میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خواتین کی حالتِ زار اور مودی سرکار

خواتین کی حالتِ زار اور مودی سرکار

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۸ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

مدھیہ پردیش کے اندر جیسے جیسے انتخاب قریب آرہے اور بی جے پی کی شکست کے امکانات روشن ہوتے جارہے ہیں۔ شیوراج کا جنگل راج بھیانک سے بھیانک تر ہوتا جارہا ہے ۔ پہلے ایک قبائلی پر پیشاب کیا گیا اور پھر اس کے بعد دوسرے کو فضلہ کھانے پر مجبور کیا گیا۔ اب جسے گولی ماری گئی وہ اسپتال میں موت سے لڑرہا ہے ۔ ان سب کے بیچ اجین ضلع سے ایک مسلم میڈیکل پریکٹیشنر زرین خان پر چار نامعلوم مرد اور ایک خاتون کے وحشیانہ حملہ کی خبر بھی آگئی۔اس شنیع حرکت سے قبل زرین خان سے چھیڑ چھاڑ اور عصمت ریزی کی کوشش کی گئی۔ 23 سالہ فزیو تھراپسٹ کے ساتھ یہ بدسلوکی شام ساڑھے پانچ بجے اسکوٹر پر گھر لوٹتے ہوئے ہوئی ۔یہ حملہ تیز دھار ہتھیار، تلواریں، اور لوہے کی سلاخیں سے کیا گیا اور کپڑے پھاڑے گئے ۔ خاتون ڈاکٹر کے رشتہ دار توقیر نے بچانے کی کوشش کی تو وہ بھی تشددکا شکار ہو گیا ۔ اس کے بعد دونوں کو علاج کے لیے اسپتال جانا پڑا۔زرین خان کے مطابق حملہ آور کہہ رہے تھے کہ منی پور میں جو کچھ ہوا ہے اسے دہرائیں گے ۔ ہندوتوا نواز درندوں کا منی پور سانحہ پر شرمندہ ہونے کے بجائے اس کو ملک بھر میں دوہرانے کا ارادہ تشویشناک ہے ۔
پولیس نے اس واقعہ پر مقامی احتجاج کے بعد ایک خاتون سمیر اور 3دیگر افراد کے خلاف دفعہ 354 (عورت پر حملہ یا اس کی عزت کو مجروح کرنے کے ارادے سے مجرمانہ زبردستی کرنا)، 341 (غلط تحمل)، 323 تعزیرات ہند کی 294 (عوام میں فحش حرکت)، 506 (مجرمانہ دھمکی) و دیگر دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی ۔پولیس اسے معمولی مارپیٹ کا واقعہ بتاتی ہے جبکہ متاثرین کے اہل خانہ نے پولیس پر حقائق کو مسخ کرنے کا الزام عائد کیاہے ۔ کانگریس نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی اور کہا کہ شیوراج سنگھ کے دور حکومت میں بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں۔ کمل ناتھ کا کہنا تھا وہ پریشان ہیں کہ منی پور کہاں کہاں پھیل سکتا ہے ، یہ تشویش کی بات ہے ! اس واقعہ سے ملک کی بدنامی ہوئی ہے ۔ بین الاقوامی پریس نے اسے کور کیا ہے ۔ کمل ناتھ کو سمجھنا چاہیے کہ یہ معاملہ صرف بدنامی کا نہیں ایک خاتون کی عزت و ناموس کاہے جو فسطائی حکومت کے تحت سرِ عام پامال ہورہی ہے ۔
خواتین کے استحصال کی ایک مثال ملک میں رائج دیوداسی کا نظام بھی ہے ۔ اس کے تحت لڑکیوں کے والدین چند رسمیں ادا کرکے ازخود اپنی کمسن بیٹیوں کی شادی ایک ہندو دیوی سے کر دیتے ہیں۔ دیوداسیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مذہبی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے عقیدت کی زندگی گزاریں گی۔ انہیں کسی بھی انسان سے شادی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ بلوغت کی عمر میں پہنچتے ہی انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ تحائف کے عوض اپنے کنوار پن کو ختم کرنے کے لیے کسی عمر رسیدہ شخص کے ساتھ جنسی عمل کریں۔اس طرح دیوی کی خدمت کے نام پر دوسرے مردوں کے ساتھ جنسی عمل پر مجبور کرکے دیوداسی کو ے خاندان چلانے پر مجبور ہونا پڑتا جو جسم فروشی کی ایک شکل ہے ۔ مسلمانوں کی چار شادیوں اور طلاق پر آنسو بہانے والے وزیر اعظم کو خود اپنے سماج کی یہ استحصال زدہ خواتین نظر نہیں آتیں جن کا مذہب کی آڑ میں کھلے عام استحصال ہوتا ہے اور قانون کچھ نہیں کرپاتا۔دیوداسیاں صدیوں سے جنوبی ہندوستانی ثقافت کا حصہ رہی ہیں اور ایک زمانے میں انہیں معاشرے میں باعزت مقام حاصل ہوا کرتا تھا۔ تب بہت سی دیوداسیاں تعلیم یافتہ ہوتی تھیں، انہیں کلاسیکل رقص اور موسیقی کی تربیت دی جاتی تھی اور یہ ایک آرام دہ زندگی گزارا کرتی تھیں۔ اس وقت انہیں اس بات کی بھی اجازت تھی کہ وہ اپنے جنسی ساتھی کا انتخاب کر سکیں۔ برطانوی نوآبادیاتی دور میں، دیوداسی اور دیوی کے درمیان ہونے والا یہ مذہبی معاہدہ جنسی استحصال کے ایک ادارے میں تبدیل ہوگیا ۔یہ ہندوتوا نوازوں کا گمراہ پروپیگنڈا ہے ۔ سچائی تو یہ ہے کہ 1829ء ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس رسم کے خلاف قانون کا اجرا کیا جس میں سختی سے اس رسم روکنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شروع میں لوگوں نے چھپ چھپاکر ستی کی رسم کو جاری رکھا مگر برطانوی حکومت نے سختی سے اس رسم میں مددگاروں کو سخت اور کڑی پر سخت سزائیں دیں ۔ یہاں تک بنگال اور بہار وغیرہ میں اس رسم کا صدباب ہو گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریزی علاقوں میں یہ رسم ختم ہو گئی مگر دیسی ریاستوں میں بدستور جاری رہی۔مہاراجا رنجیت سنگھ کی 1839ء میں ارتھی پر اس کی ایک بیوی مہتاب دیوی اور تین لونڈیاں ستی ہوئیں تھیں۔ مگر اس کے بعد انگریز حکومت نے دیسی ریاستوں میں بھی ستی کی رسم ختم کرنے کا حکم جاری کیا اور آخری ستی پنجاب میں 1845ء میں ہوئی تھی۔ آج جب کہ ہندووَں میں یہ رسم ختم ہوچکی ہے اور وہ اعتراف کرتے ہیں کہ یہ بہیمانہ اور وحشیانہ رسم تھی لیکن کچھ لوگ اس بیانیہ کو بدلنے کی کوشش کررہے ہیں اور احسانمندی کے بجائے الٹی بہتان تراشی کررہے ہیں ۔
یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی لونڈی بننے سے بچنے کی خاطر راجپوتوں میں اس رسم کا آغاز ہوا حالانکہ مسلمان حکمرانوں نے اپنے دور حکومت میں اس رسم کو ختم کرنے کی کوشش کی تو ہندووَں نے احتجاج کیا کہ یہ رسم وید کے حکم پر ہے اور اسے بند کرنا ہمارے مذہب میں دخل اندازی ہے ۔ اکبر نے اسے ختم کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا اور اس نے حکم دیا تھا کہ کسی عورت کو زبردستی ستی نہیں کیا جائے ۔اکبر نے ستی کی رسم کو روکنے کی انتہائی کوشش کی اور بار بار حکم نامے جاری کیے ۔ ستی کی اطلاع ملی تو خود ہی روکنے کے لیے پہنچ گیا۔ چنانچہ راجا جے مل کی بیوی کو ستی ہونے سے بچانا اکبر کا ہی کارنامہ تھا۔تاریخی مباحث سے قطع نظر انگریزوں کو ملک چھوڑے ہوئے تین چوتھائی صدی گزر چکی ہے ۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نام نہاد نچلی ذات کے غریب خاندان اس نظام کی مدد سے بیٹیوں کی ذمہ داری سے پیچھا چھڑا لیتے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے مندروں میں دیوداسی بنانے کے عمل کو شیطانیت’’ قرار دیا ہے اور کرناٹک میں یہ عمل غیر قانونی ہے ۔ اس کے باوجود انسانی حقوق کے سرکاری کمیشن نے ایک سال قبل اعتراف کیا تھا کہ پابندی کے چار عشرے بعد بھی کرناٹک میں 70 ہزار سے زائد دیوداسیاں موجود ہیں۔خواتین کے حوالے سے پرانے مسائل ابھی حل بھی نہیں ہوئے تھے کہ نئے آگئے ۔
