کراچی کے ڈاکٹرز چکن گونیا کے علاج سے لاعلم ہیں ،عالمی ادارہ صحت کا انکشاف
شیئر کریں
کراچی سمیت صوبے بھر میں چکن گونیا خطرناک مرض بن سکتا ہے اور یہ وبا پھیلی تو اس مرض کو کنٹرول کرنا مشکل بن جائے گا،عالمی ادارہ صحت کا انتباہ
ڈبلیو ایچ او وفد کی جانب سے کچروں کے خاتمے، ڈاکٹروں کوچکن گونیا کے علاج کے لیے خصوصی تربیت فراہم کرنے اور آگہی مہم چلانے کی تجاویز
الیاس احمد
پچھلے چند برسوں سے سندھ کے عوام نے ایک نئی بیماری کا نام سنا ہے جس کا نام چکن گونیا ہے جس میں اب تک ہزاروں افراد مبتلا ہوچکے ہیں لیکن اس مرض کے خاتمے کے لیے تاحال ڈ اکٹروں نے علاج دریافت نہیں کیا اور حکومتی سطح پر اسپتالوں میں چکن گونیا کے مریضوں کے لیے الگ وارڈ نہیں بنایا اور مریضوں کو اللہ کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر عالمی ادارہ صحت کا وفد ہنگامی دورے پر جب کراچی پہنچا اور تفصیلی دورے پر چونکا دینے والے انکشافات کیے گئے ہیںجس سے متعلق وفد نے ایک رپورٹ بھی تیارکی ہے جو حکومت سندھ کے حوالے کردی گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے وفد نے دو روز تک کراچی کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور صحت کی سہولیات، صفائی ستھرائی کے انتظامات، مریضوں کے علاج کا جائزہ لیا اور پھر مفصل رپورٹ حکومت سندھ کے حوالے کر دی ہے۔ اس رپورٹ میں جو باتیں کی گئی ہیں وہ ڈاکٹروں اور حکومت سندھ کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے اپنی رپورٹ میں چونکا دینے والا انکشاف یہ کیا ہے کہ کراچی کے کسی ڈاکٹر کے پاس چکن گونیا کا علاج نہیں ہے ڈاکٹروں کو پتہ بھی نہیں ہے کہ چکن گونیا کس بلا کا نام ہے؟ اس بیماری کا اصل علاج کیا ہے؟ ڈاکٹروں سے جب عالمی ادارہ صحت کے مشن نے پوچھا کہ وہ کس طرح پتہ لگاتے ہیں کہ مریض کوچکن گونیا ہے؟ تو ڈاکٹروں نے مناسب جواب نہیں دیا۔ بس اتنا بتایا کہ وہ نشانیاں دیکھ کر اندازے سے علاج کرتے ہیں اور وہ چونکہ اس مرض کو پہلے سے نہیں جانتے اس لیے اندازہ لگا کر ادویات دیتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے حکومت سندھ سے کہا ہے کہ کراچی میں ایک تو ہر طرف گندگی پھیلی ہوئی ہے جو چکن گونیا کا سبب بن رہی ہے اس لیے اس مرض سے بچنے کے لیے سب سے پہلے کراچی میں کچرے کے ڈھیر ختم کیے جائیں د وسرا یہ کہ ڈاکٹروں کو اس بیماری کے علاج کے لیے خصوصی تربیت فراہم کی جائے ،اس مقصد کے لیے عالمی ادارہ صحت بھرپور سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ تیسرا یہ کہ سندھ بھر کی لیبارٹریز میں تربیت یافتہ عملہ رکھا جائے تاکہ وہ مریضوں کی صحیح تشخیص کرسکیں۔ چوتھا یہ کہ صوبہ بھر کی تمام اسپتالوں میں خصوصی وارڈز بنا کر چکن گونیا کی ادویات کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔ پانچواں یہ کہ صوبے بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں مچھر مار اسپرے کرایا جائے اور چھٹا یہ کہ حکومت سندھ میڈیا مہم چلائے اور عوام میں آگہی پیدا کرے تاکہ عوام بھی حفاظتی اقدامات کے بارے میں معلومات حاصل کرسکیں۔عالمی ادارہ صحت نے حکومت سندھ کو خبردار کیا ہے کہ اگر فوری طور پر مذکورہ بالا اقدامات نہ کیے گئے تو پھر کراچی سمیت صوبہ بھر میں چکن گونیا خطرناک مرض بن سکتا ہے اور یہ وبا پھیلی تو اس مرض کو کنٹرول کرنا مشکل بن جائے گا۔ جس میں کئی انسانی جانیں ضائع ہوسکتی ہیں اس رپورٹ میں حکومت سندھ کو بتایا گیا ہے کہ چکن گونیا کی ادویات بھی عالمی ادارہ صحت سے حاصل کی جائیں یا پھر عالمی مارکیٹ سے یہ ادویا ت لی جائیں کیونکہ اس وقت سندھ بھر میں چکن گونیا سے بچائو کی ادویات موجود بھی نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹرز مریضوں کو سیب کا جوس اور لیموں ملا کر پینے اور پپیتے کے پتے پیس کر ان کا رس پینے کا مشورہ دے رہے ہیں ان سے مریضوں کو وقتی طور پر فائدہ تو مل جاتا ہے لیکن مرض مستقل طور پر ختم نہیں ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مرض کا مستقل علاج شروع کیا جائے ماضی میں کئی خطرناک امراض پیدا ہوئے مگر بروقت ان کا صحیح علاج کیا گیا تو وہ مرض ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے۔ اس طرح اس خطرناک بیماری کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے بھی صحیح علاج شروع کیا جائے صرف اندازوں سے علاج کرنا مرض کو ختم نہیں کرسکتا بلکہ اس سے تو مرض بڑہ جاتا ہے اس رپورٹ کے بعد حکومت سندھ نے کوئی مثبت ردعمل نہیں دکھایا۔