میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تجدد۔۔ ایک کارِ جاریہ

تجدد۔۔ ایک کارِ جاریہ

ویب ڈیسک
منگل, ۱۸ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

محمد دین جوہر
ایک عام مذہبی مقلد کی حیثیت سے تجدد کے کارہائے جاریہ میں ناچیز کی دلچسپی چندے پرانی اور استعماری اور استشراقی مطالعہ جات کے ضمن میں ہے۔ علما ء کے کام میں ہمیں کوئی دخل در معقولات نہیں۔ آقائے سرسید کا کارِ تجدد فیلنامہ ہے جہاں تجدد کے سارے پاؤں اپنے نشانوں، آہٹوں اور بوجھوں سمیت مسند نشین ہیں۔ ابھی تو بچارے روایت پسند فیلنامے ہی سے نمٹ نہ پائے تھے کہ ڈاکٹر فضل الرحمن کا فرسنامہ بھی آ گیا۔ پیادوں کے حالات کچھ اچھے نہیں کہ وہ پینترے بدل پاتے ہیں اور نہ تجدد کے فرس و فیل سواروں کے پینترے سمجھ سکتے ہیں۔ اہل تجدد طاقت کی نبض اور اہل زمانہ کے من کی مراد کو دیکھ کر بات کرتے ہیں کہ وہ اہل فراست بھی ٹہرے ہیں۔ ’’رائے عامہ‘‘ کو اہل طاقت کے لیے ہموار کرتے چلے جانا مذہبی تجدد کی بنیادی ترین ذمہ داری ہے۔ اہل تجدد کی بات ہو سکتا ہے تھوڑی بہت بدل جائے، لیکن ان کا ایجنڈا کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کے نقارچی بدلتے رہتے ہیں۔ ان کے ہاں دین سر کا تاج نہیں رہا، پاؤں کی زنجیر ہے جس سے اہل زمانہ کی رستگاری انہیں بے چین رکھتی ہے۔ گزشتہ دنوں ماہ صیام میں، روزوں کو ادھر ادھر کرنے کا موضوع بھی چھڑا رہا، اور بیانیے کی بات بھی دھیرے دھیرے چلتی رہی۔ ذیل میں ایک کتاب سے کچھ اقتباسات حاضر ہیں تاکہ ڈیڑھ دو صدیوں سے تجدد کے کارِ جاریہ اور اس کے مقاصد کو سمجھنے میں ذرا مدد مل سکے۔ یہ کتاب گویا تجدد کا خلاصہ بھی ہے اور اس کا مینی فیسٹو (مظہر نامہ) بھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے:
نام: مشکلاتِ قرآن کا انقلابی حل؛ مصنف: محمد اجمل خان؛ سن اشاعت: سنہ۱۹۵۲؛ مطبوعہ: یونین پرنٹنگ پریس، اردو بازار، جامع مسجد، دہلی؛ ناشر: سیف الاسلام خان جامعی، بیت الحکمت، دہلی، ہند۔
یاد رہے کہ محمد اجمل خان ’’امام الہند‘‘ مولانا ابو الکلام آزاد کے سیکریٹری تھے اور بعد ازاں بھارتی پارلیمان کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔ ان کی لگ بھگ ساری عمر مولانا آزاد کی خدمت میں گزری، جہاں ان کی ذہنی، مذہبی اور پیشہ ورانہ تربیت بھی ہوئی۔ اس کتاب میں بھی انہوں نے مولانا آزاد کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’بحمد اللہ ہند میں مولانا ابو الکلام آزاد بانیان ’’حزب اللہ‘‘ میں سے موجود ہیں، اور ان کے چند ساتھی بھی زندہ ہیں جو دنیا کو امن و ترقی اور روحانیت کی طرف لے جانے کی عملی جدوجہد میں مصروف ہیں‘‘۔ یہ بات بہرحال ابھی حل طلب ہے کہ ان کے ہاں تجدد کا یہ خوفناک ایجنڈا کیونکر اظہار پاتا ہے، اور مولانا آزاد کے ساتھ گہرے تعلق کے ہوتے ہوئے اس کی کیا معنویت ہے؟ اور اس امر کا احتمال کس حد تک ہے کہ یہ متجددانہ خیالات ان کی طرف مولانا آزاد کی طرف سے منتقل ہوئے؟ اور یہ کہ انہوں نے قرآن کو تاریخی ترتیب پر مرتب کرنے کی جو کوشش کی اس پر مولانا آزاد کی کیا رائے تھی؟ انہوں نے جدید اسلام کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کئی تصانیف بھی کیں، جن میں سے ذیل میں دیے گئے چند ایک مواقف آگے بھی منتقل ہوئے ہیں۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہر متجدد ان ’’جواہر ریزوں‘‘ کو اپنی عظیم ’’تحقیقی دریافتوں‘‘ کے طور پر بے خبر عوام کے سامنے پیش کرتا ہے اور ان کی اصل کے بارے میں کوئی بات کہنے کا حوصلہ کبھی نہیں پاتا۔
اقتباسات، عنوانات سمیت
[۱]۔ رمضان جاڑوں میں ہونا چاہیے، یہی سنتِ رسول ہے:
’’…… چونکہ قرآن کے نزدیک وفاتِ مسیح سے زیادہ اہم ولادتِ مسیح تھی اور اسی کے اختتام پر مسیحی دنیا میں جشنِ ولادتِ مسیح منایا جاتا تھا، اس لیے آنحضرت نے سنہ دو ہجری سے سنہ ۱۰ ہجری تک رمضان کے روزے ۱۵؍ نومبر سے ۲۵؍دسمبر تک کے زمانے میں رکھے۔ یاد رہے کہ اہلِ عرب بھی شمسی تقویم کے پابند تھے اور ہر تیسرے سال لوند کا مہینہ بڑھا کر قمری سال کو شمسی بنا لیتے تھے۔ اس لیے رمضان کا مہینہ ہمیشہ جاڑوں میں ہوا کرتا تھا۔ اور غارِ حرا پر جب آنحضرت تحنث یا تحنف فرمایا کرتے تھے، تو اس وقت بھی ۱۷؍ رمضان کو قرآن کا نزول جاڑوں ہی کے موسم میں ہوا تھا۔ اب آپ پر ’’کتب علی الذین من قبلکم‘‘ کی حقیقت واضح ہو گئی ہو گی کہ جس طرح نصاریٰ رمضان کے روزے (۱۵؍نومبر سے ۲۵؍دسمبر کے اندر کے مہینے میں) رکھتے تھے اسی طرح مسلمانوں کو بھی روزے رکھنے چاہئیں تاکہ یہود کے نزدیک جو نصرانی کافر تھے ان کو مسلمان دوست بنا لیں اور دوسرے ملکوں کے نصرانی بھی شاہ حبشہ کی طرح مسلمانوں سے برادرانہ سلوک کریں۔‘‘ ص ۷۵۔۷۶
(نوٹ: اس میں ملاحظہ فرمائیں کیا کیا چیزیں صاف ہوئی ہیں! عقیدہ نزول مسیح، سن ہجری، اور مقصدِ صیام وغیرہ۔ یہ اور اسی طرح کے دوسرے مباحث استعماری ماضی سے مسلسل چلے آتے ہیں۔ استعمار کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ پوری شکست خوردہ تہذیب اور اس کا متجددانہ علم کہہ رہا ہے کہ ’’پیروی مغربی‘‘ کرو اور دین کی عین وہی تعبیر لاؤ جو وہاں سے سند یافتہ ہو، اور نصاریٰ سے دوستی مذہبی حکم بن جائے۔)
