آمروں نے نہیں جمہوری حکومتوں نے ملک کو مقروض کیا
شیئر کریں
قرض لینے کا آغاز ملک کی آزادی کے ساتھ ہی ہوگیا تھا۔ ایوب خان کا دور پہلا تھا جس میں تقریباً 180 ملین ڈالر بیرونی قرضہ ادا کر کے پاکستان پر کل قرضہ کم کرادیا گیا بلکہ پاکستان نے پہلی بار دوسرے ممالک کو قرض دینے شروع کیے جن میں جرمنی جیسا ملک بھی شامل تھا۔ بھٹو کے دور میں پاکستان پر کل بیرونی قرضہ 6341 ملین ڈالر تھا۔ بھٹو کے تباہ کن جمہوری دور میں پاکستان نے پہلی مرتبہ بڑے بڑے قرضے لینے شروع کیے۔ بھٹو دور میں بظاہر ایسے کوئی منصوبے بھی نظر نہیں آتے جہاں یہ رقم کھپائی گئی ہو۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کل بیرونی قرضہ 12913 ملین ڈالر تک پہنچا۔ جنرل ضیاء واحد فوجی حکمران تھا جنہوں نے تقریباً 6572 ملین ڈالر کے بیرونی قرضے لیے لیکن جنرل ضیاء مسلسل گیارہ سال تک روس جیسی سپر پاور کے خلاف جنگ کرتے رہے۔ ایٹمی پروگرام کی تکمیل اور ایف 16 طیارے خریدنے کے علاوہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ چھوٹے ڈیم بنائے۔ نوازشریف کے دو ادوار میں کل بیرونی قرضہ 39000 ملین ڈالر تک پہنچ گیا ۔ دونوں منتخب جمہوری حکمرانوں نے مجموعی طورپر صرف دس سال کے عرصے میں26090 ملین ڈالر کا تباہ کن قرضہ لیا جبکہ ان دس سالوں میں 250 ارب روپے کے ایک موٹر وے کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔ پرویز مشرف کے عہد میں یہی قرض 34000 ملین ڈالر ہوگیا۔ پرویز مشرف کے 8 سالہ دور میں بیرونی قرضوں میں ریکارڈ کمی ہوئی ۔ انہوں نے تقریباً 5000 ملین ڈالر کے ریکارڈ قرضے کم کرائے۔
حکومت کا قرضوں پر انحصار ، قرضوں کا حجم ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ گزشتہ سالوں کے دوران پاکستان میں آنے والی حکومتیں ملک میں نئے منصوبے شروع کرنے کے لیے قرضے لیتی رہی ہیں جس وجہ سے اس وقت پاکستان پرغیرملکی قرضوں کا بوجھ 75 کھرب سے زیادہ ہو چکا ہے۔ موجودہ صورت حال میں ہر پاکستانی تقریبا 4 لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا ہے اور اس وجہ سے پاکستان میں قائم ہونے والی بیشتر حکومتوں نے مزید قرضے لینے کے لیے انتہائی قیمتی قومی اثاثوں کو گروی بھی رکھنا شروع کر دیا ہے۔
بیرونی قرضوں کی دستیاب معلومات سے انکشاف ہوا ہے کہ نواز شریف نے اپنے دور وزارت عظمیٰ میں صرف 4 سالوں میں جتنا قرض لیا وہ پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں لیے گئے کل قرض کے برابر نکلا۔ یوں وہ قرض لینے کا نیا ریکا رڈ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے مجموعی طورپر چار برس میں36 ہزار ملین ڈالر قرض لیا۔
آصف علی زرداری کا دور پھر اتارے گئے قرض چڑھانے کا دور ثابت ہوا۔ بیرونی قرضہ 48100 ملین ڈالر تک جا پہنچا۔ انہوں نے صرف پانچ سال میں 14100 ملین ڈالر کا قرضہ لے کر پاکستان کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ نواز شریف اب تک 35900 ملین ڈالر کا کمر توڑ قرضہ لے چکے ہیں۔ آمرانہ ادوار میں کل 6772 ملین ڈالر کا قرضہ لیا گیا جبکہ 5180 ملین ڈالر کا قرضہ اتارا گیا۔ یوں آمروں نے پاکستان کو کل 1592 ملین ڈالر کا مقروض کیا۔ جبکہ جمہور ی حکمرانوں نے پاکستان کو کل 82408 ملین ڈالرکا مقروض کیا۔ جمہوری ادوار میں لیے گئے قرضوں کا محض سود ہی آمروں کے کل قرضوں سے زیادہ ہے۔ چند ماہ بعد پاکستان کو صرف سود کی مد میں 11000 ملین ڈالر ادا کرنے ہیں۔ کون کرے گا، کیسے کرے گا۔ ظاہر ہے عوام کا مزید خون نچوڑا جائے گا۔
پاکستان نے ترقی تو بہت کی ، بڑے بڑے شاپنگ مال بن گئے ،موٹر وے بن گئی، بڑے بڑے گھر بن گئے لیکن جب قرضوں کی ادائیگی کا وقت آیا تو مزید قرضے لینے پڑ گئے جس سے پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہوتی گئی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہر پاکستانی قرضے میں ڈوب گیا اور اس قرضے کی ادائیگی بہت مشکل ہوچکی ہے۔
