی اپنے بیٹے کے غم میں سسک سسک کر مرگئی۔ لیکن غلام ہاشم نورانی اس ایسوسی ایشن کے چیئر مین کا عہدہ غریب عوام کو ریلیف دینے کے لیے نہیں اپنے بینک اکاؤنٹس بھرنے کے لیے استعمال کرتا رہا۔
جب محکمہ صحت کے کچھ ایمان دار افسران نے تھائرویکسین کی بلیک مارکیٹنگ اور اس اہم دوا کی عدم دستیابی پر جی ایس کے سے جواب طلبی کی تو جی ایس کے نے مختلف شہروں کے بڑے میڈیکل اسٹورز پر دوا کو اس کی مقرر کردہ قیمت پر فروخت کے لیے فراہم کردیا، اس کے باوجود یہ دواملک کے تقریبا ہر چھوٹے بڑے شہر ، قصبے دیہات میں تین سو روپے سے کم میں دستیاب نہیں تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ جن میڈیکل اسٹور زپر یہ دوا مقرر کردہ نرخ پر فروخت کے لیے رکھی گئی وہاں سے ’کس‘ نے انہیں خریدا۔ جی ایس کے پاکستان کی جانب سے کیا جانے والا یہ منظم جُرم کئی سالوں تک جاری رہا اور اس بدنام زمانہ کمپنی نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کو آرڈینیشن ، وزارت صحت کے افسران کے ساتھ مل کر سالانہ اربوں روپے کمائے۔
تھائرویکسین کی بلیک مارکیٹنگ اور متعلقہ اداروں کی ’خاموشی ‘ نے جی ایس کے پاکستان کے حوصلے اور بلند کردیے اور اسے بلیک مارکیٹنگ کے چکر میں کم وقت اور کم لاگت میں زیادہ منافع کمانے کی نئی راہ مل گئی۔ تھائرویکسین کی طرح’’ جی ایس کے‘‘ نے نزلہ، زکام اور بخار میں استعمال ہونے والی ایک بہت ہی عام سی دوا Panadol CF کی بھی مصنوعی قلت پیدا کردی۔ ایک سال تک تو اس دوا کی دس گولیوں کی اسٹرپ 100روپے میں فروخت ہوتی رہی، جب کہ وزارت صحت کی جانب سے ایک اسٹرپ کی قیمت بیس روپے مقرر کی گئی تھی۔ اس طرح اس عام دوا سے ’’جی ایس کے‘‘ ریگولر منافع کے علاوہ80 فیصد اضافی نفع کماتی رہی۔ پاکستان بھر میں روزانہ لاکھوں کی تعداد میں بکنے والی اس دوا پر’’ جی ایس کے‘‘ آٹھ روپے فی گولی اضافی منافع کی شکل میں غریب عوام کی جیب سے نکالتی رہی ۔ اعداد و شمار کے مطابق ’’جی ایس کے‘‘نے صرفPanadol CF کی بلیک مارکیٹنگ سے ہی سالانہ ایک سے ڈیڑھ ارب روپے کمائے( اس عرصے میں جی ایس کے اور Zafa فارماسیوٹیکلز کی جانب سے درج بالا ادویات کے تیار کیے گئے پیکس کی تعدا د، بیچ نمبر اور دیگر تفصیلات موصول ہونے والی دستاویزات کا تصدیقی عمل مکمل ہونے کے بعد جلد ہی ان صفحات پر شائع کی جائیں گی) ۔
بلیک مارکیٹنگ کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے غلام ہاشم نورانی، اس کے ساتھی اور ’’جی ایس کے ‘‘ کے پروردہ وزارت صحت کے کرپٹ افسران کی ’آمدن‘ اس کے علاوہ ہے ۔
اُردو کا ایک زبان زد عام محاورہ ہے کہ ’ شیر کے منہ کو خون لگ گیا ہے‘ یہ محاورہ کرپشن کی بے تاج بادشاہ ادویہ ساز کمپنی’’ جی ایس کے‘‘ پر پوری طرح لاگو ہوتا ہے۔ جس طرح شیر کے منہ کو خون لگ جاتا ہے بالکل اسی طرح ’’جی ایس کے‘‘ کو ادویہ کی بلیک مارکیٹ کے ’ناجائز منافع‘ کمانے کی لت پڑ چکی ہے۔یکے بعد دیگرے دو اہم ادویات سے اربوں روپے کمانے کے باوجود اس کمپنی نے اپنی ایک اور اہم دوا Motival کی مصنوعی قلت پیدا کردی۔ وزارت صحت کی جانب سے اس سکون آور دوا کی قیمت 3روپے فی گولی مقرر کی گئی تھی، لیکن جی ایس کے پاکستان ، کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن، پاکستان کے چیئر مین غلام ہاشم نورانی، اس وقت کے چیف ڈرگ انسپکٹر کلب حسن رضوی کی ملی بھگت سے اس دوا کو بلیک میں 15روپے فی گولی کے حساب سے فروخت کیا گیا۔ تھائرویکسین اور پینا ڈول سی ایف کی طرح اس دوا کی فروخت بھی لاکھوں گولیاں روزانہ ہے۔ بارہ روپے فی گولی اضافی رقم سے’’ جی ایس کے‘‘ پاکستان نے سالانہ دو سے تین ارب روپے کا ناجائز منافع کمایا۔ صرف ان چار ادویات سے ہی ’’جی ایس کے‘‘ پاکستان اور Zafaفارما نے پاکستانی عوام کی جیب سے 8؍ ارب روپے سے زائد رقم نکال لی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس کام کے لیے سرکار سے لاکھوں روپے ماہانہ تخواہ اور دیگر مراعات وصول کرنے والے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن، وزارت صحت، ایف آئی اے، قومی احتساب بیورو اور اینٹی کرپشن کے افسران اور اعلیٰ حکام آنکھوں پر ’ غفلت ‘ یا ’ لالچ‘کی پٹی باندھے سالوں تک سوتے رہے۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوآرڈینیشن کی مجرمانہ غفلت نے خام مال کی درآمدات میں ڈیوٹی کی مدمیں دی گئی رعایت کا غلط استعمال کرنے والے ادویہ ساز اداروں کو ’ بینک بیلنس ‘ بڑھانے اور ’ منی لانڈرنگ‘ کرنے کی کھلی چھوٹ دی۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے اپنے ایک خط میں اس بات کی جانب بھی توجہ مبذول کروائی کہ بہت سے ادویہ ساز ادارے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خام مال کو اوپن مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کرنے کا مکروہ دھندہ تو کر ہی رہے ہیں، لیکن ان کے ساتھ ساتھ یہ کمپنیاں اسی خام مال کو استعمال کرتے ہوئے جعلی اور غیر معیاردی ادویات بنا کرانسانی جانوں موت کے خطرے سے دوچار کر رہی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جی ایس کے (گلیکسو اسمتھ کلائن)اور Zafa فارماسیوٹیکلز کی جانب سے چار اہم ادویات کی مصنوعی قلت اور بلیک مارکیٹنگ کی شکایات موصول ہونے کے بعد ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی نے اپنی انکوائری رپورٹ میں کیا لکھا ، Zafaفارما سیوٹیکلز نے Folic Acidکی بلیک مارکیٹنگ سے کتنے کمائے، فولک ایسڈ کے خام مال کی درآمدات میں گھپلے اور پہلے سے موجود دوا کے نام میں پلس کا لاحقہ کیوں لگایا اس کی تفصیلات آئندہ شمارے میں شائع کی جائیں گی۔( جاری ہے )