[۲]۔ ترتیب نزول قرآن کے بغیر قرآن و سیرت نبوی عسیر الفہم بن گئے:
’’ہر کس کہ نداند و بداند کہ بداند
’’در جہل مرکب ابد الدہر بماند
’’قرآن حکیم سنہ ۴۱ نبوی سے سنہ ۶۳ نبوی تک رسول عربی صلعم کے قلب پر معناً نازل ہوتا رہا، اور رسول کریم اس کے احکام و دلائل (آیات) کو مختلف قوموں تک پہنچاتے رہے۔ ……… موجودہ مصحف میں حضرت زیدؓ بن ثابت نے صحابہ سے مشورے کے بعد جو ترتیبِ سور قائم کی ہے اس میں قرآن کو تاریخی ترتیب سے درج نہیں کیا گیا۔ حضرت علیؓ نے قرآن کو تاریخی ترتیب سے مدون کیا تھا، اور اکثر مہاجرین جو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے وہ قرآن کی تاریخی ترتیب سے واقف تھے۔ انہوں نے مدینہ والوں کو بتایا تھا کہ مکہ میں قرآنی تعلیم یہ تھی۔ ……… ہمارے لیے یا ان لوگوں کے لیے جو اسلام کے تاریخی ارتقا کو سمجھنا چاہتے ہیں، یہ ضروری ہے کہ ترتیبِ نزولِ قرآن کے ساتھ ساتھ آنحضرتؐ کی عملی زندگی سامنے آئے۔ اس لیے اسلام کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے مصحفِ عثمانی کی ترتیب قرآن و سیرت کو عسیر الفہم بنا دیتی ہے۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں میں سیکڑوں فرقے پیدا ہو گئے ہیں، اور اصل تعلیمِ اسلام مفقود ہو گئی ہے۔‘‘ ص ۱۸۔۱۹
(نوٹ: استعمار سے قرب کی وجہ سے ابھی تجدد میں جرأت اظہار باقی تھی جو ان سطور سے عیاں ہے۔ اپنے صاحب سے ذرا دوری کی وجہ سے اہل تجدد اب محتاط ہو گئے ہیں اور فسادِ خلق کے ڈر سے اتنا کھل کر نہیں کھیلتے۔ اس میں کیا شک ہے کہ قطعی الدلالہ کی بحث اہم ہے لیکن یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ تعبیر میں یہ ایکTactical Move ہے۔ قرآن مجید کی ترتیبِ نزولی یعنی تاریخی ترتیب اور توقیفی ترتیب میں فرق کا مسئلہ تجدد کے ایجنڈے میں بڑی رکاوٹ ہے، اس لیے نظمِ قرآن کی Strategic Move سامنے آئی ہے تاکہ سارے قرآن ہی پر تعبیراتی ہاتھ صاف کیا جا سکے۔ نظمِ قرآن کا فلسفہ جس رفتار سے ترقی کر رہا ہے، اس سے بہت جلد زیادہ تر یا سارا ہی قرآن جدید عہد اور مسلمانوں سے غیرمتعلق ہو جائے گا اور مسلمان نظمِ قرآن کی ہیئتی ابعاد اور زاویوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوا کریں گے۔ مصنف کے فہم کو ترتیب توقیفی سے جو مسئلہ ہو رہا ہے، بعد میں نظمِ قرآن کا مفروضہ عین اسی مسئلے کے حل کے سامنے لایا گیا ہے۔ سائنس کے اصول پر اب یہ جلد ’’قانون‘‘ بننے والا ہے۔)
[۳]۔ جمہوریت (ری پبلک) یعنی کتابی آمریت:
