میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ممنون حسین سے شمیم فرپو تک....

ممنون حسین سے شمیم فرپو تک....

منتظم
منگل, ۱۸ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

سراج قاسم تیلی کی قیادت میں کراچی چیمبرز نئی تاریخ رقم کررہا ہے
خصوصی رپورٹ:خ ش
کراچی کا ایوان تجارت بیسیویں صدی کے غیر منقسم ہندوستان کا پہلا ادارہ تھا جس کا باقاعدہ افتتاح آل انڈیا کانگریس کے صدر کرم چند موہن گاندھی المعروف مہاتما گاندھی نے کراچی کے تاجروں کی انجمن کے طورپر کیا۔ اس وقت شہر میں مسلمان تاجر نہ ہونے کے برابر تھے صرف ایک مسلمان تاجر سرحاجی عبداللہ ہارون کا نام نمایاں ملتا ہے جو کپڑے کے تاجر تھے دیگر ڈیڑھ سو تاجروں میں اکثریت پارسیوں،انگریزوں اور ہندوﺅں کی تھی پارسیوں میں نمایاں نام کاﺅس جی کا تھا جو مشہور صحافی اردشیرکاﺅس جی کے والد تھے ان کا تجارتی دفتر آج بھی کیماڑی کے قریب کاﺅس جی بلڈنگ کے نام سے موجود ہے ۔ انگریزجو ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں کے روپ میںہندوستان میں داخل ہوئے تھے لہٰذا ان کے 75کے لگ بھگ تجارتی دفاتر تھے جن میں سب سے نمایاں انگریز تاجر ریلی اور اس کے بھائی تھے سٹی اسٹیشن کے قربی آئی آئی چندریگر روڈ پر ان کے تجارتی دفتر کی وسیع ترین عمارت ریلی برادرز بلڈنگ کے نام سے آج بھی موجود ہے جس کا بیشتر حصہ گوداموں کے طورپر استعمال ہورہا ہے ۔ ہندوﺅں میں نمایاں تاجر ٹیکم داس تھے ان کی قائم کردہ لکشمی بلڈنگ کا شمار کراچی کی خوبصورت ترین عمارت کے طورپر 70ءکی دہائی تک رہا۔ مسلمان چونکہ تجارت سے دور تھے۔ چنانچہ جو تاجر چھوٹے پیمانے پر یا کسی بڑے انگریز‘پارسی یا ہندو کے تجارتی ادارے کے ذیلی اور طفیلی کے طورپر افریقی ملکوں کے ساتھ تجارت کرتے تھے اپنی علیحدہ تجارتی بلڈنگ قائم نہیں کرسکے بلکہ کرایہ کی عمارتوں میں ان کے دفاتر قائم تھے ان میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے والد جناح پونجا بھی شامل تھے جو انگریز ی تجارتی کمپنی فلپ اینڈ فلپس کے ساتھ طفیلی تجارت سے وابستہ تھے اور کراچی میں ان کے تجارتی امور کے نگران بھی تھے۔ ابتداءمیں چونکہ کراچی شہر میں کوئی باقاعدہ صنعتی کارخانہ اور ملز نہیں تھیں اس لیے ایوان تجارت یا چیمبرز آف کامرس ہی کہلا تھا جس کے صدر ارکان کی تعداد کے اعتبار سے ہمیشہ انگریز ہی ہوتے تھے۔ بعدازاں جب کراچی میں صنعتیں قائم ہوئیں اور صنعت کاروں کو بھی چیمبرز کا رکن بنایا جانے لگا تو نام میں تبدیلی کرکے اسے ایوان تجارت وصنعت (کراچی چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری)کا نام دیا گیا۔ کے سی سی آئی کی یہ عمارت اپنی ابتداءاور ارکان کی تعداد کے لحاظ سے خاص کشادہ تھی چنانچہ آج تک اپنی موجودہ جگہ جدید تزئین وآرائش کے ساتھ قائم ہے تاہم ارکان کی بڑھتی ہوئی تعداد کے اعتبار سے جو لگ بھگ 4ہزار ہے تنگی کا شکار ہے ۔ ایوان تجارت وصنعت کے ارکان کے قائد ورہبر سراج قاسم تیلی جو انتہائی متحرک اور قابل صنعت کار ہونے کے ساتھ ساتھ ارکان اور شہر کی فلاح وبہبود کے حوالے سے مقبول ترین شخصیت ہیں متبادل کے طورپر مائی کلاچی روڈ پر لگ بھگ ڈھائی ہزار مربع گز(نصف ایکڑ)کا پلاٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ بزنس مین گروپBMGکا یہ بڑا اور شاندار اقدام ہے جو ارکان کے دیرینہ مطالبے کے طورپر پورا ہونے جارہا ہے اور سراج قاسم تیلی کی تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے 25سالہ کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ گزشتہ دنوں سراج قاسم تیلی نے جب متبادل پلاٹ کے حصول کی بات دہلی پنجابی سوداگران کی انجمن جمعیت پنجابی سوداگران دہلی کی جانب سے اپنے رہنما شمیم احمد عارف فرپو کے انداز میں دیے گئے استقبالیہ ڈنر میں بتائی تو پورا پنڈال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ شمیم احمد عارف فرپو کا تعلق جمعیت پنجابی سوداگران دہلی سے ہے ۔ بزنس مین گروپ BMGنے 2016-17ءکے لیے کراچی چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کی حیثیت سے میرٹ پر نامزد کیا گیا تو اپنی خدمات ،اخلاق اور شخصیت کے باعث وہ اس انتخاب پر پورے اُترے اس سے قبل بھی وہ ایوان تجارت کی مختلف کمیٹیوں کی سربراہی کرچکے ہیں اور گزشتہ ماہ کے دوسرے ہفتے میں پورے ایوان کا سربراہ منتخب ہوکر نہ صرف کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں بلکہ شہر کے ہر طبقے بشمول سیاستدانوں،مذہبی وسماجی تنظیموں اور عوامی خدمات کے سرکاری اداروں کے لیے خوشی کا باعث ب نے ہیں جس کا اظہار عشائیہ میں موجود اور استقبالیہ سے خطاب کرنے والے ہر مقررّ نے کھل کر کیا۔ مقررین نے ایوان تجارت کے 44ویں صدر کی حیثیت سے شمیم احمد فرپو کی نامزدگی اور انتخاب کو بزنس مین گروپ BMGخاص طورپر سراج قاسم تیلی کی وسیع النظری اور وسعت قلبی کا ثبوت قرار دیا ۔یہاں یہ امر خاص طورپر قابل ذکر ہے کہ سراج قاسم تیلی نے ہی جناب ممنون حسین کو کراچی چیمبرز کا صدر بنایا تھا جو دورانِ صدارت سندھ کے گورنر بعدازاں پورے ملک کے صدر بن گئے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں