بلدیہ کے 20 فیصد گھوسٹ ملازمین گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں
شیئر کریں
جب بھی کراچی کے شہریوں کو بنیادی بلدیاتی سہولتوں کی فراہمی ،شہر کاکچرا اٹھانے اور نکاسی آب کانظام بہتر بنانے کی بات ہوتی ہے شہریوں کو صاف ستھری فضا میں سانس لینے کا حق دینے کی بات ہوتی ہے تو کراچی کے میئر وسیم اختر فوری طورپر فنڈز کی عدم دستیابی اور اختیارات نہ ہونے کاراگ الاپنا اوررونا شروع کردیتے ہیں لیکن عوام کو یہ بتانے کو تیار نہیں ہیں کہ وہ اپنے ادارے یعنی بلدیہ کراچی میں کم وبیش 20 فیصد گھوسٹ ملازمین کوجن میں سے بیشتر کاتعلق خود ان کی اپنی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ سے ہے کیوں پال رہے ہیں،اور انھیں نکال باہر کرکے ان کو ہر ماہ ادا کئے جانے والے کروڑوں روپے کی بچت کیوں نہیں کرتے کہ اس بچائی گئی رقم کو شہریوںکو سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کیاجاسکے اور میئر کراچی کوفنڈز کی کمی کاشکوہ نہ رہے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ملازمین کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ملازمین کی مجموعی تعداد کم وبیش 16 ہزار 796 ہے، یہ ملازمین بلدیہ عظمیٰ کراچی کے 17 مختلف محکموں میں سالہاسال سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کی تنخواہوں کی فہرست کے مطابق کم وبیش 13 ہزار 383 ملازمین بلدیہ عظمیٰ کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ کم وبیش20 ہزار سابقہ ملازمین ادارے سے پنشن وصول کررہے ہیں۔بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ملازمین کی تنخواہوں کے بل تیار کرنے اور ریلیز کرنے والے محکمے کے حکام کا کہناہے کہ میئر کراچی اور ڈپٹی میئر اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ مالیات کو اس صورت حال کی اطلاع بار بار دی جاچکی ہے،کہ ہر ماہ بلدیہ میں کوئی خدمت انجام نہ دینے والے اور گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کرنے والے ملازمین پر ہر ماہ 60 کروڑ روپے ضائع ہورہے ہیں۔ لیکن میئر کراچی اور ڈپٹی میئر کراچی مبینہ طور پر پارٹی رہنمائوں کے اشارے پر ان ملازمین کو ہر ماہ تنخواہیں جاری کروارہے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی کرکے ادارے کے 60 کروڑ روپے بچانے اور اس رقم کو شہریوں کو سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
یہاں دلچسپ اور حیرت انگیزبات یہ ہے کہ میئر کراچی وسیم اختر اور ڈپٹی میئر کراچی کے علاوہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے جن گھوسٹ ملازمین یعنی کام نہ کرکے تنخواہ لینے والے ملازمین کی بالواسطہ یا بلاواسطہ طورپر سرپرستی کرکے انھیں کسی کام اورحاضری کے بغیر تنخواہوں کی ادائیگی کی سرپرستی کررہے ہیں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے کسی محکمے کے پاس ان ملازمین کی کسی طرح کی اسناد یہاں تک کہ قومی شناختی کے نمبر یا دیگر ذاتی معلومات بھی موجود نہیں ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے آمدنی اوراخراجات کے ریکارڈ کے مطابق ادارے کے سالانہ اخراجات کم وبیش 14 ارب روپے ہیں جن میں ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں 11ارب73 کروڑ روپے ،ملازمین ،میئر ،ڈپٹی میئر اوردیگر اعلیٰ افسران کو ادا کئے جانے والے مختلف الائونسز کی مد میں 2 ارب 7 کروڑ اور ادارے کی گاڑیوں کی مرمت اور دیکھ بھال کی مد میں 25 کروڑ10 لاکھ روپے خرچ کئے جاتے ہیں ۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ریکارڈ کے مطابق بلدیہ کے کلفٹن میں واقع مچھلیوں کے اکیوریم جسے طویل عرصہ قبل بند کیاجاچکاہے کہ 45 گھوسٹ ملازمین، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے چارجڈ پارکنگ ڈیپارٹمنٹ کے 700 ملازمین، میونسپل سروسز ڈیپارٹمنٹ کے 600 ملازمین کے علاوہ پارک اور ہارٹی کلچر ،ویٹرینری ،فنانس ،انوسٹمنٹ اور پروموشن انٹرپرائز ز،لینڈ انفورسمنٹ ،فائر بریگیڈ ،فیومیگیشن ،ٹریڈ لائسنس ،پیدائش واموات ،فوڈ اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے سیکڑوں ملازمین کوئی ڈیوٹی انجام دئے بغیر باقاعدگی سے بلدیہ عظمیٰ کراچی سے گزشتہ کئی سال سے نہ صرف تنخواہیں بلکہ الائونسز بھی حاصل کررہے ہیں۔ ایک طرف بلدیہ عظمیٰ کراچی سے سیکڑوں افراد بغیر ڈیوٹی انجام دئے گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں دوسری جانب بلدیہ کے اعلیٰ افسران ادارے پر موجود مالی بوجھ میں اضافہ کرنے کے لیے مزید کم وبیش ڈیڑ ھ ہزار افراد کی بھرتی کے لیے تیار نظر آتے ہیں اس حوالے سے اطلاعات کے مطابق بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اعلیٰ حکام سے ایک فہرست تیار کرالی گئی ہے جس میں ڈیڑ ہزار اسامیاں خالی ہونے کی نشاندہی کرائی گئی ہے، اور اب ان اسامیوںپر من پسند پارٹی ورکرز کوملازم رکھنے کے لیے اس فہرست کی منظوری کے لیے مبینہ طورپر مناسب وقت کاانتظار کیاجارہاہے،بلدیہ کے اندرونی حلقوں کاکہناہے کہ اس فہرست کی منظوری کے ساتھ ہی بلدیہ پر لاکھوں روپے کابوجھ اور بڑھ جائے گا جبکہ بلدیہ کے گھوسٹ ملازمین یعنی کام نہ کرکے گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرنے والے افراد کی تعداد میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔بلدیہ کے اندرونی حلقوں کاکہناہے کہ نئے ملازمین کی بھرتی کے لیے تیار کرائی گئی فہرست پر عملدرآمد ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور میئر کراچی وسیم اختر کے درمیان پیداہونے والے اختلافات کی وجہ سے تعطل میں پڑاہواہے کیونکہ ایم کیو ایم کے قریبی ذرائع نے الزام عاید کیاہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیوایم پاکستان کے نئے ورکرز کو جو پارٹی کے لیے بلامعاوضہ خدمات انجام دے رہے ہیں بلدیہ میں کھپانا چاہتے ہیں تاکہ یہ ورکرز بلدیہ کراچی سے تنخواہیں وصول کرتے اورپارٹی کے لیے خدمات انجام دیتے رہیں ۔
اطلاعات کے مطابق سندھ کے سیکریٹری بلدیات رمضان اعوان بلدیہ عظمیٰ کراچی میں بڑے پیمانے پر گھوسٹ ملازمین کی موجودگی اور ان کی نشاندہی کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کئے جانے اورانھیں باقاعدگی سے تنخواہوں کی ادائیگی کے حوالے سے سندھ ہائیکورٹ کو مطلع کرچکے ہیں لیکن ابھی تک عدالت کی جانب سے اس پر کوئی واضح فیصلہ نہ ہونے کے سبب عوام کی بہبود اور ان کو سہولتوں کی فراہمی کے لیے مختص فنڈز کی لوٹ مار کاسلسلہ جاری ہے۔یہ بھی معلوم ہواہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ملازمین کی سوداکار یونین بھی ملازمین کو وقت پر تنخواہوں اور الائونسوں اورپنشن کی عدم ادائیگی کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میںایک درخواست دائر کرچکی ہے ،اطلاعات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ نے حال ہی میں سندھ کے اکائونٹنٹ جنرل کو اس معاملے کی تفتیش کاحکم دیاہے، لیکن بلدیہ عظمیٰ کراچی کے واقف حال حلقوں کاکہناہے کہ اس سے قبل بھی 5 مرتبہ گھوسٹ ملازمین کاپتہ چلانے کے لیے نمائشی تحقیقات اور انکوائریاں کرائی جاچکی ہیں لیکن یہ سب بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں اور بلدیہ کراچی کے اعلیٰ افسران کی سرپرستی کی وجہ سے گھوسٹ ملازمین ہمیشہ بچ نکلتے ہیں اور راہ راست اختیار کرنے کے بجائے بغیر کوئی کام کئے تنخواہوں کی وصولی کاسلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ مالیات کے حکام کے مطابق ادارے کے پے رول ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر سمیت 17 دیگر افسران کے خلاف تفتیش اب بھی جاری ہے لیکن اس سے ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ویٹرینری ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فارق نے بتایا کہ چارجڈ پارکنگ کے 153 ملازمین کا ان کے شعبے میں تبادلہ کیاگیاتھا ان 153 ملازمین میں سے 82 گھوسٹ ثابت ہوئے۔ اس کی اطلاع ادارے کے ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کوبھیج دی گئی تھی لیکن اب تک اس حوالے سے کسی طرح کی کاروائی کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی سجن یونین کے صدر ذوالفقار شاہ نے بتایا کہ تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کے حوالے سے یونین کی درخواست پر سندھ ہائیکورٹ نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کو ملازمین کو تنخواہوں اورپنشن کی ادائیگی کے لیے فوری طورپر 2ارب 10 کروڑ روپے جاری کرنے اور تنخواہوں اور پنشن کے علاوہ کسی اور مد میں کوئی رقم جاری نہ کرنے کاحکم جاری کیاہے۔
اس صورت حال سے یہ ثابت ہوتاہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میئر وسیم اختر اگر اپنے محکمے کو صرف گھوسٹ ملازمین یعنی گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرنے والوں سے پاک کرلیں اور محکمہ کے کام چور ملازمین کو پوری ڈیوٹی کرنے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو شاید انھیں فنڈز اور ادارے میں ملازمین کی کمی کاشکوہ نہیں رہے گا اور اس شہر کے لوگوں کوکچرے کے ڈھیر اور بہتے ہوئے گٹر سے اٹھنے والے تعفن سے نجات مل سکتی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا میئر کراچی اس شہر کے عوام کو مسائل ومصائب سے نجات دلانے کے لیے ایسا کرکے اپنی دن بہ دن سکڑتی ہوئی پارٹی کے کارکنوں اور رہنمائوں کو ناراض کرنے کاخطرہ مول لینے کو تیار ہوں گے۔