سماج میں جب سے بغیر نکاح کے تعلقات یعنی لیو ان ریلیشن کا فروغ ہونے لگا ہے اس نے خواتین پر مظالم کا ایک نہایت بھیانک باب کھول دیا ہے ۔ پچھلے سال دہلی میں ایک مسلم نوجوان آفتاب پونا والا کے ہاتھوں اس کی پارٹنر شردھا واکر کے قتل معا ملہ ذرائع ابلاغ میں خوب گونجا ۔ وہ ایک مذمو م حرکت تھی جس میں شردھا کی لاش کے 35 ٹکڑے کر کے پہلے فرج میں ا رکھا گیا اور پھر انہیں تھوڑا تھوڑا دہلی کے قریب جنگل میں مختلف جگہوں پر پھینک دیا گیا۔اس واقعہ میں چونکہ ہندو اور مسلمان کا زاویہ تھا اس لیے ‘لو جہاد’ کا نام دے کر اسے خوب
اچھالا گیا اور گجرات کے انتخاب میں سیاسی استعمال بھی کیا گیا مگر بعد میں وہ دب گیا۔ یہاں شردھا سے ہمدردی کے بجائے مسلم دشمنی غالب آگئی۔
ہندوستانی معاشرے میں جب کوئی دلت لڑکا کسی نام نہاد اونچی ذات والی لڑکی سے شادی کر لے یا پھر اگر لڑکا مسلم ہو اور لڑکی ہندو تو اس پر ہنگامہ ہوتا ہے اور جرم ہوجائے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے ورنہ ایسے معاملات رفع دفع کردئیے جاتے ہیں سیاسی فائدہ اٹھا لینے کے بعد عدل وانصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں کیے جاتے ۔شردھا اور آفتاب کے بعد یوگی کے اترپردیش میں ایک شخص نے اپنی سابقہ گرل فرینڈ کے چھ ٹکڑے کر کے کنوئیں میں پھینک دیا جبکہ ریاست مدھیہ پردیش میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے دو ٹکڑے کر کے جنگل میں دو مختلف مقامات پر دفنا دیئے لیکن بات آئی گئی ہوگئی کیونکہ ان واقعات میں دونوں فریق ہندو تھے ۔ متھرا کے پاس دہلی کی رہنے والی ایک 22 سالہ خاتون کی لاش قومی شاہراہ کے پاس سے سوٹ کیس میں ملی پولیس بعض ملزمین کو گرفتار کیا مگر ذرائع ابلاغ کی پیالی میں کوئی طوفان نہیں آیا۔اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پرنس یادو نامی ایک شخص کو 20 سالہ لڑکی کو محض اس لیے قتل کر دیا کیونکہ اس نے یادو کے ساتھ شادی سے انکار کر کے کسی دوسرے سے شادی کر لی تھی۔قتل کے بعد لڑکی کی لاش کے متعدد ٹکڑے کر کے ایک کنویں میں پھینک دیئے گئے ۔ متاثرہ لڑکی کا نام آرادھنا تھا اگر شبانہ ہوتا تو کم ازکم ملی میڈیا میں اس کا تھوڑا بہت شور و غل ہوتا مگر وہ بھی نہیں ہوا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ مدھیہ پردیش کے شہڈول میں ہوا جہاں ایک شخص نے اپنی بیوی کے کئی ٹکڑے جنگل میں مختلف جگہوں پر دفن کر دیئے ۔اس کیس میں مقتول کی شناخت سرسوتی پٹیل کے طور پر کی گئی ہے جبکہ قاتل رام کشور پٹیل ہیں۔اس لیے کہ عوام اورمیڈیا دونوں کو خواتین پر ہونے والے مظالم سے زیادہ دلچسپی دیگر مسائل میں ہے اس لیے ان میں اضافہ ہوتاجارہے ہیں۔ سب سے زیادہ افسوسناک رویہ ‘بیٹی پڑھاو اور بیٹی بچاو’ کا نعرہ لگانے والی سرکار کا ہے جسے یونیفارم سیول کوڈ جیسے تماشوں سے فرصت نہیں ہے ۔ ملک میں خواتین کے قتل، گمشدگی اور استحصال جیسے سنگین مسائل منہ پھاڑے کھڑے ہیں مگر سیاستدانوں کو انتخابی جوڑ توڑ سے فرصت نہیں ہے ۔ موجودہ حکمرانوں میں نہ تو اکبر اعظم ہے اور نہ لارڈ ہیسٹنگز ہے اس لیے خواتین کے مسائل سنگین تر ہوتے جارہے ہیں ۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں