آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں
شیئر کریں
مفتی غلام مصطفی رفیق
masail.juraat@gmail.com
میت کے پاس قرآن کریم کی تلاوت کاحکم
سوال :ہمارے گاو¿ں میں کسی کاانتقال ہوتاہے تولوگ اس کی چارپائی کے پاس بیٹھ کرتلاوت قرآن کریم شروع کردیتے ہیں،اگرمیت چارپائی پر ہو تو لوگوں کااس کے پاس بیٹھ کرتلاوت کرنا جائز ہے یانہیں؟
جواب:کسی کے انتقال کے بعد اُسے غسل دینے سے پہلے اس کے قریب قرآن مجیدکی تلاوت کرنامکروہ ہے،البتہ میت کوغسل دے دیاجائے توپھراس کے قریب تلاوت کرناجائزہے۔(فتاویٰ ہندیہ، 1/157، ط:رشیدیہ-فتاویٰ شامی، 2/193، ط:ایچ ایم سعید)
مسجدمیں نمازِجنازہ اداکرنا
سوال:ہماری مسجدکے محراب کے باہرکچھ جگہ موجودہے،کسی کاانتقال ہو جاتا ہے تومحراب کی جانب گلی سے میت لائی جاتی ہے اور وہیں باہرمیت رکھی جاتی ہے ،ساتھ ایک یادوصفیں بن جاتی ہیں اور باقی لوگ مسجدمیں ہوتے ہیں ،اس طرح نمازجنازہ اداکی جاتی ہے،کیاایسی صورت میں نمازجنازہ اداہوجائے گی؟
جواب:بغیرعذرکے مسجدمیں نماز جنازہ اداکرنامکروہ وممنوع ہے،خواہ میت اور نمازی دونوں مسجدکے اندرہوں ،یامیت اورکچھ نمازی مسجدسے باہرہوں۔آپ نے جوطریقہ لکھاہے یہ کراہت سے خالی نہیں، اس لئے اس کامعمول نہ بنایا جائے،بلکہ نمازجنازہ مسجدسے باہراداکرنے کاانتظام کیا جائے۔البتہ اگرکبھی بارش،یادھوپ کی شدت یاجگہ کی تنگی کی وجہ سے مسجدسے باہرنمازجنازہ اداکرنامشکل ہوتوایسی صورت میں میت اور کچھ صفیں مسجدسے باہر بناکر باقی لوگ مسجدکے اندر ہوں تو نماز جنازہ اداکی جاسکتی ہے،اعذارکی صورت میںنمازجنازہ بلاکراہت درست ہوگی۔ (فتاویٰ شامی، 2/225، ط:ایچ ایم سعید کراچی-المبسوط للسرخسی، 2/110، ط:کوئٹہ)
مہرکی شرعی مقدار
سوال:ہمارے ہاں نکاح کے وقت مہرمقررکرنے کے بارے میں مختلف آراءہیں ، بعض لوگ بہت زیادہ مہر مقرر کرنا اچھا سمجھتے ہیں،کم مہرکواپنے لئے عارسمجھتے ہیں، جبکہ بعض کاکہناہے کہ مہرکم سے کم ہونا چاہیے ، سوال یہ ہے کہ حق مہرکی شرعی مقدار کیاہے؟کم سے کم کتنامہراورزیادہ سے زیادہ کتناہوناچاہیے؟
جواب:شریعت میں مہرکی کم سے کم مقدار دس درہم ہے،یعنی دوتولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی یااس کی قیمت ہے۔اسی طرح مہرفاطمی بھی ہے اوریہ مسنون بھی ہے،اوراس کی مقدارپانچ سودرہم یعنی ایک سواکتیس تولہ تین ماشہ چاندی یااس کی قیمت ہے،نبی کریم علیہ الصلاة والسلام نے اپنی ازواج مطہرات اور صاحبزادیوں کے لئے عموماًیہی مہرمقررفرمایاتھا،اس لئے استطاعت اور گنجائش کی صورت میں مہرکی اس مقدارکومقررکرنابہتراور افضل ہے، اور سنت پرعمل کی بناپرباعث اجروثواب بھی ہے۔