بیروزگاری کا عفریت۔۔۔ نوجوان کہاں جائیں؟
شیئر کریں
ڈاکٹر عبدالحفیظ لغاری /حسن اکبر
گریجویشن کا طالب علم ہر وقت اچھی ملازمت اور پُر آسائش مستقبل کے خواب دیکھتا رہتا ہے، جس میں وہ خود کو ٹائی لگائے ایئر کنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھ کر فائلوں کی ورق گردانی کا تصور کر رہا ہوتا ہے، انٹر کام پر ڈھیر سارا کام سیکریٹری کے حوالے کرتا ہے تو دل ہی دل میں خوش ہو جاتا ہے۔یہ سب حقیقت ہو جانا ناممکن بھی نہیں مگر سچ یہ ہے کہ ایسا صرف کچھ لوگوں کے لیے ہی ممکن ہو پاتا ہے۔ گریجویشن کرتے وقت طالب علم بالکل مطمئن ہوتے ہیں کہ ملازمت تو ہمیں مل ہی جانی ہے۔بہت سے نوجوانوں کو تو یہ تک کہتے سنا جاتا ہے کہ سرکاری ملازمت ملی تو کریں گے ورنہ نہیں۔ یا پھر یہ بھی سننے کو مل جاتا ہے کہ سرکاری ملازمت میں بندے کو زنگ لگ جاتا ہے، ملازمت تو بھئی پرائیویٹ ہی کرنی ہے۔مگر یہ باتیں اس وقت ٹھیک ہیں جب گریجویٹس کانووکیشن میں ڈگری لے کر نکلیں اور اپنا گاﺅن ہی نہ اتاریں کہ انہیں ملازمت دینے والا ان کا آرڈر ہاتھ میں لیے کھڑا ہو۔ظاہر ہے کہ ایسا تو نہیں ہوتا اور جب نوجوان ڈگری لے کر عملی میدان میں پہنچتے ہیں تب انہیں تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ پھر وہ آخرکار اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ اپنی مرضی تو چھوڑو بس کوئی بھی کام مل جائے جس سے چار پیسے آئیں اور بے روزگار ہونے کے طعنے سے جان چھڑائیں۔
مگر یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ آخر کیا سبب ہے کہ کچھ افراد کے لیے ملازمت کا حصول ممکن ہو جاتا ہے اور دوسروں کو مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ چلو مان لیا کہ کافی جگہوں پر ناانصافی اور میرٹ کا فقدان اہل امیدواران کو نوکری سے محروم کر دیتا ہیں مگر جہاں ایسا نہیں وہاں کیوں چند امیدوار کامیاب ہو جاتے ہیں اور دوسرے رہ جاتے ہیں؟عام طور پہ تو یہ شکوہ سرکار سے ہوتا ہے کہ وہ ملازمت کے مواقع فراہم نہیں کر رہی مگر اکثر سرکاری اداروں میں جتنی گنجائش ہوتی ہے اتنے ملازم بھرتی ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کہیں تو ضرورت سے زیادہ اسٹاف بھرا ہوتا ہے اور کہیں اہم آسامیاں بھی خالی پڑی ہوتی ہیں۔ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ بے روزگاری سے تنگ گریجویٹ سرکاری نوکری کا ہر اشتہار دیکھ کر وہاں درخواست دینے میں دیر نہیں کرتے، چاہے وہ میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کی سند رکھنے والوں کے اہل امیدواروں کی ہی آسامی کیوں نہ ہو۔اس کی ایک عام مثال پرائمری اور ہائی اسکول میں اساتذہ کی آسامیاں ہیں، جن کے اشتہار اخبار میں آتے ہی ہزاروں گریجویٹ درخواست دیتے ہیں اور میٹرک و انٹر پاس امیدواروں کو آسانی سے مات دے کر پاس ہو جاتے ہیں، اور پھر جیسے جیسے انہیں اپنی اہلیت کے مطابق دوسری ملازمت کے مواقع حاصل ہوتے جاتے ہیں وہ درس و تدریس کی ملامت چھوڑ کر جاتے رہتے ہیں، یوں یہ آسامیاں دوبارہ خالی ہو جاتی ہیں جنہیں دوبارہ بھرتے بھرتے وقت لگ جاتا ہے۔
پاکستان میں بے روزگاری کی کیا وجوہات ہیں، یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس پر تفصیل سے گفتگو ہوسکتی ہے، لمبے چوڑے مضامین تحریر ہوسکتے ہیں۔ لیکن کیا اس سے بے روزگاری کی شرح میں کوئی کمی ہوگی؟ میرے خیال میں صرف گفتگو یا بلاگ تحریر کرنے سے بے روزگاری کی شرح میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی کیونکہ حکومت کے پالیسی ساز اشخاص ان بلاگز کو اہمیت دینا تو دور کی بات، پڑھتے تک نہیں ۔تو اب سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں بہتری کیسے آسکتی ہے؟
ہمارے ملک میں نوجوانوں کی اکثریت تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش شروع کرتی ہے۔ جب وہ جاب مارکیٹ میں جاتے ہیں تو ان کو اندازہ ہوتا ہے کہ نوکری تلاش کرنا کافی مشکل کام ہے کیونکہ پاکستان کے کمزور معاشی حالات (اور بے شمار دیگر وجوہات) کے سبب یہاں بے روزگاری کی شرح بہت بلند ہے۔میڈیا میں اکثر اس طرح کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں کہ فلاں سرکاری نوکری کے لیے جس میں صرف دس/بارہ سیٹیں تھی، 30 ہزار سے زائد افراد نے اپلائی کردیا۔ وفاقی حکومت کے مقابلہ کے امتحان (سی ایس ایس) میں تقریباً بیس ہزار سے زائد طلبہ وطالبات شرکت کرتے ہیں، جبکہ اس میں 200 کے قریب سیٹیں ہوتی ہیں۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ تقریباً 100 افراد کا ایک سیٹ کے لیے مقابلہ ہے۔ اس لیے اس میں جو کامیاب ہوتا ہے وہ واقعی خوش قسمت ہوتا ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں آپ اگر امیر ہونا چاہتے ہیں یا معاشی طور پر خوشحال ہونا چاہتے ہیں تو انتہائی معذرت کے ساتھ، نوکری اور حلال تنخواہ کے ساتھ آپ کے لیے یہ کرنا اگر بالکل ناممکن نہیں، تو اتنا مشکل ضرور ہے کہ اسے چند لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں کر پاتا۔ مثلاً مکان ہر خاندان کی بنیادی ضرورت ہے۔ بڑے شہروں میں پانچ مرلے کے مکانات کی قیمت 40 سے 50 لاکھ روپے ہے۔ اب ذرا تصور کریں ایک خاندان کا جس میں ایک آدمی نوکری کرتا ہے۔ وہ اپنی تنخواہ میں سے ہر سال کتنی بچت کریں کہ اپنا ذاتی مکان خرید سکیں؟ جبکہ پراپرٹی کی قیمت بھی چند سالوں میں دُگنی ہوجاتی ہے۔ اس لیے پاکستان میں نوکری کرنے والوں کی اکثریت اپنی تنخواہ کے ذریعے اپنا ذاتی مکان تعمیر نہیں کر سکتی۔
انٹرپرینیور کا اصل اردو ترجمہ ”کاروباری شخص“ ہے۔ ویسے تو انٹرپرینیور شپ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ”انٹرپرینیور شپ “ کو پاکستان کی تمام نجی و سرکاری یونیورسٹیز میں ایک کورس کا درجہ حاصل ہے اور انٹرپرینیور شپ کا مضمون بطور خاص ڈگری پروگرامز میں پڑھایا جا رہا ہے، جبکہ بعض یونیورسٹیز میں ”ایم بی اے“ میں اس مضمون کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، جس سے بڑے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔
انٹرپرینیور شپ میں ترقی کی کوئی حد نہیں۔ آپ اپنی سوچ اور محنت سے بہت آگے تک جاسکتے ہیں، لیکن نوکری میں ہر جگہ حدود و قیود ہیں۔ مثلاً آپ کی ترقی اور تنخواہ میں اضافہ ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص کسی کالج/یونیورسٹی میں لیکچرر بھرتی ہو اور اگلے سال اس کالج میں پروفیسر، اس سے اگلے سال ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اور اگلے سال پرنسپل/ ڈین وغیرہ بن جائے، بلکہ اگلی پوسٹ تک جانے کے لیے اسکو کافی سال انتظار کرنا ہوگا۔