’’جمہوریت اس طرزِ حکومت کو کہتے ہیں جس میں کسی تصور کے ماتحت حکومت چلائی جائے، یعنی اس میں کسی تصور یا نصب العین کی آمریت ہو، [جبکہ] اسلامی جمہوریت میں قرآن و عملِ نبوی کی پابندی لازمی ہے۔ چونکہ قرآن حکیم دیگر کتبِ الہیہ کی تصدیق کرتا ہے، اس لیے اسلامی جمہوریت کو کتابی آمریت کہنا زیادہ موزوں ہے یا یوں کہا جائے کہ قرآن ایک کتابی پارٹی ڈکٹیٹرشپ کے ماتحت جمہوریت قائم کرنا بتاتا ہے۔
(نوٹ: تجدد نہ صرف مغرب کے مذاہب کا تعبیری تتبع لازم سمجھتا ہے بلکہ تمام جدید اداروں کو بھی اسلامی نام دے کر رائج کرنا اسلام کی اصل غایت قرار دیتا ہے۔ لیکن وہ مغربی علوم جو ان اداروں کی تشکیل میں کھپے، ان کو زیر بحث لانا جدید اسلام میں ایک ممنوع امر ہے۔)
[۴]۔عوامی شورائیت (ڈیموکریسی):
وہ پنچائتی حکومت جس میں سلطنت کا تمام کاروبار عوام کی اکثریتِ رائے سے طے پاتا ہے، اسے عوامی آمریت یا مجارٹی کی آمریت کہنا چاہیے۔ اس طرزِ حکومت میں کثرت رائے سے جو بات طے ہو وہی حق سمجھی جاتی ہے۔ اور اگر حزبِ مخالف کا غلبہ ہو جائے تو وہ ناحق کو حق منوا دیتا ہے، یعنی اصول کی جگہ کثرت آرائے انسانی کا فیصلہ ہی نافذ ہوتا ہے۔ قرآن کتابی شورائیت کی تعلیم دیتا ہے (یعنی ڈیماکریٹک ری پبلک)۔‘‘ ص ۱۰
(نوٹ: اہل تجدد کے ہاں شورائیت اور جمہوریت کے باہم عین ہونے میں کسے شک ہے؟ پیراگراف نمبر ۳ اور ۴ کا موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ مصنف خود بھی فیصلہ نہیں کر پائے کہ مغرب کی کون سی چیز کا کیا اسلامی نام رکھا جائے۔ اس میں زیادہ ترقی بعد میں ہوئی۔)
[۵]۔ حروف مقطعات مبہم نہیں:
’’یعنی حروفِ ابجد کے متعلق بھی مفسرین بالرائے کہتے ہیں کہ ان کا مطلب ہم نہیں سمجھتے، اگرچہ وہ ان کو ایک آیت سمجھتے ہیں۔ یعنی یہ بھی ان احکام الہیہ میں سے ہیں جن پر سمجھ لینے کے بعد عمل ضروری ہے۔ ترتیبِ نزول کے لحاظ سے پڑھیے تو سورۃ العلق ہی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ حروف مقطعات (ابجد) جن سے کلام بنتا ہے قلم کے ذریعے سے اللہ دیتا ہے، یعنی یہی حروف و کلمات (نہ کہ سحر و کہانت) ایسے ہیں جو ذریعۂ علم الہی ہیں۔ ……… بہرحال حروفِ مقطعات مبہم المعنی نہیں ہیں جیسا کہ ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حیان سے روایت کی ہے ……۔‘‘ ص ۳۳
(نوٹ: یہاں پر پھر ترتیب نزول کو باقی نہ رکھنا فہم متن میں حائل ہے۔ یعنی آج کے مسلمانوں کے لیے آیات کے درست معنی تک رسائی اس لیے ممکن نہیں رہی کہ نعوذ باللہ قرآن مجید کی ترتیب درست نہیں، اور اگر یہ ترتیب درست کر دی جائے آیات اپنے معنی ازخود منکشف کر دیں گی۔ ملاحظہ فرمائیں کہ روایتی مفسرین کو کس مہارت کے ساتھ ’’مفسرین بالرائے‘‘ قرار دیا جا رہا ہے!)
[۶]۔ قرآن کی کوئی آیت مشتبہ المراد نہیں:
’’قرآن کی کوئی آیت مشتبہ المراد یا غیر واضح نہیں ہے (لو کان من عند غیر اللہ لوجد فیہ اختلافاً کثیراً)۔ خود قرآن کہتا ہے (کتاب احکمت آیاتہٖ) یعنی یہ ایسا قانون ہے جس کی مختلف دفعات محکم اور مضبوط ہیں۔ پورے قرآن میں شبہ کی گنجائش نہیں۔ ……… حقیقت یہ ہے کہ ترتیب نزول سے قرآن نہ پڑھنے کی وجہ سے یہ اندھیر ہوا کہ قرآن کی آیتوں کو مشتبہ المراد سمجھ لیا گیا۔ ‘‘ ص ۳۴
(نوٹ: ابھی مصنف قطعی الدلالہ کی بحث سے شاید ناواقف ہے۔ ملاحظہ فرمائیں کہ ترتیب نزول اور آیات کا مفہوم کس طرح جوڑا جا رہا ہے۔ آگے چل کر آیات کا مفہوم نظم قرآن کے ماتحت منتقل ہو جائے گا۔)
[۷]۔ قرآن کی کوئی آیت منسوخ نہیں۔
’’ناسخ منسوخ: اسی طرح قرآن میں نسخ و تبدیل کا جو ذکر ہے وہ قرآنی آیات کا نسخ نہیں ہے بلکہ یہود کی ان خود ساختہ آیتوں (احکام) کی تبدیلی کا ہے۔ …………‘‘ ص ۳۸
(نوٹ: ناسخ و منسوخ کا مسئلہ اہل سنت و الجماعت کے چاروں مذاہب میں متفق علیہ ہے، اور اہل تجدد کے گلے کی بڑی پھانس ہے۔ اس پر بھی کئی تھیوریاں بنائی گئی ہیں، اور ایک یہ بھی ہے۔)
[۸]۔ رسول عربی کو کوئی معجزہ نہیں دیا گیا۔
’’روایات میں معجزات نبوی: باوجودیکہ قرآن صاف صاف کہتا ہے کہ رسول اللہؐ کو کوئی معجزہ نہیں دیا جائے گا، لیکن راویوں نے بہت سے معجزے تصنیف کر لیے اور ہر مولود کی کتاب کے آخر میں یہ معجزے ملتے ہیں۔ یہ روایتیں نومسلموں نے [گھڑی] ہیں۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ بعض علما نے قران سے معجزات ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی ہے۔ مثلاً (۱) شق القمر، (۲) فصاحت قرآن اور (۳) رویائے اسراء۔ ان کی نظر میں یہ رسول اللہ کے معجزے ہیں۔ حالانکہ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا، آیت (معجزہ) اللہ کا ہوتا ہے، یعنی وہ ایسا نشان (آیت) ہوتا ہے جس کے کرنے سے لوگ عاجز ہوتے ہیں اور مان لیتے ہیں کہ ایسی معجز چیزیں کرنے والا سوائے اللہ کے غیر اللہ نہیں ہو سکتا۔ (ص ۳۹،۴۲،۴۳)
(حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے معجزات کا صدور اہل سنت و الجماعت کے ہاں متفق علیہ ہے۔ اور اہل تجدد ان کو اسبابیہ قرار دیتے ہیں جو دین کو جدید اور ’’سائنسی‘‘ بنانے کے لیے ضروری ہے۔ )
[۹]۔ اسراء نہ کہ معراج:
’’قرآنی تعلیمات کو نہ سمجھنے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے واقعہ اسراء کو جو ایک رویا (خواب) تھا معراج یعنی آسمان تک بلند ہونا قرار دے دیا۔ ہم اس پر زیادہ بحث نہیں کریں گے اس لیے کہ قرآن نے خود اس کی تردید کر دی ہے کہ یہ معراج نہیں رویا تھا۔ یہ رویا جن احوال میں آپ نے دیکھا تھا وہ سیرت نبوی کے مطالعے سے ظاہر ہو جاتے ہیں اور اس کا مقصد بنو اسرائیل سے دوستی کرنا تھا‘‘۔ ص ۵۱
(نوٹ: تجدد کا استعماری ایجنڈا، بالصراحت یا بین السطور، کبھی دور نہیں ہوتا۔ گزشتہ ایک اقتباس میں نصاریٰ کی دوستی قرآن سے ’’ثابت‘‘ ہوئی اور اب اہل یہود سے دوستی کو لازم ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ہم نصاریٰ یا یہود سے دوستی کی بابت کچھ عرض نہیں کر رہے، صرف مصنف کا موقف سامنے رکھ رہے ہیں۔)
[۰۱]۔ توراۃ و انجیل وغیرہ محرف نہیں، یہ کلام من عنداللہ ہیں۔
’’غرضیکہ قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ توراۃ و انجیل وغیرہ نور و ہدایت ہیں، محرف نہیں ہیں۔ …… ان کتب الہیہ میں نہ تو تحریف لفظی ہے نہ معنوی۔‘‘ ص ۶۶
(نوٹ: اب تو کوئی مذہبی عیسائی یا یہودی بھی یہ بات کہنے کا حوصلہ نہیں پاتا، لیکن شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کی کوئی کیا بات کرے!)
[۱۱]۔ قرآنی الفاظ رسول کے ہیں:
’’امام ولی اللہؒ محدث دہلوی نے اس خیال کو کہ معنی اللہ کی طرف سے رسولؐ کے دل میں پیدا ہوتے ہیں، اور الفاظ خود رسولؐ کے ہوتے ہیں، اس طرح بیان کیا ہے: ’’قرآن عظیم خدا کی نزدیکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اس کے الفاظ عربی لغت کے ہیں، جنہیں محمد صلعم جانتے تھے اور اسی زبان میں سوچتے تھے۔ ان کی تعلیم کے لیے غیب سے معانی (ان کے قلب میں) پیدا ہوتے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ کہ خدا کی قربت حاصل کرنے کے لیے اس کے ذریعے سے لوگوں کی ہدایت کر سکیں۔ اس طرح یہ (یعنی رسول کے الفاظ اور وحی کردہ معانی) مل کر کلام الہی بن گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ انسانوں کی بھلائی کا ارادہ کرتے تھے۔ یہ خواہش تھی جو لفظوں کو جمع کر کے ایک نظم و ترتیب دیتی۔ پھر وہ اسے موجودہ نظم قرآنی کے ساتھ منظم کرتے اور خدائی جبروت کے مطابق اسے تشکیل دیتے۔ اسی لیے یہ خدا کی قربت حاصل کرنے کا ذریعہ بن گیا اور کلام اللہ کہلایا۔ التفہیمات الہیہ، ص ۵۸۱‘‘۔ ‘‘ ص ۳۰۔۳۱
(نوٹ: یا للعجب! ایسی چیزیں پڑھ کر اندیشہ ہوتا ہے کہ ہمیں کہیں ذرا دور تک فرقہ وارانہ فکری نسب ناموں کو ازسر نو دیکھنے کی ضرورت نہ پڑ جائے۔ )
جدیدیت کو اپنے تمام فکری اور عملی منصوبوں میں غیرمعمولی تاریخی مؤثرات کی کمک حاصل ہے، اور مذہبی تجدد بھی اس کے بڑے مظاہر میں سے ہے۔ تجدد میں عقل کی نظربندی جدید منصوبہ بندی جیسی ہوتی ہے کہ آپریشن کامیاب ہو جائے اور مریض مر جائے۔ اگر براہ راست استعماری دور میں متجددانہ ڈھاک کے پات تین ہوا کرتے تھے، تو اب بھی اتنے ہی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ، منصوبۂ تجدد کے مؤثرات نہ صرف طاقتور ہو گئے ہیں، بلکہ ان کی تعداد اور وسعت میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ چیزوں کو جیسی وہ ہیں ویسی ہی دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭…٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں