میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
لگژری گاڑی چوری کیس کی تحقیقات سفارتی استثنیٰ کے سبب غیرموثر

لگژری گاڑی چوری کیس کی تحقیقات سفارتی استثنیٰ کے سبب غیرموثر

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۸ دسمبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

لندن سے چوری ہوکر پاکستان سے برآمد ہونے والی لگژری گاڑی بینٹلے ملسن کے فراڈ کی تحقیقات پیچیدگیوں کا شکار ہو گئی ہے اور سفارتی استثنیٰ نے تفتیش کاروں کے ساتھ ساتھ استغاثہ کے کام کو بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق رواں برس ستمبر میں چوری، ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی اور لگژری کار کی غیر قانونی رجسٹریشن کے کیس میں کسٹم حکام نے ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کے ایک گھر پر چھاپہ مار کر لندن سے مبینہ طور پر چوری کی جانے والی اور سندھ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ شدہ بینٹلے ملسن کار برآمد کی تھی۔لگژری گاڑی کے مقامی خریدار جمیل شفیع اور نوید بلوانی کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا جنہوں نے گاڑی کی کلیئرنس میں مبینہ طور پر غیر قانونی سہولت فراہم کی تھی،یہ مقدمہ کسٹم کی خصوصی عدالت میں زیر التوا ہے جس نے حتمی چارج شیٹ جمع کرانے کے لیے 11 جنوری 2023 کی تاریخ مقرر کی ہے۔دستیاب دستاویزات کے مطابق لگژری گاڑی 2019 میں اسلام آباد میں تعینات ایک یورپی سفارت کار نے درآمد کی تھی، گاڑی کی نمبر پلیٹ بی آر ایس-279 تھی۔محکمہ ایکسائز سندھ کے آن لائن گاڑیوں کی تصدیق کے پورٹل پر رجسٹریشن نمبر کی فوری تلاش سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ 21 مئی 2020 کو ایچ ای الیگزینڈرا بوریزوو کے نام سے رجسٹرڈ کی گئی تھی۔سرکاری دستاویزات میں بتایا گیا کہ کسٹم حکام نے ماضی میں کراچی میں اس لگژری گاڑی کو ضبط کرنے کی کوشش کی تھی تاہم بلغاریہ کے سفارت خانے نے مداخلت کی اور وزارت خارجہ کو بتایا کہ گاڑی غیر ملکی مشن کے سروس اسٹاف کے زیرِ استعمال ہے اور اسے کسی کو فروخت نہیں کیا گیا، لہذا محکمہ کسٹم کے پاس گاڑی کو ضبط کرنے کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔اس کہانی کا آغاز 2019 میں پاکستان میں بلغاریہ کے سفیر کی جانب سے گاڑی کی درآمد سے ہوا تھا، نومبر 2019 کو حکومتِ پاکستان نے سفارتی افسران اور مشنز کے ذریعے اپنے ذاتی استعمال کے لیے بیرون ملک سے سامان درآمد کرنے کے لیے بلغاریہ کے سفارت خانے کے الیگزینڈر بوریزوو کے حق میں استثنی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں