نگراں سندھ حکومت تعلیمی بورڈز میں ایڈہاک ازم ختم کرنے میں ناکام
شیئر کریں
نگراں حکومت کے قیام کے دو ماہ سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود سندھ کے تعلیمی بورڈز میں ایڈھاک ازم برقرارانہ ہی گزشتہ حکومت کے خلاف ضابطہ اقدامات کو ختم کیا جاسکا نہ ہی بورڈز میں چیئرمین، کنٹرولرز، سیکریٹریز سمیت دیگر افسران کی تقرری کے لیے مجوزہ تلاش کمیٹی بھی قائم نہیں کی جاسکی جب کہ ماضی میں وائس چانسلرز کے تقرر والی تلاش کمیٹی ہی کو بورڈز میں افسران کے تقرر کے لیے اختیارات دیئے گئے تھے جسے بعد میں صرف وائس چانسلرز کی تقرری تک محدود کردیا گیا جس کی وجہ سے تعلیمی بورڈز کی صورتحال اور خراب ہوگئی۔ گزشتہ حکومت نے بورڈز میں مستقل افسران کے تقرر کے بجائے خلاف ضابطہ ایک بورڈ سے دوسرے بورڈ ملازمین کی تقرری کا کاروبار کیا اوربھاری رقوم کے عوض عدالتی حکم نامے کی پرواہ کیئے بغیر ڈیپوٹیشن پر افسران کو لایا گیا حتی کہ لاڑکانہ بورڈ کے چئیرمین کو کراچی منتقل کیا گیا حالانکہ تلاش کمیٹی کے زریعے ان کی تقرری صرف لاڑکانہ بورڈ کے لیے تھی۔اس سے قبل میرپورخاص بورڈ کے ڈپٹی کنٹرولر کو بھی کنٹرولر بنا کر کراچی لایا گیا تھا فیڈرل بورڈ کے ڈائریکٹر ذولفقار علی شاہ کو بغیر تلاش کمیٹی کے ڈیپوٹیشن پر میرپور خاص بورڈ کا چیئرمین بنادیا گیا اسی طرح ایک سیاسی شخصیت کے بھائی ڈائریکٹر ہیومن سیٹلمنٹ اتھارٹی، ہیومن سیٹلمنٹ اینڈ سوشل ہاو?سنگ ڈیپارٹمنٹ، ندیم سومرو، کو تلاش کمیٹی کے بغیر ڈیپوٹیشن پر ایک برس کی مدت کے لیے لاڑکانہ بورڈ کا کنٹرولر مقرر کردیا گیا جب کہ اسی بورڈ میں کمیٹی کے منتخب کردہ چئیرمین پروفیسر نسیم میمن کا کراچی بورڈ تبادلہ کرکے بغیر کمیٹی کے جونیئر افسر اور انسپکٹر کالجز سکندر میر جت کو چئیرمین بورڈ لاڑکانہ مقرر کردیا گیا اسی طرح میٹرک بورڈ کراچی میں نوید گجر کو غیر قانونی طور پر گریڈ 19 میں ترقی دے کر سیکریٹری مقرر کردیا گیا جب کہ انھوں نے عدالت میں محکمہ بورڈز و جامعات کے خلاف کیس کر رکھا تھا اور وہ کیس بھی ہار گئے تھے۔ سکھر تعلیمی بورڈ کے جونیئر افسر رفیق احمد نے غیر قانونی طور پر گریڈ 20 حاصل کیا اور بغیر تلاش کمیٹی کے چیئرمین بن گئے۔حیدرا?باد تعلیمی بورڈ میں تلاش کمیٹی کے بغیر سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر علی احمد بروہی کو ڈیپوٹیشن پر چئیرمین بورڈ مقرر کردیا گیا جب کہ وہاں محکمہ کالج ایجوکیشن کا ٹیچر شوکت علی خانزادہ ڈیپوٹیشن پر تعینات ہے جب کہ سندھ ہائی کورٹ نے سفارشی کلچر کو روکنے کے لیے ڈیپوٹیشن کا دروازہ بند کردیا تھا ۔