پیٹرول وڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ
شیئر کریں
نگراں حکومت نے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 26 روپے سے زائد اضافہ کردیا۔وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق آئندہ پندرہ روز کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ جس کا اطلاق رات بارہ بجے سے 30 /ستمبر تک ہوگا۔نوٹی فکیشن کے مطابق پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 26 روپے دو پیسے جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 17.34 روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔حالیہ اضافے کے بعد فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 331 روپے 38 پیسے جبکہ فی لیٹر ڈیزل کی قیمت 329 روپے 18 پیسے تک پہنچ گئی۔ دوسری جانب لائٹ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا۔واضح رہے کہ نگران حکومت کے ایک ماہ میں پیٹرول 58روپے43پیسے اورہائی اسپیڈ ڈیزل 55روپے78 پیسے مہنگا ہوچکا ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے یہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔یہ اضافہ ہر پاکستانی پر نیا بوجھ ہے۔ ایسا مشکل وقت ہے کہ پچیس تیس روپے کی ایک روٹی مل رہی ہو تو یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی کیا حالت ہو گی۔ کام ملتا نہیں، کہیں کام ہے تو پیسوں کی بروقت اور بلا تعطل ادائیگی کا مسئلہ درپیش ہے یہ سب مسائل معیشت سکڑنے اور کاروباری سرگرمیوں کے کم ہونے کا ہی تو نتیجہ ہیں۔ اس کے علاوہ تو کوئی اور بات نہیں ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان مشکل حالات میں بھی عام آدمی قربانی دے رہا ہے اور دیتا بھی رہے گا لیکن کیا حالات ٹھیک ہوں گے کیا ان قربانیوں کا صلہ ملے گا یا پھر یہ مشکل وقت گذرے گا تو ایک اور مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو۔
ریاست کو اپنے شہریوں کو معیاری بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے گورننس سسٹم کو مضبوط اور مستحکم بنانا ہوگا۔ غریب عوام کو ٹارگٹ کرکے اور ان کے لیے مخصوص پالیسی وضع کرکے انھیں غربت کی لکیر سے باہر نکالنا ہوگا، جیسے چین نے غربت کا مسئلہ بڑی کامرانی کے ساتھ حل کیا۔ ہمیں سائنس، ٹیکنالوجی اور ہیومن ریسورس میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ برآمدات کے میں اضافے کے لیے خصوصی اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ مقامی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں بیرونی قرضوں کے بوجھ کو کم کرنا پڑے گا۔ اکنامک سسٹم کو شراکتی بنانا ہوگا اور چھوٹی اور درمیانہ درجے کی صنعتوں پر توجہ دینی ہوگی۔ خارجہ پالیسی کو جیو اکنامکس کے اصول پر آگے بڑھنا ہوگا۔ آبادی میں میں تشویش ناک اضافہ کو روکنے کے لیے اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ نقصان پر چلنے والے ریاستی اداروں اور کارپوریشنوں کی شفاف نجکاری کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے پڑیں گے۔
پاکستان میں کرپشن کینسر کی طرح پھیل چکی ہے جس نے ہماری آزادی اور سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ یکساں احتساب کے لیے ایک ایسا قابل اعتبار ادارہ بنانا ہوگا جو سیاستدانوں، جرنیلوں، ججوں اور بیوروکریٹس کا کڑا احتساب کر سکے۔اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر عشرت حسین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت پاکستان کے سیاسی اور معاشی مسائل حل نہیں کر سکتی۔ مسائل کے حل کے لیے عوام کی سیاسی تائید اور حمایت لازم ہے۔ یہ رائے درست ہے البتہ پاکستان کے سیاسی ماڈل کو حقیقی معنوں میں عوامی اور جمہوری بنانے کی ضرورت ہے۔ ایسا جمہوری نظام جس میں عوام کی شرکت نہ ہو صرف سیاسی خاندانوں کے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے جبکہ عوام کی اکثریت اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہی رہتی ہے۔ انتخابی سیاسی نظام میں عوام کی شرکت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کے ذریعے ہی عوام کو مقتدر اور ا سٹیک ہولڈرز بنایا جا سکتا ہے۔ عشرت حسین کی سربراہی میں ٹاسک فورس نے اصلاحات کا جو پیکیج تیار کیا تھا جس کی منظوری وفاقی کابینہ نے دے دی تھی ان پر عمل درآمد کیا جاتا تو آج پاکستان معاشی اور انتظامی حوالے سے بہت بہتر حالت میں ہوتا۔
پیٹرول کی قیمتوں میں تازہ ترین اضافے کو بھی آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی تکمیل کیلئے ناگزیر قرار دیاہے،دراصل حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے اس میں قرضوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کی غلامی میں ہر بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا،اور آئی ایم ایف کو توانائی پر سبسڈی کم کرنے اور ریونیو بڑھانے کے علاوہ درآمدات پر پابندی ہٹانے کا یقین بھی دلایا ہے۔ اس وقت مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے کے ساتھ آج پاکستان کو سخت معاشی بحران کا سامنا ہے۔ آٹے اور چینی کی قیمت کیوں بڑھی ہے حکومت کے کارپرداز اس سے ناواقف نہیں ہیں،حکومت کویقینا اچھی طرح معلوم ہے، کہ غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے۔ لاکھوں لوگوں کی صحت خوراک اور مناسب معیار زندگی کے حقوق خطرے میں پڑ رہے ہیں۔ آج پاکستان کے کم آمدنی والے شہریوں کے حقوق اور مفادات داؤ پر لگ چکے ہیں اب اس ملک کا غریب ایک ہی کام آسانی سے کرسکتا ہے وہ ہے خودکشی، جو ہمارے ملک میں روز ہو رہی ہے،ہم بجلی فرنس آئل سے بنا رہے ہیں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا تو فرنس آئل کی قیمتیں بھی بڑھیں گی اور اس کی قیمتوں میں اضافے سے بجلی کے بلوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہونالازمی ہے بجلی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس پر اگر کوئی بات کررہا ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے باقی کسی جماعت کو عوامی مسائل اور بھوک سے مرتے ہوئے عوام سے کوئی دلچسپی نہیں، آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافے سے عوام ذہنی مریض بن رہے ہیں حکمرانوں کو تو اس اضافے سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ مسئلہ تو عام آدمی کا ہے۔
آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر حاصل ہونے والے 3 ارب ڈالر کہاں جائیں گے کون جانتا ہے پھر سے مالداروں کو قرض دے کر معاف کردیا جائے گا ان کو کون پوچھنے والا ہے؟ اگر پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکالنا ہے تو فوری طور پر ڈیم سے سستی بجلی بنانے پر توجہ دینا ہوگا۔ اربوں ڈالرز کے قرضے معاف کروانے والوں سے سود کے ساتھ قرض واپس لینے کی پالیسی اختیار کرناہوگی اور جو ادا نہ کرے اس کی املاک کو فروخت کرکے رقم وصول کی جائے ملک میں سرمایہ کاری لائی جائے اور انڈسٹری پر توجہ دی جائے۔ صورت حال تو اس وقت یہ ہے کہ عوام ایک آٹے کے تھیلے کے لیے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں وہ عام آدمی جس کو صرف ایک تنخواہ ملتی ہے یا یومیہ اجرت پر زندگی گزارنا ہے اس کا حال کون پوچھے گا،حکومتیں صرف قرض حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتی ہیں مگر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتیں۔ ہم آئی ایم ایف سے 21 پروگرام کرچکے یعنی 76 سال میں 21 بار بھیک مانگی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں قرض کی ادائیگی کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے ہمارے اخراجات ہماری آمدنی سے زائد ہیں ہماری اشرافیہ اپنے اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کی تنخواہوں میں 20 فی صد اضافہ کیوں کیا گیا؟ ہے کوئی جواب؟ شہباز شریف کے 90 کے قریب وزراء ان کی مراعات ان کے غیر ملکی دورے بیرون ملک علاج، بجلی، گیس، رہائش، پیٹرول سب مفت اس کی کیاضرورت تھی۔ کیا قائداعظم نے پاکستان ان کے لیے بنایا تھا جس وقت بانی پاکستان گورنر جنرل تھے تو وہ کابینہ کے اجلاس میں چائے دینے کو بھی منع کردیتے تھے۔ مگر ہمارے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کا تو ہر ماہ کروڑوں کا خرچ ہے یہ تمام عیاشی ختم کیے بغیر ہم کبھی بھی پاؤں پر کھڑے نہیں ہوسکتے۔ قرض تو شہباز حکومت نے لے لیا اور عوام کو یہ مژدہ سنادیا کہ پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا مگر اس کا مستقبل کیا ہوگیا۔
سابقہ اتحادی حکومت نے ٹیکس بیس بڑھانے اور معیشت کو دستاویزی کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ 25 کروڑ کی آبادی میں صرف 45 لاکھ افراد ٹیکس گوشوارہ داخل کرواتے ہیں۔ ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد یا تو زیرو کی ریٹرن فائل کرتی ہے یا بہت کم آمدن ظاہر کرکے صرف فائلر ہونے کے لیے گوشوارہ داخل کرتے ہیں ایک تنخواہ دار طبقہ ہے جس پر جتنا بوجھ ڈال دو اس کی گردن پتلی ہے آج تک کسی حکومت نے ایمانداری کے ساتھ ٹیکس ریفارمز نہیں کیے صرف زبانی جمع خرچ یا اخباری بیان تک محدود کیا۔ عملی طور پر کوئی کام نظر نہیں آتا ہمارے اپنے عرب دوست ممالک میں (وی اے ٹی) ویلیو ایڈڈ ٹیکس کا نظام بڑی کامیابی سے چل رہا ہے ہم وہ کیوں نہیں اپنا لیتے اس سے جعلی انوائس، ان پٹ ایڈجسٹمنٹ اور ریفینڈز کا سارا نظام ہی ختم ہوجائے گا۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان میں ٹیکس کی مد میں 12 سے 14 ٹریلین اکٹھا کیا جاسکتا ہے اگر حکومت اور ایف بی آر سنجیدگی سے ٹیکس بیس بڑھانے پر توجہ دے مگر اس کے لیے ایف بی آر کو محنت کرنا ہوگی۔ افسران ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر وقت گزارنے کے بجائے کام کو ملک و قوم کے مفاد میں کریں اگر ہم نے محنت نہیں کی تو ہمیں Vicious Circle (شیطانی دائرے) میں ہی رہنا ہوگا اور بیرونی قرضوں پر ہی انحصار کرنا ہوگا،لیکن حکمرانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اب عوام یہ سننے کو تیار نہیں ہوں گے کہ ہم تو نگراں ہیں ہمارا کام صرف سابقہ حکومت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے عوام کے صبر کاپیمانہ چھلک گیا تو نگراں ہو یامستقل کوئی بھی بچ نہیں سکے گا،اس لئے بہتر یہ ہے کہ نگراں حکومت عوام پر مزید بوجھ ڈالنے سے پہلے عوام کی حالت زار کو مد نظر رکھے اور عوام کے پیمانہ صبر کو چھلکنے سے بچانے کیلئے اقدامات کرے۔