فوج کو سیاست میں گھسیٹنے سے گریز کیاجائے!
شیئر کریں
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے گزشتہ روز ایک پریس بریفنگ کے دوران واضح الفاظ میں بتادیا کہ جے آئی ٹی کے ساتھ پاک فوج کا براہ راست کوئی تعلق نہیں، جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل دی گئی تھی اور اس میں فوج کے دو ارکان شامل تھے جنہوں نے عدالت کے حکم پر اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کردی ہے ،جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے حکم پر پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کا ایک ایک فرد شامل تھا جنہوں نے ایمانداری کے ساتھ اپنا کام کیا ہے۔انھوں نے یہ واضح کیا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ارکان ایماندار اور فرض شناس افسران ہیںاور جے آئی ٹی کی مرتب کردہ تحقیقاتی رپورٹ پرفیصلہ عدالت کو سنانا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی واضح کردیا کہ ہم وہ کام کررہے ہیں جو پاکستان کی سیکورٹی اور اور استحکام کے لیے ضروری ہے۔افواج پاکستان ملک کے دفاع اور سلامتی کے لیے کام کررہی ہے۔ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی، اس کابراہ راست فوج سے کوئی تعلق نہیں ،جہاں تک کسی سازش کے حوالے سے سوال کاتعلق ہے تو اس کاتو کوئی جواب دینا بھی فضول ہے۔
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس بریفنگ میں دراصل ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے سازشوں کی رٹ لگانے والے سیاستدانوں اور حکمرانوںکو یہ واضح پیغام دے دیاہے کہ پاک فوج کے پیش نظر صرف وہی کام اہم ہے اور وہ وہی کام کررہی ہے جو پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے ضروری ہے اورپاک فوج اپنا یہ فریضہ انجام دیتی رہے گی ، اس سے قبل پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی یہ واضح کرچکے ہیں کہ پاک فوج کے پیش نظر صرف اور صرف پاکستان کی سلامتی اور استحکام کا دفاع کرنا ہے اور پاک فوج اپنا یہ فریضہ احسن طورپر انجام دے رہی ہے ۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری افواج ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہونے کے ناطے ملک اور قوم کا قابل فخر سرمایہ ہیں جن کی پیشہ ورانہ مہارت اور مشاقی کی پوری دنیا قائل ہے۔ قوم کی جانب سے ’’پاک فوج کو سلام‘‘ کا نعرہ اس کی بے مثال پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور کارکردگی کی بنیاد پر ہی لگایا جاتا ہے، گزشتہ ڈھائی سال سے ہماری جری و بہادر افواج آپریشن ضرب ِعضب کے ماتحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں اور سرپرستوں سے برسرپیکار ہیں اور اب آپریشن ردالفساد کے تحت ملک بھر میں عساکر پاکستان دہشت گردوں کا پیچھا کررہی ہیں جس میں حاصل ہونے والی اب تک کی نمایاں کامیابیوں پر قوم بھی مطمئن ہے۔
آئین پاکستان میں متعین کیے گئے افواج پاکستان کے دائرہ کار اور دائرہ اختیار کے تحت ملک میں کسی اندرونی خلفشار پر قابو پانے کے لیے بھی متعلقہ سول اتھارٹی کے مطالبے یادرخواست پر سول انتظامیہ کی معاونت کی ذمہ داری پوری کرنا بھی اس کا فرض ہے اور افواج پاکستان یہ ذمہ داری بھی خوش اسلوبی سے ادا کرتی رہی ہیں۔ اس شاندار پس منظر کے باعث ہی عساکرِ پاکستان کو قوم کے ماتھے کا جھومر کہا جاتا ہے اور آئین کے تابع عساکرِ پاکستان کی ان ذمہ داریوں پر کسی اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اس وقت حکمران خاندان کے خلاف پاناما کیس کی بنیاد پر ملک میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال جتنی گمبھیر ہوچکی ہے،حکمراں مسلم لیگ( ن )کے قائد نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے خلاف سنگین قسم کے الزامات سامنے آئے ہیں ،اگرچہ نواز شریف اور ان کے اہل خانہ ان الزامات کوتسلیم کرنے سے انکاری ہیں لیکن اس حوالے سے جے آئی ٹی میں شامل کیے گئے ثبوتوں کی روشنی میں بظاہر ان کے بچ نکلنے کا کوئی راستا نظر نہیں آتا۔اس صورت ِحال میںوزیراعظم نواز شریف کواپنے موقع پرست مشیروں کے حصار سے نکل کر نوشتۂ دیوار پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور تصوراتی سازشوں کا واویلا مچانے اورملکی اداروں کو بدنام کرکے انھیں کمزور کرنے کے بجائے حقائق کا سامنا کرنا چاہئے ۔
میجر جنرل آصف غفور کا یہ کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ عسکری قیادت اور عساکر پاکستان کو دہشت گردی کے پیدا شدہ حالات سے بھی عہدہ برآ ںہونا ہے کیونکہ دہشت گردی کا ناسور ختم ہونے سے ہی ملک کو اقتصادی استحکام حاصل ہو سکتا ہے اور اسکی دگرگوں معیشت سنبھل سکتی ہے۔ اسی طرح عساکر پاکستان نے ملک کی سلامتی کے درپے اس کے ازلی دشمن بھارت کی سازشوں سے بھی ملک اور عوام کو محفوظ رکھنے کا فریضہ ادا کرنا ہے جس کی آج ملک کو بالخصوص سیاسی عدم استحکام کی پیدا شدہ موجودہ فضا میں زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ہمارا مکار دشمن ہماری ان اندرونی کمزوریوں سے بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اگر ایسے حالات میں ملک کی عسکری قیادتوں کی جانب سے ان کی سول معاملات میں فعالیت کو بطور خاص اجاگر کیا جائے گا اور اس فعالیت میں انہیں عوام کی حمایت حاصل ہونے کا تاثر دیا جائیگا تو اس سے سول اتھارٹیز میں لامحالہ ایسی غلط فہمیاں جنم لیں گی جو ان کے اداروں کے ساتھ ٹکرائو پر منتج ہو سکتی ہیں۔ اس سے ملک میں سیاسی خلفشار بڑھے گا ، اور انھیں موقع کی تاک میں بیٹھے ہمارے دشمن بھارت کو بھی ہماری سرحدوں پر دخل درمعقولات کا موقع مل سکتا ہے اس لیے وزیراعظم نواز شریف کو چاہئے کہ وہ اپنے مشیروں اور وزرا کو سختی سے یہ ہدایت دیں کہ وہ جے آئی ٹی کے حوالے سے ان کادفاع کرتے ہوئے محتاط رہیں۔ یہی وقت کا تقاضا ہے کہ سیاسی عدم استحکام والے موجودہ حالات میں عسکری قیادتوںکو گھسیٹنے کی کوشش کرنے کے بجائے انھیں اپنی تمام تر توجہ سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داریوں پر ہی مرکوز رکھنے کا موقع دیناچاہیے۔
پاناما کیس کے پیدا کردہ سیاسی ہیجان اور خلفشار سے کیسے عہدہ برآںہونا ہے‘ یہ حکومت‘ حکمران جماعت اور حکمران خاندان کی ہی ذمہ داری ہے۔عساکرِ پاکستان کو کسی اندرونی خلفشار پر قابو پانے کے لیے سول اتھارٹیز کی ضرور معاونت کرنی ہے جو اُن کی آئینی ذمہ داری بھی ہے مگر عساکر پاکستان کی ذمہ داریوں میںسول اتھارٹیز کی کسی قسم کی مداخلت کا ملک کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتا۔