میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ایس سی او کا مشترکہ اعلامیہ اور مشترکہ مفادات پر مبنی عالمی ایجنڈے کی ضرورت

ایس سی او کا مشترکہ اعلامیہ اور مشترکہ مفادات پر مبنی عالمی ایجنڈے کی ضرورت

جرات ڈیسک
جمعه, ۱۸ اکتوبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) سربراہی کانفرنس بخیروخوبی اپنے اختتام کو پہنچی اور کانفرنس کے اختتام پر روایتی مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔ ایس سی او کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عوام کو سیاسی، سماجی اور معاشی ترقی کے راستے کا آزادانہ اور جمہوری طور پر انتخاب کا حق حاصل ہے، ریاستوں کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سا  لمیت کا باہمی احترام پائیدار ترقی کی بنیاد ہیں، طاقت کے استعمال کی دھمکی نہ دینے کے اصول عالمی تعلقات کی پائیدار ترقی کے لیے بنیاد ہیں۔مشترکہ اعلامیے میں ممالک کے درمیان اختلافات اور تنازعات بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ عالمی اتحاد برائے منصفانہ امن، ہم آہنگی اور ترقی کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے قرارداد منظوری کی تجویز کو فروغ دیں گے۔۔اعلامیہ میں غیر امتیازی اور شفاف تجارتی نظام کی ضرورت پر زور دیا گیا جبکہ یک طرفہ تجارتی پابندیوں کی جو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے قوانین کے متضاد ہیں،مخالفت کی گئی۔ مشترکہ اعلامیے میں ’ایک دنیا، ایک خاندان اور ایک مستقبل‘ کے فلسفے پر زور دیا گیا۔علامیے کے مطابق اجلاس میں پاکستان، کرغزستان، بیلاروس، قازقستان، روس اور ازبکستان نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی حمایت کی اور تنظیم کے یورپ اور ایشیا کے مابین بہتر اقتصادی اشتراک کی ضرورت پر زور دیا۔اجلاس نے گرین ڈیولپمنٹ، ڈیجیٹل اکانومی، تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی کے شعبوں میں رکن ممالک کے استعداد کار بڑھانے کی ضرورت پر بھی پر زور دیا۔ اعلامیے کے مطابق وفود کے سربراہان اور تنظیم کے رکن ممالک خطے میں وسیع، کھلی، باہمی طور پر فائدہ مند اور مساوی تعامل کی جگہ بنانے کے لیے خطے کے ممالک، بین الاقوامی تنظیموں اور کثیرالجہتی  انجمنوں کی صلاحیتوں کو استعمال کرنا اہم سمجھتے ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عوام کو سیاسی، سماجی اور معاشی ترقی کے راستے کے آزادانہ اور جمہوری طور پر انتخاب کا حق حاصل ہے، ریاستوں کی خود مختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کا باہمی احترام پائیدار ترقی کی بنیاد ہیں۔شنگھائی تعاون تنظیم کے اندر انسانیت دوست تعاون کی ترقی میں مختلف مراکز کی خدمات کا اعتراف اور ممالک کے درمیان اختلافات و تنازعات بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
     سربراہی کانفرنس کے اختتام پرشنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی روس کو سونپ دی گئی، اب روس ایس سی او کی سربراہی 2025ء تک سنبھالے گا۔وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ایس سی او کی سربراہی ملنے پر روس کو مبارکباد دی۔وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی اور استحکام کیلئے مل کر آگے بڑھنا ہوگا اور معاشی تعاون کیلئے ایس سی او ممالک کو نئی حکمتِ عملی پرغورکرنا ہوگا۔ پائیدار ترقی کیلئے علاقائی روابط کا فروغ ضروری ہے، ایس سی او سربراہ اجلاس رکن ممالک میں تعاون کا اہم موقع ہے، ہمیں اپنے لوگوں کو بہتر معیار زندگی اور سہولتیں فراہم کرنی ہیں، معاشی ترقی اور استحکام کیلئے مل کر آگے بڑھنا ہوگا، یقین ہے ایس سی او میں سیر حاصل گفتگو کے مفید نتائج حاصل ہوں گے۔
