سادگی اپنائیے‘ دنیا بدل دیجیے!
شیئر کریں
ندیم الرشید
”شیطان تمہیں بھوک کا خوف دلاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے“ ۔(القرآن )
قارئین محترم!
سورة بقرہ کی آیت نمبر268کا ترجمہ آپ کے سامنے پیش کیاگیا ہے جس میں خداوندبزرگ وبرتر نے اپنے بندوں کو شیطان کی دو بڑی چالوں سے آگاہ فرمایا ہے۔ شیطان انسان کے دل میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ سادگی کے ساتھ زندگی بسر نہیں کی جاسکتی وگرنہ بھوکے مرجاﺅگے۔ حالانکہ اللہ کے نبی اور صحابہ کرام کے گھر میں کئی کئی دن تک چولہا نہیں جلتا تھا۔ صحابہ روزے کے ساتھ دشمن کے خلاف جہاد کرتے تھے۔ کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا تو صرف پانی اور کھجور پر اکتفاءکرتے تھے اور پھر بھی صحت مند رہتے تھے ،کیونکہ کھانا پینا اور ہر وقت کھاتے رہنا ان کی ثقافت میں شامل نہیں تھا اور نہ ہی ان کے مقصد حیات کا حصہ تھا۔اس لیے اگر کبھی فاقہ بھی کرنا پڑا تو انہیں نہ تو کوئی پریشانی ہوئی اور نہ ہی اس عمل کو بری نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
آج ہم جس تہذیب اور جس عصر میں زندہ ہیں ،وہاں ہر وقت کھانا پینا انسان کے سماجی مرتبے کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ہم جس طرز حیات اور لائف اسٹائل کو اپنائے ہوئے ہیں اس میں کھانا پینا، مزے اڑانا ، انجوائے کرنا اور کچھ نہ کچھ کھاتے رہنا زندگی کاایک حصہ ہے۔ تمدن کا ایک لازمی جز ہے ،ثقافت کے ضروری رنگوں میں سے ایک رنگ ہے ۔آج اخبارات میں رپورٹس شائع ہوئی ہیں کہ فلاں مسلمان ملک میں اتنے فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں ،اگر خط غربت کو زندگی گزارنے کے لیے معیار بنالیا جائے پھر تو انبیاءکرام میں سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے سوا کسی تمام ہی کی زندگی خط غربت سے نیچے دکھائی دے گی۔
بخاری شریف کی روایت ہے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمیں ایک چادر اور ایک موٹی تہہ بند نکال کر دکھائی اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان دو کپڑوں میں وفات پائی۔
قارئین گرامی!
اس حدیث شریف سے آپ خود اندازہ لگالیجئے کہ آقا علیہ السلام کی زندگی کیسی سادہ تھی۔ شمائل ترمذی اور بخاری شریف میں ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ کا بستر جس کو آپ سونے کے لیے استعمال فرماتے تھے چمڑے کا بنا ہوا تھا جس میں کھجور کا ریشہ بھر ہوا تھا۔ کھانے میں سادگی کا یہ عالم تھاکہ آپ مسلسل کئی راتیں بھوک کی حالت میں گزارتے ، آپ کو اور آپ کے اہل وعیال کو رات کا کھانا میسرنہ آتا اور جو روٹی آپ تناول فرماتے وہ عموماً ”جو“ کی روٹی ہوتی تھی۔
المیہ یہ ہے کہ آج ہم سے اگر کوئی شخص آپ کی پیروی میں یا اللہ نے اس کو رزق میں سے جو حصہ دیا ہے اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنا شروع کردے تو لوگ فوراً باتیں بنانا شروع کردیتے ہیں۔ اُسے بھوکا ننگا کہنے لگتے ہیں ، دنیا کہتی ہے کہ یہ آدمی خط غربت سے نیچے زندگی گزاررہا ہے ، یہ عنقریب مرجائے گا۔ اس غریب آدمی کو اگر یہ حوصلہ دیا جائے کہ تم تو پیغمبروں جیسی زندگی بسر کررہے ہو ، تمہارا لائف اسٹائل ہمارے لائف اسٹائل سے اس قدر عظیم ہے کہ ہم اُس کا مقابلہ ہی نہیں کرسکتے کیونکہ تم انبیاءکے طرز حیات کو لے کر چل رہے ہو۔ تمہارے اوپر تو خدا کا فضل ہے کہ اس نے تمہیں اس اعزاز سے نوازا ہے جس سے ہم محروم ہیں ۔ تو یقین جانیے کہ اس دنیا میں کوئی غریب آدمی غریب نہیں رہے گا۔ غریب آدمی کو بھوک کی پروا نہیں ہوتی۔ وہ یہ دیکھ کر پریشان ہوتا ہے کہ سب لوگ امیروں کی عزت کرتے ہیں اور غریبوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ، اگر ہم لوگ غریبوں کو ایسی نظر سے دیکھیں کہ انہیں غربت باعث اعزاز معلوم ہو اور جس طرح کسی کو اپنی امارت پر ناز ہوتا ہے ، ایسے ہی انہیں اپنی غربت پر فخر ہو،لوگ انہیں اپنی سخاوت‘ فیاضی‘ عطیات اور ہدایہ سے تقویت بھی پہنچاتے رہیں تو پوری دنیا سے غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
یاد رکھیے! سادہ طرز زندگی کے بغیر اب اس دنیا میں جینا مشکل ہوجائے گا کیونکہ جس لائف اسٹائل اور طرز حیات کو ہم نے اپنالیا ہے اور اپنی امارت کی نمائش کے لیے جس طرح کی غذائیں ہم کھارہے ہیں اور پی رہے ہیں ، اس سے ہم بیماریوں میں تو گھرتے چلے جائیں گے لیکن صحت مند اور چست وتوانا زندگی ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔ مسائل اس لیے پیدا ہورہے ہیں کہ ہم آپ علیہ السلام کی سادہ زندگی کو اپنے لیے رول ماڈل نہیں بناتے۔ آج غیر متوازن اور مضرصحت غذاﺅں اور زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے یہاں بالخصوص کینسر جیسی بیماری عام ہوتی جارہی ہے۔یہ کم کھانے یا بھوکا رہنے کی وجہ سے پیدا نہیں ہورہی۔
شمائل ترمذی میں حضرت مالک بن دینار نقل فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے روٹی اور گوشت شکم سیر ہوکر نہیں کھایا‘ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان ہے مسلمان ایک آنت سے کھاتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں سے کھاتا ہے یعنی کافر بہت زیادہ کھاتا ہے اور مسلمان اپنے پیٹ کو کچھ خالی رکھتا ہے۔ اپنے پیٹ کو کچھ خالی رکھنے ، کچھ بھوکا رہنے اور کبھی کبھی کچھ نہ کھانے سے انسان کے سماجی مرتبے اور سوشل اسٹیٹس پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ یہ شیطان کا دھوکا ہے جو ہمیں بھوک سے ڈراتا ہے۔ جب ہم بھوکے ہوتے ہیں تو پھر ہمیں دوسروں کی بھوک کا احساس ہوتا ہے اور انسانوں کے لیے دل میں محبت اور رحمدلی کا احساس پیدا ہوتا ہے جو شیطان کے سر میں خاک ڈال دیتا ہے ۔ بھوکا رہنے اور کم کھانے والا انسان بیماریوں سے بھی بچار ہتا ہے۔
ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں پاکستان کی وادی ہنزہ واحد علاقہ ہے جہاں کینسر کی بیماری نہیں ہے ، اس کی بنیادی وجہ ان کی غذا اور سادہ طرز زندگی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان میں بہت کم لوگ بیمار ہوتے ہیں اور ان کی اوسط عمر 120سال تک ہوتی ہے۔
ہنزہ کے لوگوں کی اچھی صحت اور کینسر سے ناآشنا ہونے کی وجوہ پر غور کیا جائے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ سادہ زندگی ہی اصل سبب ہے‘ یہ اس لائف اسٹائل سے کوسوں دور ہیں جو ہم کراچی ودیگرشہروں میں رہنے والوں کو بیماریوں میں مبتلا کردیا ہے۔
گرمیوں میں یہ لوگ وافر مقدار میں سبزیاں اور پھل کھاتے ہیں جبکہ سردیوں میں خشک خوبانی‘ پنیر اور اناج استعمال کرتے ہیں ۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب وادی ہنزہ کے لوگ کچھ نہیں کھاتے ، یہ وقت دو سے تین ماہ پر مشتمل ہوتا ہے ، اس عرصے میں ہنزہ کے لوگ صرف خشک خوبانی کا جوس پیتے ہیں۔ خوبانی میں سوڈیم‘ وٹامن اے اور پوٹاشیم کی وافرمقدار موجود ہو تی ہے جبکہ خوبانی کے بیج میں وٹامن بی71‘ امائنو ایسڈ اور ضروری فیٹس موجود ہوتے ہیں جس سے کینسر کی حفاظت ہوتی ہے ۔ یہ لوگ روٹی باجرے اور گیہوں کو ملاکر (آٹے کی صورت میں) بناتے ہیں ، اس میں چوتھائی چائے کا چمچ نمک اور خشک سبزیاں کچل کر ڈالتے ہیں پھر اس آمیزے کو آدھا کپ ٹھنڈا دودھ ہو یا معدنیات ملا پانی شامل کرکے تیار کیا جاتا ہے۔ ہنزہ کے لوگوں کی غذا میں گوشت کا استعمال بہت کم ہوتا ہے جو زیادہ تر شادیوں یا خاص تقریبات میں پکایا جاتا ہے ۔ تفریح کے لیے چہل قدمی یا جسمانی سرگرمی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی بناءپر ان کی اوسط عمر120سال تک ہوتی ہے۔ سردیوں میں بھی انتہائی ٹھنڈے پانی سے نہاتے ہیں اس کا درجہ حرارت منفی10ڈگری کیوں نہ ہو اور خواتین میں ساٹھ سال کی عمر تک بچے پیداکرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
قارئین گرامی!
اس طریقے سے بھی دنیا کو امن کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے کہ غریب آدمی کو غربت کے خوف سے نکال کر اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مطابق انفاق فی سبیل اللہ سے اس کی مدد کی جائے۔ غربت کو گالی کی بجائے ایک ایسے لائف اسٹائل کے طور پر دیکھا جائے جس میں غریب آدمی اپنے لیے اعزاز محسوس کرے‘ اسے غریب ہونے پر احساس کمتری نہ ہو۔ امیر اور غریب سب ہی ایسا طرز زندگی ، رہن سہن اور کھانا پینا اختیار کریں جو انہیں بیماریوں کی دلدل میں دھکیلنے کی بجائے صحت اور تندرستی کی طرف لے آئے اور ایسا صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی کو رول ماڈل بناکر کھانے پینے‘ رہنے سہنے اور پہننے اوڑھنے میں سادگی اختیار کریں اگر آج یہ چیز ہمارے اندر آجائے تو دنیا بدل سکتی ہے۔
وماعلیناالاالبلاغ