شریعت نے زیادہ مہرکی مقدار مقرر نہیں کی۔یہ فریقین کی رضامندی پرہے، جتناچاہیں بقدر استطاعت مقررکرسکتے ہیں۔ البتہ حیثیت سے بڑھ کرفخرکے طور پر بہت زیادہ مہرمقررکرناشرعاً ناپسندیدہ ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے منع فرمایاہے۔(اعلاءالسنن، 11/81، ط: ادارة القرآن-فتاویٰ ہندیہ ، 1/302، ط: رشیدیہ – مشکوة المصابیح ،ص: 277، ط: قدیمی کتب خانہ)
اولادنہ ہونے کے باوجود بیوہ میراث کی حقدارہے
سوال:میری اولاد نہیں اور میرے شوہرکاکچھ عرصہ قبل بیماری کی وجہ سے انتقال ہوگیاہے،ان کا مکان اور دیگرچیزیں بھی ہیں، میرے سسرال والے(مرحوم شوہرکے بھائی ،بہن وغیرہ) کہہ رہے ہیں کہ تمہارا(بیوہ کا)وراثت میں کوئی حصہ نہیں چونکہ اولادکوئی نہیں،ساری چیزوں پران کاقبضہ ہے۔ مجھے بتائیں کیاشریعت کی روسے میرے مرحوم شوہرکے ترکہ میں میراحصہ ہے یانہیں؟
جواب:آپ کے شوہرکے انتقال کے بعدان کے ترکہ میں ان کے بھائی بہن وغیرہ کے ساتھ آپ کاحصہ بھی موجود ہے، اولادنہ ہونے کی وجہ سے ترکے سے حصے کوختم نہیں کیاجاسکتا،سائلہ اپنے مرحوم شوہرکی وراثت میںسے اپنے حصہ کی مستحق ہیں،لہذا دیگرورثاءکاسائلہ کومحروم کرناکسی بھی طرح درست نہیں،کسی کے حق پرقبضہ کرنا،یاکسی حقدارکواس کا حق نہ دینابہت بڑاظلم اورسخت گناہ ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:”حضرت سعیدابن زیدکہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جوشخص کسی کی بالشت بھرزمین بھی ازراہ ظلم لے گاقیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں بطورطوق ڈالی جائے گی“۔دوسری حدیث میں ارشادہے:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: خبردار!کسی پرظلم نہ کرنا،جان لو!کسی بھی دوسرے شخص کامال لینایااستعمال کرنااس کی مرضی وخوشی کے بغیرحلال نہیں ہے“۔(مشکوة المصابیح، ص: 254، 255،ط:قدیمی کتب خانہ)
ظہرسے قبل کی سنتیں رہ جائیں توکب اداکریں؟
سوال:مسجدآفس کے قریب ہے، بسااوقات عین نمازکے وقت مسجدجاتاہوں یاگھر سے اُسی وقت مسجدپہنچتاہوں تو نماز ظہرکا وقت ہوجاتاہے،سنتیں اداکرنے کا وقت نہیں ہوتا،جماعت کھڑی ہوجاتی ہے، ایسی صورت میں ان چارسنتوں کی قضاکب اور کیسے کریں؟
جواب:ظہرسے قبل کی چارسنتیں ‘ مو¿کدہ ہیں،ان کااصل وقت توفرض نماز سے پہلے ہی کاہے،البتہ اگرفرض سے پہلے ادانہ کرپائیں تواس صورت میں جماعت کی نمازسے فارغ ہونے کے بعد ان سنتوں کو اداکردیں۔(فتاویٰ شامی،باب ادراک الفریضة، 2/59،ط:ایچ ایم سعید)