      ایس سی او کی سربراہ کانفرنس کے اختتام پر جاری کئے جانے والے اعلامیئے میں جن باتوں پر اتفاق کیاگیاہیاور جس پر بھارت کی جانب سے اس کے وزیرخارجہ جے شنکر نے بھی دستخط کئے ہیں،تنظیم کے رکن ممالک کی ترقی اور خوشحالی اور باہمی تنازعات کے تصفئے کیلئے ایک واضح روڈ میپ پیش کیاگیاہے، اس سے ظاہرہوتاہے کہ اس تنظیم کے رکن ممالک اپنے عوام کو غربت اور مفلسی سے نکال کر خوشحالی کے دور میں داخل کرنا چاہتے ہیں،لیکن سیاسی اور گروہی مفادات کی وجہ سے اپنی اس خواہش کوپایہ تکمیل تک پہنچانے سے گریزاں ہیں،اس کی واضح مثال بھارت ہے جس کے وزیرخارجہ نے پاکستان پہنچنے کے بعد باہمی اختلافات پر امن طورپر حل کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا، اجلاس میں اپنی تقریر میں بھارت کے وزیرخارجہ جے شنکر نے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر سرحد پار دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی جیسی سرگرمیاں جاری رہیں گی تو ایسے ماحول میں تجارت، توانائی اور باہمی رابطے کا فروغ ناممکن ہے۔’اس کے لیے ہمیں ایماندرای سے گفتگو کرنے، اعتماد پیدا کرنا، اچھے پڑوسی تعلقات اور ایس سی او کے چارٹر سے جُڑے رہنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے اپنی تقریر کے دوران مزید کہا کہ ممالک کے درمیان ’تعلقات کی بنیاد باہمی احترام اور خودمختاری پر مبنی برابری کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
     بھارتی وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں جو باتیں کیں وہ پاکستان کے موقف اور نکتہ نظر کے عین مطابق ہیں پاکستان کا ابتدا ہی سے یہ موقف رہاہے کہ ملکوں کو ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرنا چاہئے،اور سرحد پار دہشت گردی کی سازشیں ترک کرکے پرامن پڑوسیوں کی طرح رہنے پر توجہ دینی چاہئے،وزیراعظم شہباز شریف نے کانفرنس میں تقریر کے دوران اسی موقف کا اظہار کرتے ہوئے واضح الفاظ میں دنیا کو بتادیا کہ پاکستان علاقائی ترقی، استحکام اور روابط کیلئے پرعزم ہے، اوروقت آگیا ہے کہ ایس سی او کے مقاصد اور اقدامات پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔سب کو مل کر خطے کو سب کیلئے فائدہ مند بنانا ہوگا، غربت کے خاتمے کیلئے تمام ممالک کو مل کر اقدامات کرنا ہوں گے ساتھ ہی معاشی تعاون کیلئے رکن ممالک کو نئی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر نے ایس سی او کانفرنس کے اعلامیہ پر دستخط کر دیے اس طرح انھوں نے کانفرنس میں ہونے والی باتوں اور مشترکہ اعلامئے میں اٹھائے گئے نکات سے پوری طرح اتفاق کا اعتراف کیاہے،اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جمی برف کی سختی دور کرنے کیلئے باہمی مذاکرات کی طرف ایک قدم بڑھانے کی کوشش کرتے لیکن افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ بھارتی وزیرخارجہ اپنی پارٹی کی سخت گیر پالیسی سے انحراف کرنے کی جرأت نہیں کرسکے اور پاکستان کی جانب سے کرکٹ پر بات شروع کرکے مزید بات چیت کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے برف کو مزید سخت کرنے کا سامان کرکے یہ ثابت کیا کہ بھارتی رہنما اس وقت سپریمی کے خبط میں مبتلا ہیں اور وہ اس تصور سے باہر نکل کر حقائق کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کا انعقاد ہمارے لیے اعزاز ہے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ایس سی او ممالک دنیا کی آبادی کا 40 فیصد ہیں، پائیدار ترقی کے لیے علاقائی تعاون اور روابط کا فروغ ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ معاشی ترقی، استحکام اور خوش حالی کے لیے مل کر آگے بڑھنا ہے، ہمیں اپنے لوگوں کو بہتر معیار زندگی اور سہولتیں فراہم کرنی ہیں،انھوں نے کہا کہ ہم عالمی منظر نامے میں تبدیلی اور ارتقاء کا سامنا کر رہے ہیں، موجودہ صورتِ حال اجتماعی اقدامات کی متقاضی ہے، ہمیں اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے آگے بڑھنا ہے، پاکستان خطے میں امن و استحکام چاہتا ہے، تجارتی روابط کے فروغ کے لیے کاوشیں ضروری ہیں۔ شہباز شریف نے اپنی تقریر میں پڑوسی ملک افغانستان کو نظر انداز نہیں دے بلکہ افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کے پاکستان مخالف کردار کے باوجود عالمی برادری کی توجہ ان کے مسائل کی جانب یہ کہہ کر مبذول کرائی کہ عالمی برادری افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امداد پر توجہ دے، افغان سرزمین کا دہشت گردی کے لیے استعمال روکنا ہو گا، پاکستان پُرامن، مستحکم اور خوش حال افغانستان کا خواہاں ہے۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ سیاحت، روابط، گرین بیلٹ کے شعبوں پر توجہ کی ضرورت ہے، غربت معاشی نہیں بلکہ اخلاقی مسئلہ بھی ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے درپیش خطرات چیلنج ہیں، مشترکہ مستقبل کے لیے اقتصادی استحکام ہماری ضرورت ہے، قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔ایس سی او سربراہی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے پاکستان کو ایس سی او کی صدارت سنبھالنے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ، بھارت نے اس صدارت کو کامیاب بنانے کے لیے اپنی مکمل حمایت فراہم کی ہے۔
جے شنکر نے تسلیم کیا کہ ہم ایک ایسے وقت میں مل رہے ہیں جب دنیا بھر میں حالات پیچیدہ ہیں، دو بڑے تنازعات جاری ہیں، جن کے عالمی اثرات مختلف ہیں۔ کوویڈ نے ترقی پذیر ممالک کو سخت نقصان پہنچایا ہے، شدید موسمی واقعات، سپلائی چین کی غیریقینی صورتِ حال اور مالیاتی عدم استحکام ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ قرض کا بوجھ ایک سنگین مسئلہ ہے، دنیا پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں پیچھے ہے۔ جے شنکر نے کہا کہ دنیا کثیر قطبی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے، عالمگیریت اور توازن ایسی حقیقتیں ہیں جن سے فرار ممکن نہیں، ان تبدیلیوں نے تجارت، سرمایہ کاری، رابطہ کاری اور دیگر تعاون کے شعبوں میں مواقع پیدا کیے ہیں، اگر ہم ان مواقع سے فائدہ اٹھائیں تو ہمارا خطہ بہت زیادہ ترقی کر سکتا ہے، نہ صرف ہم، بلکہ دوسرے بھی ہماری کاوشوں سے تحریک لے سکتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہمارا تعاون باہمی احترام اور خود مختاری کی برابری پر مبنی ہونا چاہیے، ہمیں ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرنا چاہیے، یہ تعاون حقیقی شراکت داری پر مبنی ہو، نہ کہ یکطرفہ ایجنڈوں پر، ترقی اور استحکام کا دارومدار امن پر ہے، امن کا مطلب دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنا ہے۔انھوں نے کہا کہ، سوچنا چاہیے حالات مختلف ہوں تو ہم کتنے بڑے فائدے حاصل کر سکتے ہیں، انھوں نے اپنی تقریر میں تسلیم کیا کہ اسلام آباد میں ہمارے ایجنڈے سے ہمیں ان امکانات کی ایک جھلک ملتی ہے،باہمی صنعتی تعاون سے مسابقت میں اضافہ ہو سکتا ہے اور روزگار کے مواقع بڑھ سکتے ہیں، ایم ایس ایم ای کے درمیان تعاون سے روزگار پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، ہماری مشترکہ کوششیں وسائل میں اضافے اور سرمایہ کاری کو فروغ دے سکتی ہیں، کاروباری برادری کو بڑے نیٹ ورکس سے فائدہ ہو گا۔جے شنکر کا کہنا ہے کہ لاجسٹکس اور توانائی کے شعبوں میں بڑی تبدیلیاں آسکتی ہیں، ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں پر اقدامات کے لیے تعاون کے وسیع مواقع ہیں، متعدی اور غیر متعدی امراض کا علاج سستی اور قابل رسائی دوا سازی کے ذریعے بہتر ہو سکتا ہے، صحت، خوراک اور توانائی کی سیکیورٹی کے شعبوں میں ہم سب مل کر بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا کہ ہمارے عالمی اور قومی اقدامات ایس سی او کے لیے بہت اہم ہیں، بین الاقوامی سولر الائنس قابل تجدید توانائی کو فروغ دیتا ہے، مشن لائف ایک پائیدار طرز زندگی کی وکالت کرتا ہے، گلوبل بائیو فیول الائنس توانائی کے شعبے میں منتقلی کی کوششوں کو تسلیم کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل بگ کیٹ الائنس ہماری حیاتیاتی تنوع کی حفاظت کرتا ہے، ہم نے ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر اور خواتین کی قیادت میں ترقی کے اثرات کو کامیابی سے پیش کیا ہے، ہم سب اپنی اپنی جگہ پر کام کر رہے ہیں، لیکن عالمی نظام اپنے اجزاسے زیادہ بڑا ہے، جیسے جیسے دنیا بدل رہی ہے، عالمی اداروں کو بھی اسی رفتار سے خود کو بدلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اصلاح کی ضرورت وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، سلامتی کونسل میں جامع اصلاحات ضروری ہیں، جولائی 2024میں آستانہ میں ہم نے تسلیم کیا تھا کہ اقوام متحدہ کی ساکھ اور مؤثریت کا دارومدار ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی پر ہے۔ بھارتی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ حالیہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہمارے رہنماؤں نے سلامتی کونسل کی اصلاحات پر اتفاق کیا، ایس سی او کو اس اہم معاملے پر آگے بڑھنا چاہیے، وقت ہے ہم اپنے عزم کو پھر سے تازہ کریں تاکہ ایس سی او کے مقاصد کو حاصل کیا جا سکے، ہمیں موجودہ رکاوٹوں کو پہچاننا ہو گا اور آگے بڑھنے کے لیے مشترکہ مفادات پر مبنی ایجنڈا تیار کرنا ہو گا، یہ تبھی ممکن ہے جب ہم چارٹر کے اصولوں کی مکمل پاسداری کریں۔جے شنکر نے یہ بھی کہا کہ ایس سی او دنیا میں تبدیلی لانے والی قوتوں کی نمائندگی کرتا ہے، دنیا ہم سے بڑی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے، آئیے ہم اپنی اس ذمے داری کو پورا کریں، رابطے کا فروغ نئی کارکردگی کو جنم دے سکتا ہے۔ جے شنکر نے جو باتیں کیں بلاشبہ وہ بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور اگر بھارتی حکومت جے شنکر کے قول کے مطابق عمل کرنے اور اس کیلئے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرنے پر تیار ہوجائے تو اس خطے کو ایک بھیانک ایٹمی جنگ کے اس خطرے سے نجات مل سکتی ہے بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے جس کی طرف یہ تیزی سے گامزن ہے۔

مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں