افغان مسئلے کا حل اور افغان طالبان !
شیئر کریں
پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف کے حالیہ دورہ ٔ چین کے دوران جو مثبت بات سامنے آئی، وہ یہ ہے کہ چین نے امریکا کا نام لیے بغیر یہ بات واضح کردی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اس انداز میں اعتراف نہیں کیا گیا جس کا وہ مستحق تھا۔ پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کے دوران میں چینی وزیر خارجہ وانگ لی کے اس بیان کو پاکستان کے بارے میں حالیہ امریکی رویے کا جواب کہا جاسکتا ہے ۔انہوں نے اس سلسلے میں امریکا کا نام نہیںلیا لیکن بعض ممالک کا کہہ کر انہوں نے واضح اشارہ کردیا ہے کہ امریکا کسی طور بھی پاکستان کی قربانیوں کے اعتراف سے اجتناب کررہا ہے۔ چینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ چین اپنے دیرینہ دوست پاکستان کے ساتھ پورے عزم کے ساتھ کھڑا ہے اور ہر صورت ہم پاکستان کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ـ درحقیقت یہ اعلان امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے افغانستان کے حوالے سے حالیہ بیان کے خلاف پاکستان کے ساتھ اتحاد کا مظہر ہے۔
دوسری جانب پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ تلخیوںکے خاتمے کے لیے چین نے پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا اعلان بھی کیا ہے جو بیجنگ میں اس سال کے آخرمیں منعقد کیا جائے گا۔ اسی طرح گزشتہ دنوں پاکستان کے مخصوص میڈیا پر برکس کانفرنس کے دوران پاکستان مخالف بیان کا خاصا چرچا رہا ہے جس کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی سطح پر بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں چین مکمل طور پر پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔دوسری جانب پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا حل عسکری نہیں بلکہ باقاعدہ مذاکرات میں ہے اور یہ مسئلہ صرف بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکا کسی صورت بھی پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کرے گا۔ اس بات سے امریکی اسٹیبلشمنٹ اچھی طرح واقف ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے لیکن چونکہ افغانستان میں امریکا کے مطلب کا کوئی حل نکلتا نظر نہیں آرہا تو اس کی ذمہ داری وہ پاکستان پر ڈال کر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ امریکا کی جانب سے افغانستان میں بھارت کے سیکورٹی سے متعلق تحفظات کو جائز قرار دینے یا دوسرے الفاظ میں افغانستان میں بھارت کو بڑا کردار دینے کی کوششوں کے حوالے سے پاکستان نے دوست ممالک کے ساتھ مسلسل مشاورت کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اس لیے کسی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ چین اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ انہی معاملات کے تناظر میں چین کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کو قریب لانے میں اہم اور تعمیری کردار ادا کرے گا ۔ اس حوالے یہ معاملات مزید اہم ہوجاتے ہیں کیونکہ اس سال کے آخر میں چین نے پاک افغان اور چین کے وزرائیخارجہ کے اجلاس میں افغان طالبان کے وفد کو بھی شریک کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔یقینا چین کی جانب سے یہ سوچ ایک مثبت اور تعمیری قدم ہے۔ لیکن امریکا اور بھارت اسی معاملے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیںجبکہ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ افغان طالبان کے بغیر افغانستان کے حل کے کوششیں کرنا بے کار ہیں کیونکہ افغان طالبان اس وقت افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے ایک اہم فریق ہیں۔ جس وقت امریکا اور اس کے صہیونی دجالی مغربی اتحادی افغانستان پر حملہ آور ہوئے تھے، اس وقت ان حملوں کا سامنا افغان طالبان نے کیا تھا۔ ان کی ہی حکومت کو شمالی اتحاد کی مدد سے گرایا گیا تھااور پھر افغان طالبان نے ہی ڈیڑھ عشرے پر پھیلی ہوئی عسکری مزاحمت میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی ناک افغان زمین پر رگڑوائی۔ اس لیے اگر عالمی سطح پر کوئی فریق یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا حل افغان طالبان کے بغیر نکل سکتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے کیونکہ افغان طالبان ہی افغانستان کی سب سے بڑی حقیقت ہیں۔ اشرف غنی جیسی کٹھ پتلی حکومت کا کابل سے باہر کیا رسوخ ہے، وہ اظہر من الشمس ہے۔امریکیوں کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر معصوم لوگوں کے قتل عام کے سوا اب تک کچھ نہیںکرسکے ہیں۔امریکا کی صہیونی اسٹیبلشمنٹ اور کرتا دھرتا کبھی افغانستان میں مستقل قیام کے خواب دیکھتے ہیں تو کبھی بھارت کو ’’بڑا کردار‘‘ دے کر اپنی جنگ میں اب بھارت کو بھی جھونکنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو بڑا کردار امریکا بھارت کو افغانستان میں سونپنا چاہتا ہے گزشتہ سولہ برسوں کے دوران میں وہ یہ کردار خود کیوں نہ ادا کرسکا ؟ جو تیر امریکا اور اس کے مغربی اتحادی نہ مار سکے وہ کیا بھارت مار لے گا؟ امریکا نے بحالی کے نام پر افغانستان میں بھارت کا جو کھیل کھیلنا چاہاہے، اس میں مزید تباہی کے سوا کچھ نہیں اور یہی بات امریکی چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکا کا کردار کیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی بیان کرتے ہوئے پاکستان کو حقانی نیٹ ورک اور دیگر تنظیموں کے لیے محفوظ پناہ گاہ قرار دیا ہے تو دوسری جانب اب برکس کانفرنس کے موقع پر لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیموں کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ اپنی کارروائیاں کرتے وقت پاکستان کی سرزمین استعمال کرتی ہیں۔جس کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اس امریکی موقف کی کھل کر مزاحمت کرنے کے بجائے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ’’ہم نے اپنے دوستوں کو آگاہ کردیا ہے کہ ہم نے اپنا گھر بہت حد تک ٹھیک کرلیا ہے‘اور عالمی برادری کے اعتماد کے لیے ہم اس پر مزید کام کررہے ہیں‘‘۔
پاکستانی قوم پر اگر برا وقت آہی گیا تھا اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے حکم پر اگر خواجہ آصف کو وزیر کارجہ بنا ہی دیا گیا تھا تو انہیں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے امریکا کو جواباً کہنا چاہئے تھا کہ پاکستانی حکومت اور اداروں کا کسی دہشت گردی کے گروہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی پاکستانی سرزمین سے اب دہشت گردی کی کوئی واردات ہوتی ہے کیونکہ پاکستان نے اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کردیا ہے۔ اس لیے یہاں ان کا کوئی اڈا نہیں ہے بلکہ آپریشن کے نتیجے میں ایسے تمام گروہ افغانستان بھاگ گئے ہیں ، دوسری جانب ڈیڑھ ہزار کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد پر پاکستان کی جانب سے باڑ لگانے کی افغانستان نے ہمیشہ مخالفت کی ہے جس کی وجہ سے دہشت گرد گروپ سرحد کے دونوں جانب آسانی سے آتے جاتے ہیں۔ لیکن ایسا کہے کون؟ نواز شریف جنہوں نے اپنی وزارت عظمی کے دوران بھارتی دہشت گرد اور سرونگ آفیسر کلبوشن یادیو کی پاکستان میں گرفتاری پر اپنی زبان کو تالا لگا لیا، جبکہ عالمی سطح پر سفارتی کوششوں سے بھارت کو اس موقع پر اچھے خاصے جوتے مارے جاسکتے تھے ان کی جماعت کا نامزد کردہ وزیر خارجہ بھلا کیسے پاکستان کا مکمل مقدمہ لڑ سکتا تھا۔۔۔!!
یورپ میں جو دہشت گردی کی کارروائیاں ہوتی ہیں تو کیا ان کی سرحدیں بھی پاکستان سے ملتی ہیں؟ وہ عناصر کہاں پناہ لیے ہوئے ہیں؟ درحقیقت یہ نہ تو دہشت گردی کا معاملہ ہے اور نہ ہی کچھ اور دنیا میں اصل جنگ معاشی محاذ پر لڑی جاتی ہے جس کے لیے مذہب اور مسلک یا دیگر نظریات کو صرف استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں افغانستان میں امریکا اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادیوں کے ارمانوں پر افغان طالبان نے پوری طرح پانی پھیر دیا ہے۔ اس حوالے سے امریکا کی خواہش تھی کہ مشرف دور میں پاکستان سے جس قدر مدد لی گئی اس سے کہیں زیادہ اب پاکستان کو استعمال کرکے افغانستان میں ہاتھ سے نکلے ہوئے اہداف دوبارہ حاصل کیے جائیں۔ ہم پھر کہہ رہے ہیں کہ امریکا افغانستان میں مٹی کے گھروں کو نشانا بنانے نہیں آیاتھا بلکہ اس کا اصل مقصد پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پر ہاتھ صاف کرنا اور چین کا معاشی راستا روکنا تھا۔ لیکن امریکا کی خواہش کے برعکس پاکستان میں طویل دہشت گردی کی آگ لگانے کے باوجود سنکیانگ سے گوادر تک کی معاشی راہ داری مکمل کرلی، اس کے علاوہ پاکستان کے خلاف تمام تر دہشت گردی کے باوجود کوئی ایسا جواز حاصل نہ ہوسکا جس کی مدد سے اسلامی انتہا پسندی کا شوشا چھوڑ کر پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پر ہاتھ ڈالا جاسکتاتاکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو کھل کر اپنا دجالی رول ادا کرنے میں کامیابی میسر آتی۔پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں نے ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ملکی اور قومی استحکام کی خاطر اس دجالی صہیونی سازش کو ناکام بنایااور دہشت گردوں کو اپنی زمین سے بے دخل کردیا۔ دوسری جانب پاکستان میں جس معاشی دہشت گردی کی وجہ سے ملک کو منصوبہ بندی سے غیر مستحکم کرنے کی سازش کی گئی تھی وہ ناکام ہوئی ۔ جمہوریت کے نام پر پاکستان میں ایسے سیاسی عناصر کو آپس میں ایک کردیا گیا تھا جن کی لوٹ مار نے ملک کو معاشی دیوالیہ کے نزدیک پہنچا دیا تھا۔ یہ عالمی دجالی صہیونیت کا پلان بی تھا کہ اگر عسکری طور پر پاکستان کو کمزور نہ کیا جاسکا تومعاشی طورلٹیرے سیاستدانوں کے ذریعے ملک کی معاشی بنیادیں ہلا دی جائیں لیکن اعلیٰ عدلیہ کے بروقت اقدامات سے یہ سازش بھی تقریباً ناکام ہوچکی ہے ۔ اب امریکا اور بھارت کا رہا سہا زور اس بات پر ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کی نرسری گردانا جائے اور ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ بیجنگ اور ماسکو اس سے دور ہوجائیں۔ لیکن یہ سازش بھی بری طرح ناکام ہوئی ہے۔
خوش قسمتی سے پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع ایسا ہے کہ چین کے بعد اب ماسکو بھی معاشی سرگرمیوں کے لیے پاکستان کی ضرورت اور اس کے استحکام کی اہمیت کو سمجھنے لگا ہے۔ بھارت بھی اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتا تھا اگر وہاں مودی جیسا عقل سے پیدل انسان وزیر اعظم نہ ہوتا ۔ اس کی اور اس کی جماعت بی جے پی کی متعصبانہ سوچ نے بھارت کو امریکا اور اسرائیل کے خطے میں مفادات کے لیے چارہ بنا دیا ہے۔ دوسری جانب برما کے بدھ دہشت گردوں کو استعمال کرکے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کارروائی اس لیے کروائی جارہی ہے کہ ردعمل کے طور پر خطے کے مسلمان برما کے ان مظالم کے خلاف جہادی کارروائیاں شروع کردیں تاکہ یہ خطہ بھی جنگ کی نذر ہو اور چین اس خطے میں پیر نہ جما سکے کیونکہ چین نے جو ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ شروع کیا ہے اس کا آغاز برما سے ہی ہوتا ہے جو آگے جاکر چین سے ہوتا ہوا پاکستان کی معاشی راہ داری سے متصل ہوجائے گا۔اس لیے امریکا بھارت لی آن سو حکومت کے ساتھ مل کر جنوبی ایشیا کے اس حصے میں نئی پراکسی وار شروع کرنا چاہتے ہیں۔چنانچہ پاکستان اور چین کو اس سلسلے میں آگے بڑھ کر روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ جلد از جلد حل کروانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست پاکستان کو ملک سے لوٹی ہوئی دولت جلد از جلد واپس لاکر اس کے ذمہ داران کو داخل زنداںکرنا ہوگا، اس کے بعد تقریبا ًتمام مسائل ایک ایک کرکے پاکستان اور چین کے حق میں حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