پاکستانی معاشرہ میں بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے کے لیے ہمیں انٹرپرینیور افراد کی ضرورت ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ اگرہم صرف بزنس، مینیجمنٹ، انجینئرنگ، کامرس یا کمپیوٹر سائنس کے ماہرین تیار کرتے جائیں گے، تو جناب ان سب کو نوکری کہاں سے ملے گی؟اگر ہماری یونیورسٹیاں صرف انجینئر پیدا کرنے کے بجائے ایک انٹرپرینیور انجینئرز تیار کریں تو اس سے ملک میں بے روزگاری کی شرح میں کمی ہوگی۔ کیونکہ وہ نوکریاں پیدا کریں گے۔
سرکار کے بعد باری آتی ہے نجی اداروں کی جہاں ہر فرد سرکاری اداروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ سچائی سے کام کرتا نظر آتا ہے۔ کیوں کہ اگر وہ خود ادارے کا سربراہ ہوگا تو ادارے سے سچائی فطری طور پر ہونی ہی ہے اور اگر صرف ملازم ہے تو بھی اسے یقین ہے کہ جب بھی کام میں کمی آئی، مالک نکال باہر کرے گا جو بات سرکاری اداروں میں کم ہی نظر آتی ہے۔یہ صرف ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا سچ ہے کہ ملازمت نہ ملنے کا باعث آسامیوں کا نہ ہونا نہیں بلکہ بڑا سبب یہ ہے کہ اداروں کو جن لوگوں کی ضرورت ہے وہ انہیں مل نہیں پاتے۔اگر آپ کہیں بھی کوئی ایسا سروے دیکھیں جس میں بے روزگاری کے اسباب جمع کیے گئے ہوں تو زیادہ تر یہی سبب دیکھنے کو ملے گا
کہ ادارے کو جس قسم کے ملازم کی ضرورت تھی، ایسا کوئی امیدوار انہیں ملا ہی نہیں، یا پھر آنے والے میں سے کسی نے بھی ٹیسٹ انٹرویو میں متاثر کن جواب نہیں دیے۔ یہی سبب ہے کہ اداروں کو اپنے مطلب کا بندہ نہیں مل رہا اور ڈگری ہاتھ میں لیے نوکری کے لیے مارے مارے پھرتے نوجوانوں کو ملازمت نہیں مل پا رہی۔اکثر نئے گریجویٹس تو امتحانات کے فوراً بعد امتحانی سلپ لے کر نوکری ڈھونڈھنے نکل پڑتے ہیں جنہیں خاطر خواہ جواب ملنا مشکل ہوتا ہے۔ کہیں ملازمت حاصل ہو بھی جائے تو وہ ان کے مزاج یا معیار کی نہیں ہوتی، جس وجہ سے وہ امیدوار بیزار ہو کر ملازمت چھوڑ دیتے ہیں اور ایسی ملازمت سے فارغ وقت بِتانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ ہی یہیں سے شروع ہوتا ہے۔کیوں کہ گریجویشن کے فوراً بعد اپنے مطلب کی ملازمت نہ ملنے پر فارغ بیٹھ کر اچھی نوکری کا انتظار کرتے کرتے جو وقت گزرتا ہے وہ ہمارے کیریئر پر داغ ہے۔
آپ جتنا زیادہ وقت بِناکام یا تجربے کے گزاریں گے آپ کے لیے انٹرویو اتنا زیادہ دشوار ہوگا۔ کیوں کہ جس طرح گریجویٹس سے تجربہ پوچھا جاتا ہے، اسی طرح کچھ سال پہلے گریجویشن کرنے والوں سے گریجویشن کے بعد اب تک گزرے وقت کی مصروفیت پوچھی جاتی تھی کہ اب تک آپ کہاں اور کیا کر رہے تھے؟ اس کا جواب اگر "کچھ نہیں بس ایسے ہی فارغ تھا” دیا تو سمجھیں آپ کی چھٹی۔اسی لیے گریجویشن کے بعد کسی نہ کسی ملازمت یا پروفیشنل کام سے وابستہ رہنا چاہیے۔ اس طرح چند پیسے کے ساتھ تجربہ بھی حاصل ہوتا رہے گا اور کہیں اچھی آسامی کے لیے انٹرویو دینے جائیں گے تو یہ مسئلہ نہیں ہوگا کہ فارغ بیٹھا تھا بلکہ آپ یہ کہہ پائیں گے کہ دوسری جاب سے ابھی انٹرویو دینے آیا ہوں۔ ملازمت دینے والے بھی ایسے امیدواروں سے خوش ہوتے ہیں جن کے پاس متعلقہ تجربہ ہو پھر چاہے وہ کتنے بھی چھوٹے یا غیر معروف ادارے سے حاصل کیا ہوا کیوں نہ ہو۔کچھ صورتوں میں نئے گریجویٹس بارہا کوششوں کے باوجود اپنے مطلب کا کام حاصل نہیں کر پاتے۔ ایسے میں بھی فارغ بیٹھنے سے بہتر ہے کہ پوسٹ گریجویشن کی طرف پیش قدمی کی جائے کیونکہ کسی انٹرویو میں اپنا موجودہ اسٹیٹس فارغ کے بجائے اگر طالب علمی کا ہے تو بھی اچھا تاثر رہے گا۔
اگر آپ نے اپنی تعلیم مکمل کرلی ہے اور اس کے بعد آپ کو مناسب نوکری نہیں مل رہی ہے تو اس کی دو طرح کی وجوہات ہوسکتی ہیں، اول تو اس کا تعلق ملک کے حالات،اچھی طرز حکومت، جاب مارکیٹ ،سے ہو سکتا ہے۔ اب ان حالات کو ٹھیک کرنا انفرادی طور پر تو ممکن نہیں۔ ان پر صرف تبصرہ اور گفتگو ہی کی جاسکتی ہے اور بس!لیکن بے روزگاری یا بہتر نوکری نہ ملنے کی دوسری وجہ کا تعلق انفرادی رویوں سے ہے، جسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ جس سے بے روزگاری سے روزگار اور نوکری سے مزید بہتر نوکری کا حصول ممکن بن جاتا ہے۔بے روزگاری یا نوکری کے دوران مزید ترقی کے نہ ہونے میں جو مشکلات درپیش آتی ہیں ان میں اچھی ڈگری، تجربہ، اپنے کام میں مہارت، کمیونیکشن اسکلز کے علاوہ جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہے اچھے ”لنکس“۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کے کامیاب افراد سے رابطے زیادہ ہوتے ہیں انہیں نوکری یا ترقی جلدی مل جاتی ہے، چاہے ان کے پاس فنی مہارت کم ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے” لنکس“ تمام کمزوریوں کو دور کردیتے ہیں۔ اس لیے ملازمت کے حصول یا ترقی کے لیے اچھے تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔روایتی طریقوں سے کامیاب افراد سے بہتر تعلقات قائم کرنا کافی مشکل کام ہے اور ان تعلقات کو برقرار رکھنا تو اور بھی مشکل ترین کام ہے۔ اس چیز کے لیے آپ کو ہر وقت ”قربانیوں کے لیے تیار“ رہنا پڑتا ہے۔ ان میں وقت، پیسہ، توانائی اور فیملی لائف کی قربانی شامل ہوتی ہے۔ اتنی قربانیوں کے باوجود اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ وہ شخصیت آپ کے کام آئے گی بھی یا نہیں۔
وہ تمام افراد جو ” کامیاب “ افراد سے روایتی طریقوں سے تعلقات قائم نہیں کر سکتے یا کرنا نہیں چاہتے تو وہ ترقی کے لیے کیا کریں۔ ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ اپنی سیلف مارکیٹنگ کریں، یعنی اپنی خوبیوں کو مزید نمایاں کریں۔ اس کی مثال ہمارے معاشرے میں”سیاست سے وابستہ“ لوگ ہیں کیوںکہ وہ اپنی ذاتی تشہیر کا کوئی مقام ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اسکول، کالج، ہسپتال، کی تعمیر تو قومی خزانے سے کی جاتی ہے مگر اس کا نام پارٹی لیڈرز کے نام پر رکھ دیا جاتا ہے، جیسے”گورنمنٹ فلاں ڈگری کالج “۔اب اکثر احباب کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہوگا کہ میں اپنی ذاتی تشہیر کیسے کروں؟ ذاتی تشہیر کرنا کوئی اچھا کام تو نہیں، اس طرح میرے وقار میں کمی آئے گی، لوگ مجھے شہرت کا بھوکا تصور کریں گے۔۔۔ نہیں جناب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔
لنکڈ ان ملازمت کے لیے ایک سوشل میڈیا نیٹ ورک ہے، لنکڈ ان سال 2003 سے لوگوں کے لیے کام کررہا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے چار سو ملین افراد اس کے باقاعد ہ ممبر ہیں۔زیادہ تر لوگ ” لنکڈ ان“ کو پروفیشل تعلقات قائم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں کیونکہ ”لنکڈ ان“ کا بنیادی مقصد ہی بزنس سے متعلق نیٹ ورکنگ ہے۔ ”لنکڈ ان“ اپنے ممبران کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اس پلیٹ فارم پر موجود دیگر افراد سے رابطہ قائم کر سکیں. لنکڈ ان کی بدولت آپ بہت جلد ہی اپنی فیلڈ اور انڈسٹری کے لوگوں سے تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔لنکڈ ان کا بنیادی ورژن فری ہے جس کی کوئی بھی فیس نہیں ہوتی لیکن اس کا ایک پریمیم ورژن بھی ہے جس کی باقاعدہ فیس ہوتی ہے۔ اس پیڈ ورژن کو عموماً کارپوریشن کے ہیڈز، کمپنیز کے سی ای اوز زیادہ پسند کرتے ہیں۔”لنکڈان“ ہی کیوں، کیا روایتی سی وی موثر نہیں؟کیا روایتی مائیکروسافٹ ورڈ میں ٹائپ شدہ سی وی غیر موثر ہے؟ جی ہاں کیونکہ آج کل زیادہ تر بڑی کمپنیز کے ایچ آرمنیجر روایتی سی وی کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیونکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ سی وی امیدوار نے خود تیار نہیں کی بلکہ کسی نیٹ کلب میں تیار کروائی گئی ہے۔ جبکہ کمپنیز کے لیے بڑی تعداد میں موجود سی ویز میں سے کسی قابل شخص کو تلاش کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔اس لیے حالیہ کچھ برسوں میں دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ”لنکڈ ان“ کے ذریعے ملازمتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ کارپوریشنز کے ریکروٹمنٹ اسپیشلسٹس” لنکڈ ان“ کے ذریعے درست امیدوار کو زیادہ جلد اور موثر انداز میں تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اپنی لنکڈ ان پروفائل کا ایڈریس اس انداز میں ترتیب دیں تا کہ سرچ انجن کے ذریعے اسے آسانی سے تلاش کیا جاسکے۔ اپنا پروفائل ایڈریس دوسروں سے مختلف یا یونیک بنائیں تاکہ آپ کے ہم نام لوگوں میں سے آپ کو تلاش کرنا آسان ہو، جیسے نام کے ساتھ شہر کا نام درج کرلیں تاکہ آپ کا نام یونیک بن جائے۔ اپنے کیریئر کی معلومات مختصراً مگر جامع انداز میں تحریر کریں۔ کوشش کریں کہ تین سو الفاظ سے زیادہ طویل نہ ہو۔ جس شعبے میں آپ ملازمت کرنے کے خواہشمند ہیں اسے تعارفی پیراگرف میں ضرور بیان کریں۔ مثلاً ”میں ویب ماسٹر میں ملازمت کرنے کا خواہاں ہوں“۔ پروفائل میں اکثر لوگ صرف حالیہ نوکری کا ذکر کرتے ہیں۔ اپنی سابقہ تمام نوکریوں کا ذکر کریں تا کہ آپ کے تجربات/مہارت کا بہتر طور پر اندازہ لگایا جاسکے۔ اپنی پروفائل پر تسلی کے ساتھ اچھی طرح کام کریں۔ یہ کچھ دقت طلب کام ہے۔ لیکن پروفائل پر آپ جتنی محنت کریں گے نوکری ملنے کے مواقع اتنے زیادہ ہوں گے۔ یہ بات ذہن نشیں کرلیں کہ آپ کے لیے انٹرویو کال کا فیصلہ آپ کی پروفائل دیکھ کر ہی ہوگا۔ لہٰذا پرسکون ہو کر، ایک دو دن بھی لگا کر اپنی تمام تر خوبیاں درج کریں۔ اپنے ہنر اور مہارت کا ذکر لازمی کریں۔ اپنی تمام تر پیشہ ورانہ مہارتوں کو بیان کریں۔ مثلاً اگر آپ کا تعلق ”آرکیٹیکچر “ سے ہے تو آپ اپنی فنی مہارتوں میں ڈیزائننگ، تخمینہ و اخراجات، سپر وائز، سائٹ آرگنائزیشن، ماڈل میکنگ، آٹو کیڈ وغیرہ لکھیں گے۔ کہنے کا مقصد یہی ہے کہ آپ جو بھی مہارتیں رکھتے ہیں ان کا ذکر ضرور کریں۔کم از کم تین سے پانچ کامیاب افراد ایسے تلاش کریں جو آپ کی پروفائل پر اپنے نیک جذبات کا اظہار کر سکیں۔ ”لنکڈاِن“ پر کامیاب افراد کی ”ریکمنڈیشنز“ سے کافی اثر پڑتا ہے۔ کوشش کریں کہ یہ وہ افراد ہوں جن کے پاس آپ نے ماضی میں کام کیا ہو۔ جس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ وہ آپ کے کام سے مطمئن تھے۔ اس طرح کی ”ریکمنڈیشنز“ سے آپ کی پروفائل زیادہ متاثر کن بن جائے گی۔ لنکڈان پروفائل کو مزید بہتر بنانے کے لیے بہت سی ویڈیوز ”یو ٹیوب“ پر دستیاب ہیں۔ اپنا فارغ وقت ان وڈیوز پر صرف کریں۔پروفیشنل لوگوں سے تعلقات قائم کریںلنکڈ ان پروفائل کو مکمل کرنے کے ساتھ وہاں موجود اپنی فیلڈ کے دیگر پروفیشنل لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کریں۔ جس کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ پروفیشنل دوست آپ کو اپنی کمپنی میں ملازمت دلوانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ لنکڈان کو دیگر سوشل میڈیا فیس بک وغیرہ جیسا تصور نہ کریں، یہ ایک پروفیشنل نیٹ ورک ہے۔ یہاں صرف اپنی پروفیشنل شناخت بنائیں اور اپنے مذہبی، نسلی، لسانی، سیاسی، خیالات کا اظہار ہرگز نہ کریں اور نہ ہی ان لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کریں جن کا آپ سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ ہو یا آپ کی فیلڈ کے نہ ہوں۔ ایسا کرنے سے آپ کی پروفائل کو اسپیم (SPAM) تصور بھی کیا جاسکتا ہے۔
بے روزگاری کا بہترین حل
”انٹرپرینیورشپ“
دنیا بھر کے ماہرین کی نگاہ میں بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے کے لیے بہترین حل ”انٹرپرینیورشپ“ یعنی اپنا کام شروع کرنا ہے۔ حکومت کا انتظار کرنے کے بجائے روزگار کے ذاتی مواقع پیدا کرنے کے لیے پاکستانی نوجوانوں کے ذہنی رجحان کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی توجہ ”ملازمت “ کے بجائے ”کاروبار“ کی طرف کریں، یعنی نوکری تلاش کرنے کے بجائے نوکری دینے والا بننے کی کوشش کریں۔
نوکری ہی نہیں تو تجربہ کہاں سے لائیں؟نوجوانوں کا شکوہ
آج کل آنے والی ہر آسامی میں تجربہ لازمی قرار دیا جا رہا ہے۔نوجوان اکثر یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ نوکری ملے گی تو تجربہ بھی حاصل ہوگا۔ نوکری ہی نہیں ملی تو تجربہ کہاں سے لائیں؟ لیکن وہ خود کو کچھ دیر کے لیے ملازمت لینے کے بجائے دینے والے ان مالکان کی جگہ رکھ کر دیکھیں، جہاں ادارے کے مالی اخراجات اور آمدنی کا توازن بھی انہی مالکان کی ذمہ داری ہو تو ایسے میں کوئی کسی غیر تو کیا اپنے کو بھی اپنے ادارے میں ملازمت دینے سے کترائے گا۔کون یہ چاہے گا کہ کسی ایسے شخص کو ملازمت دی جائے جسے تنخواہ دینے کے عوض سروسز حاصل نہ ہوں، ا±لٹا اسے الگ سے ٹریننگ دینی پڑے؟ یہ بات سنتے ہی نوجوان پوچھتے ہیں تو پھر ہم کیا کریں؟ کہاں سے لائیں تجربہ جس سے ہمیں ملازمت کا حصول ہو؟تجربہ حاصل کرنا اتنا بھی مشکل نہیں، بس تھوڑی محنت اور وقت کا صحیح استعمال آنا ضروری ہے۔ آپ کو اس کا ایک اچھا موقع تو اس وقت مل جاتا ہے جب سیمسٹر بریک کا وقت آتا ہے اور فراغت ملتی ہے۔ ویسے تو چھٹیوں کا مقصد آرام یا دُشوار موسم سے جان چھڑا کر خوشگوار موسموں والے علاقوں میں وقت بتانا ہوتا ہے، لیکن اگر کریئر بہتر بنانا ہو تو اپنے مضمون سے متعلق کوئی مختصر ٹریننگ ڈھونڈھ لی جائے۔مثلاً کوئی سماجی علوم کا طالبِ علم ہے تو کسی این جی او کو جوائن کرے، آئی ٹی میں ہے تو کسی سافٹ ویئر ہاﺅس جائے، یا پھر انجینئرنگ کر رہا ہے تو کسی انڈسٹری میں جا کر انٹرن شپ کرے۔ ٹریننگ کے ذریعے تجربہ حاصل کرنے کا ایک تو سیمسٹر بریک کا وقفہ اچھا وقت ہے اور دوسرا گریجویشن کے فوراً بعد کا وقت۔اس طرح کی ٹریننگز اکثر مفت فراہم ہوتی ہیں۔ کہیں کہیں آپ کو چار پیسے بھی مل جاتے ہیں، جبکہ چند جگہوں پر آپ سے ایسی ٹریننگ کے بدلے پیسے مانگے بھی جاسکتے ہیں، لیکن اگر چند پیسوں میں آپ کی صلاحیتوں میں بہتری پیدا ہو تو کوئی حرج نہیں کیوں کہ اس ٹریننگ نے جو مستقبل میں فائدہ دینا ہے، اس کا کوئی مول نہیں۔
نوجوانوں کو ایسا مشورہ دینے پر یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ملازمت ملنے کا ایک ہی حل ہے پیسا یا پھر سفارش۔ یہ اہلیت اور تجربے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اس بات سے انکار تو نہیں کہ یہ سلسلہ ہمارے پاس برسوں سے چل رہا ہے اور بد قسمتی سے تھمنے کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے مگر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بڑھتی آبادی، توانائی کی کمی کے پیش نظر مستقبل کی منصوبہ بندی کے سبب روزگار کے مواقع دن بہ دن کم ہو رہے ہیں اور کام میں آئے دن آنے والی جدت نے بھی انفرادی صلاحیتوں کے حامل ملازمین کی طلب بڑھا دی ہے۔
پاکستانی نوجوان باصلاحیت۔۔لیکن درست سمت متعین کرنے کی ضرورت
ہمیں نوجوان میں کاروبار کی خواہش پیدا کرنا ہوگی،ہمارا نوجوان طبقہ بہت زیادہ ذہین ہے اور اس کے اندر بے پناہ صلاحیتیں ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک پاکستانی نوجوانوں کی تعریف کرتے ہیں، لیکن جس وجہ سے ہماری نوجوان مار کھا رہے ہیں، وہ اس کا درست سمت کی جانب سفر نہ کرنا ہے۔میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو جو کام سمجھا دیا جائے وہ اس کام کو بہت اچھے طریقے سے مکمل کرتے ہیں۔ محنت، جانفشانی اور ذہانت میں پاکستانی نوجوان دنیا کے دوسرے ممالک کے نوجوانوں سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔اب ہمارے نوجوانوں کو سوچنا اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ ”مجھے اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنا ہے، کسی دوسرے کی غلامی نہیں کرنی، مجھے ہر صورت آگے بڑھنا ہے، مجھے اپنی کمزوریوں کو کم کرنا ہے تاکہ میرے کام کرنے کی صلاحیت اور طاقت میں اضافہ ہو، مجھے اس دنیا میں کوئی بڑا کام کرنا ہے، مجھے اپنے معاشرے کے کمزور طبقے کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہیں اور ان کی خوشی میں اضافہ کرنا ہے۔
جنہیں نوکری مل جاتی ہے کیا وہ مطمئن ہیں؟
نوکری ملنا بہت مشکل عمل ہے۔ اچھا ۔۔۔!جن کو نوکری مل جاتی ہے کیا وہ مطمئن ہیں؟ تو میرا مشاہدہ ہے کہ نوکری کرنے والوں کی اکثریت اپنی ملازمت سے مطمئن نظر نہیں آتی ۔ بے روزگاری کی بلند شرح کی وجہ سے اکثریت کو ان کی تعلیم/تجربے سے کم درجے کی نوکری ملتی ہے۔ میں ذاتی طور پر بہت سے ایسے افراد کو جانتا ہوں جنہوں نے کمپیوٹر سائنس میں بیچلرز اور ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے، لیکن ان کو نوکری کمپیوٹر آپریٹر کی ملی ہے، جسے وہ اپنے کمزور معاشی حالات اور دیگر عوامل کی وجہ سے کرنے پر مجبور ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان میں اکثر نوکری کرنے والوں کو ”ذاتی نوکر“ تصور کیا جاتا ہے، جس میں آپ کو بلاوجہ بہت باتیں سنائی جاتی ہیں۔ کانٹریکٹ میں درج کام کے علاوہ بھی دیگر بہت سارے کام لیے جاتے ہیں جو انسان صرف اس لیے کرنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کہیں یہ نوکری بھی ہاتھ سے نہ چلی جائے۔ اور جو تنخواہ مہینے کے بعد ملتی ہے، وہ اتنی قلیل ہوتی ہے کہ چند دن میں خرچ ہو جاتی ہے۔اکثر نوکری کرنے والوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ دفترمیں آپ جتنا مرضی اچھا کام کرلیں، لیکن آپ کو اس کا کوئی اجر نہیں ملنا، کیونکہ ان کی تنخواہ فکس ہے، جس کا ان کی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں۔ بہت کم دفاتر میں یہ اصول ہے کہ اگر آپ زیادہ اچھا کام کریں تو آپ کی تنخواہ زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس طرح کی وجوہات سے نوکری کرنے والوں کی اکثریت بددلی اور شدید فرسٹریشن کا شکار نظر آتی ہے۔ وہ نوکری کر بھی رہے ہوتے ہیں اور شکوے شکایت بھی۔
ملازمت۔۔۔ بمقابلہ ”انٹرپرینیورشپ“
انٹرپرینیور شپ ایک اثاثہ ہے جبکہ ”نوکری“ آپ کی ذات خاص تک محدود ہے۔ جو لوگ نوکری کرتے ہیں، ان کی آمدنی کے لیے ان کا خود حاضر ہونا لازمی شرط ہے۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ اپنی جگہ کسی اور شخص کو نوکری پر بھیج دیں۔ یہ نوکری آپ کو خود ہی کرنی ہے۔ اگر کسی وجہ سے نوکری کرنے والا شخص اس دنیا سے رخصت ہوجائے تو اس کے خاندان کو نوکری سے ملنے والی مراعات ختم ہو جاتی ہیں، یا انتہائی کم یعنی نہ ہونے کے برابر ملتی ہیں۔
اس کے مقابلے میں انٹرپرینیور شپ آپ کا اور آپ کے خاندان کا ایک اثاثہ ہے، ایسا اثاثہ جس کو فروخت بھی کیا جاسکتا ہے۔ انٹرپرینیور شپ کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ چونکہ اس میں نوکریاں پیدا ہوتی ہیں، اس لیے آپ کو اپنی اولاد یا رشتے داروں کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی، نہ آپ کو اپنے بیٹے یا بھائی وغیرہ کی نوکری کے لیے کسی کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے۔ آپ اپنی اولاد یا رشتہ داروں کو اپنے ساتھ کام پر لگا سکتے ہیں، نیز کامیاب انٹرپرینیور کے اہل خانہ کو زندگی کی بنیادی ضروریات بہت آسانی سے میسر آجاتی ہیں۔
نوکری کرنے والوں کی آمدنی چونکہ فکس ہوتی ہے، اس لیے جب بھی حکومت بجٹ کا اعلان کرتی ہے، یا غیر اعلانیہ مہنگائی کرتی ہے، تو ان کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے، خاص طور پر درمیانے طبقہ کو، چونکہ ان کی تنخواہ میں اضافہ تو سال کے بعد ہونا ہے۔ (یاد رہے کہ ہمارے ہاں کئی اداروں میں تنخواہوں میں اضافہ سالانہ کے بجائے تین چار سال کے بعد ہوتا ہے) جبکہ انٹرپرینیور طبقے کو مہنگائی اس طرح متاثر نہیں کرتی۔ اس کے علاوہ انٹرپرینیور کے پاس اپنی آمدنی بڑھنے کے بے شمار مواقع موجود ہوتے ہیں۔