قرضے اب پاکستان کی معیشت کا 60 فی صد سے بھی زیادہ ہیں جو ملکی کی معاشی ترقی میں رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کے دوران اب تک قرضوں میں پانچ ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ صرف گذشتہ ایک سال کے دوران ایشیائی ترقیاتی بنک اور ورلڈ بنک سے بھی ڈیڑھ ارب ڈالر کے قرضے لیے گئے ہیں۔ مجموعی قرضوں کا حجم ساڑھے انیس ہزار ارب روپے ہے جس میں سات ہزار ارب غیر ملکی جبکہ ساڑھے بارہ ہزار ارب مقامی قرضہ ہے۔
قرضوں کی بنیاد پر معیشت کی دیواریں کھڑی کرنا ریت کے دیوار کی مانند ہے۔ حکومت حقائق چھپا کر عوام کو بیسویں بڑی معیشت بننے کے سنہرے خواب دکھا رہی ہے۔ وطن عزیز 2013 میں چودہ ہزار ارب روپے کا مقروض تھا جبکہ آج صرف چار سالوں میں تقریباً پچیس ہزار ارب روپے کا مقروض ہو چکا ہے قرضے لے کر زرمبادلہ کے ذخائر کو بلند ترین سطح پر شو کیا جا رہا ہے۔ آخر ان قرضوں کی ادائیگی کون کرے گا معیشت میں ترقی صرف اور صرف ایک سراب ہے جس سے عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ حکومت نے کس شعبے میں ترقی کی ہے۔ پی آئی اے جو دنیا کی بہترین ائر لائن تھی آج کہاں کھڑی ہے۔ خود حکومت پی آئی اے کو بوجھ سمجھتی ہے اور اس کی نجکاری کر رہی ہے۔ پاکستان ا سٹیل مل جس کا زرمبادلہ میں ایک قابل ذکر حصہ تھا آج شدید بحران کا شکار ہے۔ روزانہ لاکھوں کی تعداد میں مسافروں کی نقل وحرکت کے باوجود ریلوے خسارے کا شکار ہے اور ملکی خزانے پر آج بوجھ بنی ہوئی ہے۔ ان اداروں کا مجموعی خسارہ تقریباً 800ارب روپے تک پہنچ چکا ہے اس کے باوجود معیشت میں ترقی کے دعوے کیے جا رہے ہے۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں ڈیڑھ سو کے قریب فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور صرف اسی شعبے سے وابستہ 8لاکھ مزدور بیروزگار ہو چکے ہیں۔ توانائی کے شعبے 400 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ قطر سے ایل این گیس کا معاہدہ سب سے مہنگا ترین معاہدہ ہے۔ مجموعی برآمدات 31 ارب ڈالر سے کم ہوکر 24 ارب ڈالر پر آچکی ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جبکہ زرعی پیداوار میں بھی کمی سے ملکی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے پھر بھی وزیر خزانہ اور حکومت بڑے دیدہ دلیری کے ساتھ رجز خوانی کر رہی ہے۔ حکومت ان رجز خوانیوں کے ذریعے اپنا کرپشن چھپانا چاہتی ہے، حکومت سہانے خواب دکھانے کی بجائے معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں اور ملک لوٹو خود کو سنوارو کی پالیسی ترک کریں۔ کوئی بھی ملک ایڈہاک ازم اور مصنوعی اعدادوشمار کے سہارے معاشی استحکام حاصل نہیں کرسکتا اور اس کے لیے سب سے پہلی اور بنیادی ضرورت ٹیم ورک کی ہوتی ہے جو عملاً اور نیتاً مخلص ہو مگر پاکستان کی معاشی تاریخ گواہ ہے کہ اس کے معاشی، اقتصادی ، پلاننگ اور منصوبہ ساز اداروں میں بیٹھے افراد گزشتہ پچیس سالوں سے اپنے بیرونی آقاؤں اور ان کے مقاصد کوپورا کرنے میں مگن ہیں اور حکومتیں اور وزراء آتے جاتے رہتے ہیں مگر وہ تمام افسران شطرنج کے کھیل کی طرح کبھی ایک سیٹ سے دوسری سیٹ پر براجمان ہوکر پاکستان کی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
ہر پاکستانی پر قرض ہے۔ قرض کی ’مے‘ پینے والو ں کو اپنی ’ فاقہ مستی ‘ کے رنگ لا نے کی امید ہے۔قرض لے کر ہی قرض اتاریں جائیں گے تو یہ خوشحالی کیسے آئے گی۔آخر کار دیو الیہ ہو نے پر قرض کی ادئیگی اور وصولی بند ہو جائے گی ۔کب تک ملک کے دگرگوں حالات اور دہشت گردی کا رونا رویا جائے گا۔ قرض دینے والے عالمی ادارے اب تو ملک میں خود ٹیکس عائد کرنے کی فرمائش کر تے ہیں۔