وائس چانسلر اسری یونیورسٹی پرجھوٹی ایف آئی آر کا انکشاف
شیئر کریں
اسری یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر حمید اللہ قاضی و دیگر پر تھانہ بی سیکشن دادو میں جھوٹی ایف آئی آر داخل کرنے کا انکشاف، سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کردیا، داخل کیسز کی تفصیلات طلب، ڈاکٹر نذیر اشرف لغاری جھوٹے مقدمات کے ذریعے حراسان کر رہا ہے، ترجمان اسری، تفصیلات کے مطابق اسری یونیورسٹی کے وائس چانسلر و دیگر پر تھانہ بی سیکشن دادو میں جھوٹے مقدمے کی اندراج کا انکشاف ہوا ہے، پنوعاقل کے رہائشی غلام سرور مہر نے گزشتہ سال 28 اپریل کو داخل کرائی گئی ایف آئی آر میں بتایا کہ وہ مستری ہے اور اس نے حیدرآباد میں موجود پلاٹ کا 50 لاکھ میں عمر قاضی سے سودہ کیا جس کے 5 لاکھ ایڈوانس کے طور پر ملے اور 45 لاکھ بقایا تھے جس کی مد میں 20 20 لاکھ کے دو چیک دئے گئے لیکن پئسے نہیں دئے گئے اور 28 اپریل میں 2022ع کو دادو بائے پاس پر بلایا گیا جہاں وہ دوستوں سمیت پہنچے تو دیکھا کہ عمر ہاتھ میں پستول، احمد ولی اللہ، حمید اللہ اور نثار احمد قاضی نے حملہ کیا اور پستول نکال لیا واضع رہے کہ ڈاکٹر حمید اللہ قاضی اسری یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور احمد ولی قاضی پرو وائس چانسلر ہیں، مقدمے کے دوران قاضی برداری کے خلاف وارنٹ نکالے گئے اور شناختی کارڈ بلاک کردیئے، مذکورہ مقدمے کے خلاف ڈاکٹر حمید اللہ قاضی و دیگر نے ایڈووکیٹ سجاد احمد چانڈیو کے معرفت سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی، ایڈووکیٹ سجاد احمد چانڈیو کے مطابق عدالت نے مذکورہ مقدمے میں حکم امتناع جاری کرتے ہوئے متعلقہ مقامی عدالت کے تمام آرڈرز منسوخ کردیئے اور نادرا کو بلاک شناختی کارڈ کھولنے کا حکم دیتے ہوئے اے جی سندھ سے قاضی فیملی پر دائر تمام مقدمات کی تفصیلات طلب کر لی ہیں، ترجمان اسری اسلام فانڈیشن نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ اسری یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور پرو وائس چانسلر الطبری میڈیکل کالج کراچی کے خلاف دادو میں گزشتہ برس درج کی جانے والی ایف آئی آر پر عدالت عالیہ سندھ نے حکم امتناع جاری کر دیا ہے۔ ڈاکٹر عمر قاضی و دیگر کی طرف سے عدالت عالیہ میں موقف اپنایا گیا کہ نذیر لغاری کی بد نیتی پر مبنی ایما پر ایک سال قبل ضلع دادو میں قاضی فیملی کے خلاف درج کیا گیا مقدمہ فرضی وقوعہ اور جھوٹ پر مبنی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ قاضی خاندان کو ہراساں کیا جائے ۔ درخواست گزار ڈاکٹر عمر قاضی، ڈاکٹر حمید اللہ قاضی اور ڈاکٹر احمد ولی اللہ قاضی نہ صرف مدعی مقدمہ سے ناواقف ہیں بلکہ ڈاکٹر نذیر لغاری نے ملی بھگت سے مقدمہ کے اندراج کے باوجود مجاز عدالت کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے یکطرفہ عدالتی کاروائی کے زریعے درخواست گزاروں کو اشتہاری قرار دلوایا۔ درخواست گزار فیملی گزشتہ چار دہائیوں سے درس و تدریس کے مقدس شعبہ سے وابستہ ہیں اور قانون کی مکمل عمل داری پر یقین رکھتے ہیں۔ اس یک طرفہ عدالتی کاروائی سے بہترین اکیڈمک ریکارڈ رکھنے والی قاضی فیملی کی کردار کشی کی گئی ہے۔عدالت عالیہ گزشتہ برس کے درج شدہ اس بوگس مقدمہ پر آزاد انکوائری مقرر کرے ۔عدالت عالیہ نے درخواست گزار کی حکم امتناع کی درخواست قبول کرتے ہوئے سندھ پولیس کو اس مقدمہ میں کسی بھی گرفتاری یا مزید کاروائی عمل میں لانے سے روکتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں، واضح رہے کہ قاضی برداری کے خلاف جامشورو دادو و دیگر شہروں میں جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے تھے جنہیں عدالت ختم کر چکی ہیں۔