میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پی ٹی آئی  جلسے کے لیے انتظامیہ کو نئی درخواست دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایت

پی ٹی آئی جلسے کے لیے انتظامیہ کو نئی درخواست دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایت

جرات ڈیسک
جمعه, ۱۸ نومبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے کہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو وفاقی دارالحکومت میں جلسہ کرنا ہے تو انتظامیہ کو نئی درخواست جمع کرائے۔ جمعہ کو چیف جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی کے علی نواز اعوان اور مقامی تاجروں کی راستوں کی بندش کے خلاف درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔وکیل نے عدالت کو بتایا کہ علی نواز اعوان اس کیس میں پٹیشنر ہیں جو شہر سے باہر ہونے کی وجہ سے دستیاب نہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پاکستان تحریکِ انصاف شہر سے باہر ہے؟ عدالت نے صرف یہ ہی کہنا ہے کہ جو کچھ کرنا ہے وہ قانون کے مطابق کریں۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی والوں کا تو پتہ ہی نہیں ہے کہ انہوں نے کب آنا ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کی درخواست 3 نومبر کی تھی جو پہلے ہی غیر موثر ہو چکی ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ پی ٹی آئی جلسے کی تاریخ اور وقت سے آگاہ کر کے انتظامیہ سے اجازت لے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے کہا کہ یہ سب ایڈمنسٹریشن نے ہی فیصلہ کرنا ہے، ہم نے صرف یہ ڈائریکشن دینی ہے کہ آپ ان کی درخواست پر قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔ معاون وکیل نے کہا کہ ہم انتظامیہ کو آج ہی درخواست دے دیتے ہیں، اس کیس میں بابر اعوان خود پیش ہوں گے، منگل تک سماعت ملتوی کر دیں۔ چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ آپ نے انتظامیہ کو نئی درخواست دینی ہے، اگر مسئلہ حل نہ ہو تو نئی پٹیشن بھی دائر کر سکتے ہیں، عدالت کوئی مقام تجویز نہیں کر سکتی، یہ انتظامیہ کا کام ہے کہ وہ بتائے کہ ڈی چوک میں اجازت دینی ہے یا ایف نائن پارک میں، جلسے کے لیے قواعد و ضوابط اور شرائط انتظامیہ کے ساتھ ہی طے ہونی ہیں، سپریم کورٹ سے بھی اس سے متعلق آرڈر آ چکا ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے سوال کیا کہ تاجروں کی درخواست پر کیا کریں؟ ابھی راستے بند تو نہیں کیے گئے؟ اگر کوئی صوبہ فیڈریشن کی ڈائریکشن نہیں مانتا تو پھر کیا ہو گا؟ فیڈریشن امن و امان کی صورتِ حال کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا کر سکتی ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے جواب دیا کہ وفاق آئین کے تحت آرمڈ فورسز کو طلب کر سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی یہ معاملہ آیا تھا اور کچھ ڈائریکشنز دی گئی ہیں، اگر انہوں نے کہہ دیا کہ راستے بند نہیں ہوں گے تو ٹھیک ہے۔ دورانِ سماعت انٹیلی جنس رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان پر جلسے کے دوران حملے کا خدشہ ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامرفاروق نے کہا کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق عمران خان پر حملے کے خدشات ہیں، حکومت اور ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اس چیز کو بھی مدِ نظر رکھے، سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں کا احتجاج کرنا حق ہے، عام شہریوں اور پٹیشنرز تاجروں کے بھی حقوق ہیں جو متاثر نہیں ہونے چاہئیں، انگلینڈ میں بھی مظاہرین ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ پر آ جاتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں مگر سڑک بلاک نہیں کرتے، ہائی کورٹ ڈپٹی کمشنر کی ذمے داریاں نہیں سنبھال سکتی، اگر آپ ڈپٹی کمشنر کے کسی آرڈر سے متاثر ہوئے تو عدالت آئیں۔ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ لانگ مارچ نہیں روک سکتے۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا کہ آپ نے جی ٹی روڈ، موٹر وے اور دیگر شاہراہیں بلاک کیں، آپ کو بھی ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ پی ٹی آئی وکیل نے جواب دیا کہ نئی درخواست کے لیے پارٹی قیادت سے مشاورت کرنی ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اگر جلسہ کرنا ہے تو انتظامیہ کو نئی درخواست دے، اگر جلسے کی اجازت دیں گے تو یقینی بنائیں گے کہ سڑکیں بلاک نہ ہوں، انتظامیہ نے یقینی بنانا ہے کہ عوام کے حقوق متاثر نہ ہوں، سیاسی جماعت کے احتجاج کا حق اور شہریوں کے بنیادی حقوق دونوں ہی متاثر نہ ہوں، انتظامیہ نے بیلنس قائم کرنا ہے۔ پٹیشنر کے وکیل سردار تیمور اسلم نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد کے راستوں میں اب بھی کنٹینرز کھڑے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کنٹینرز احتیاطی تدابیر کے لیے رکھے ہیں، ان سے راستے بلاک نہیں ہوئے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ 2014ء کے دھرنے کے دوران پکڑے گئے کنٹینرز کے پیسے 3 ہفتے پہلے ادا ہوئے ہیں، وہ بھی جب توہینِ عدالت کی درخواست آئی تو پھر پیسوں کی ادائیگی ہوئی۔ عدالتِ عالیہ نے پی ٹی آئی کو جلسے کے این او سی کیلئے انتظامیہ کو نئی درخواست دینے کی ہدایت کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل کی استدعا پر سماعت 22 نومبر تک ملتوی کر دی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں