
اسرائیلی جارحیت ایک مخصوص سو چ کی عکاس
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
اسرائیل کی ایران کے خلاف بلاجوازاور ناجائز جارحیت کے نتیجے میں دونوں ممالک میں جنگ جاری ہے ۔دونوں طرف اہم تزویراتی اہداف کو نشانہ بنایاجا رہا ہے اور ایک دوسرے کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کے دعوے کیے جارہے ہیں ۔اِس جنگ کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ جنگ کا دائرہ وسیع ہونے کاخطرہ موجودہے۔ امریکہ ،برطانیہ ،فرانس اور جرمنی جیسے ممالک ملوث ہو نے کاعندیہ دینے لگے ہیں۔ ایسا ہوتا ہے تووسیع پیمانے پر جانی و مالی نقصانات اور معاشی تباہی جیسے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے کہ عالمی طاقتیں امن کے لیے طاقتور ممالک کو جارحیت سے باز رکھیں اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہر ملک کی آزادی وخودمختاری کی پاسداری کویقینی بنائیں مگر اسرائیل کے سرپرست ممالک عملی طورپر ایران کے خلاف کاروائی کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں ۔اب تو نیتن یاہو کی حکمتِ عملی یہ محسوس ہوتی ہے کہ کسی طرح اپنے سرپرستوں کو جنگ کا حصہ بنا لیں جسے کم ازکم الفاظ میں بھی جنگ کی تباہ کاری و ہولناکی بڑھانے کی سازش کہہ سکتے ہیں کیونکہ ایک مسلمان ملک کو جارحیت اور تباہی کا سامنا ہے۔ اس لیے عالمی طاقتیں اسرائیل کو مواقع دے رہی ہیں کہ ایران کی عسکری اور معاشی تباہی کو یقینی بناکر رجیم تبدیلی کا مقصد حاصل کرلے۔
اسرائیل نے پہلے حملے میں ہی آرمی چیف،پاسدارانِ انقلاب اورخلافی تحقیق کے سربراہوں سمیت ایران کے چوٹی کے سائنسدانوں کو شہید کر دیااِس کاروائی میں ایرانی غداروں نے حملہ آورفضایہ کابھرپورساتھ دیا عام قیاس یہ ہے کہ اسرائیلی خفیہ ادارے موساد سے بھارتی ایجنسی را ء نے تعاون کیااِس کی تائیدکے لیے یہ پہلوبہت اہم ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نے حملے کے بعد جس شخص کو اعتماد میں لیا وہ نریندرا مودی ہے حملے کے فوری بعد تو ایران میں سناٹے کی کیفیت نظر آئی ۔اسی لیے خدشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ فلسطین ،عراق اور شام کی طرح کا ایرانی حشر دورنہیں لیکن یہ خیال خام ثابت ہواجلد ہی ایران سنبھل گیا، نہ صرف تباہ شدہ فضائی دفاعی نظام بحال کر لیا بلکہ جارحیت کا بھرپور جواب بھی دینے لگا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عالمی برادری دونوں کو امن پسندی کی طرف لاتی اور جارح ملک کے خلاف وسیع عالمی کارروائی کاآغازکیا جاتا مگر اِس کی بجائے ایران کوہی حملوں کے جواب میں صبروتحمل کرنے کا درس دیا جانے لگا۔ جانبداری پر مبنی ایسارویہ انصاف کے منافی ہے جس کی وجہ سے خطہ بڑی جنگ کے دہانے پرآسکتاہے۔ ایسے حالات کی ذمہ دار صیہون نواز عالمی طاقتیں اور اسرائیلی قیادت ہیں ۔یہ ناانصافی اور جانبداری دنیا کو تیسری عالمگیرجنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ اب جبکہ تباہی کے جدید ترین ہتھیار ایجاد ہو چکے اِن حالات میں اگر عالمی جنگ ہوتی ہے تو تباہی لامحدود ہو گی لہذا بہتر ہے کہ جانبدار عالمی طاقتیں انصاف پر مبنی رویہ اپناکر امن کو یقینی بنانے میں کرداراداکر یں۔
ایران پراسرائیلی حملے کا اِس لیے بھی جواز نہیں تھا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے کے لیے مذاکرات کے پانچ مثبت ادوار اب نتیجہ خیز ہونے کے قریب تھے مگر رواں ماہ پندرہ جوان کو مسقط میں متوقع ایران اور امریکہ کے فائنل رائونڈ سے قبل ہی تیرہ جون کی صبح دوسوطیاروں سے اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا ۔یوں چھٹادورنہ ہو سکا ۔مذاکراتی عمل کو سبوتاثر کرنے کاذمہ داراسرائیل ہے مگرکیونکہ امریکہ کا چہیتا ہے اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ اُس کا محاسبہ کرنے کی بجائے ایران کودھمکارہے ہیں۔ مقامِ اطمنان یہ ہے کہ مسلم ممالک کو اغیار کی سازشوں کی سمجھ آنے لگی ہے۔ امریکہ کے بڑے اتحادی سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان کا ایرانی صدر سے رابطہ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرنا ایران کواپنی اخلاقی و سفارتی حمایت کا یقین غیر معمولی ہے۔ ترکیہ کے صدرطیب اردوان بھی ایرانی صدر سے رابطے میں ہیں۔ پاکستان نے بھی واضح اور دوٹوک اندازمیں ایرانی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑاہونے کا فیصلہ کیا ہے جس سے مسلم اُمہ کے اتحاد کی ہلکی سے رمق نظرآئی ہے اور دنیا کو یہ پیغام گیا ہے کہ ایران یک و تنہا نہیں علاوہ ازیں اگر صیہون نواز طاقتیں اسرائیل کے ساتھ ایران کے خلاف کاروائی میں حصہ دار بنتی ہیں توامریکی مخالفت کے جذبات کی بناپر چین و روس کا طویل عرصہ غیرجانبداررہنا ممکن نہیںرہے گا ۔اِس لیے بہتر ہے اسرائیل کی سرپرست قوتیں انصاف سے کام لیں اور دنیا کوجنگ میں دھکیلنے کی بجائے امن کوششوں میں شراکت دار بنیں۔
مذہبی بنیادوں پر دشمنی خطرناک عمل ہے لیکن اسرائیل کی ہمسایہ ممالک کے خلاف کارروائیاں اسی جذبے کی نشاندہی کرتی ہیں فلسطینیوں کی نسل کشی کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں ایساکوئی ملک رہنے نہیں دینا چاہتا جو اپنادفاع کرسکے وہ تمام عرب ممالک کواپنے رحم وکرم پر رکھنا چاہتا ہے ۔ نیتن یاہو کی سوچ انتہا پسندانہ ہے یہ جنونی شخص اسلام مخالف سازشوں کامرکزی کردار ہے ایران پر حملوںکے متعلق غیر جانبدارحلقے کہتے ہیں جس طرح کیمیائی ہتھیاروں کا الزام صدام حسین پر لگایا گیا ستمبر2002میں نیتن یاہونے امریکی کانگرس کے سامنے حلفیہ کہا کہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیارہیں اور احمدالجلبی کی شکل میں ایک مقامی ہم خیال سامنے لاکر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ۔حالانکہ بعدازاں ثابت ہوگیاکہ عراق کے پاس کیمیائی ہتھیارنہیں اُسی طرح ہی ایران سے رویہ اختیارکیاگیا ہے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ مذاکرات میں ایران نے جوہری بم نہ بنانے کی یقین دہانی کرانے کے ساتھ جوہری تنصیبات کی عالمی معائنہ کاری پر بھی رضا مند ی ظاہرکی تھی اسی لیے اسرائیل نے مقامی سہولت کاروں کی مددسے ایک بڑافضائی حملہ کردیا جس کامقصد جوہری ہتھیاربنانے سے روکنا نہیں ہے بلکہ اِس میں مسلم دشمنی کاجذبہ کارفرماہے ۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہوخاندانی پس منظر سے جنونی اور انتہاپسندہے اِس کادادامیلیکووسکی نیتن یا ہو بھی ایک مذہبی رہنما(ربی)تھاجو روس کی خوشحال زندگی چھوڑ کر1924میں یروشلم منتقل ہوگیااِس کا والد بینزیونیتن یاہو عبرانی زبان کا پروفیسر اور گریٹر اسرائیل کا غیر متزلل حامی رہا ہے ،بنجمن نیتن یاہو نے پروشلم میں جنم لیا اور بچن سے ہی مسلم دشمنی کا سبق پڑھا ۔یہ جنونی اپنے دادا اور والد کی طرح فلسطینیوں کوبے دخل کرنا اور علاقے کو اسرائیل میں شامل کرناچاہتاہے۔ امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ یہ جنونی 1967اور1973کی عرب اسرائیل جنگوں میں شامل کئی سازشوں اور خونی مُہمات کا حصہ رہاہے۔ یہ اسرائیل کا سب سے طویل عرصہ وزیرِ اعظم رہنے والا شخص ہے جس کی وجہ عالمی صیہونی تحریک کی پشت پناہی ہے۔ اِس لیے کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسرائیل و ایران میں جاری جنگ کا خاتمہ ہو بھی جاتا ہے جس کے کسی حدتک آثار موجودہیں تو یہ عارضی وقفہ ہو گا کیونکہ اسرائیلی جارحیت ایک مخصوص سوچ مسلم دشمنی کی عکاس ہے ،جب تک اسرائیل مسلم دشمنی ترک نہیں کرتاتب تک مسلم ممالک کو جارحیت کاسامنا ہوتا رہے گا۔