میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قیام پاکستان اور رمضان المبارک

قیام پاکستان اور رمضان المبارک

ویب ڈیسک
منگل, ۱۸ اپریل ۲۰۲۳

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان رمضان المبارک کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔ پاکستان 14اگست 1947ء کو معرضِ وجود میں آیا۔ جب ریڈیو پاکستان سے پاکستان بننے کا اعلان ہوا تو وہ رات 27رمضان کی تھی ، اس لیے رمضان المبارک میں ہمیں جہاں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہئے وہیں ہمیں قائداعظم اور کابرین پاکستان کو بھی خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہئے، جن کی وجہ سے آج ہم ایک آزاد وطن میں سکون کا سانس لے رہے ہیں۔
پاکستان کی تخلیق محض موزوں حالات کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی اس پہلی عظیم مملکت کے پیچھے ایک ٹھوس جواز اور اسلام کے حوالے سے اس کے مستقبل میں کردار کا ایک جامع اور ہمہ گیر منصوبہ کار فرما تھا۔ پاکستان پر اللہ پاک کی رحمت کا سایہ ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کہا کرتے تھے کہ پاکستان اللہ پاک کا انعام ہے۔ وہ قرآن حکیم کی ایک آیت کا حوالہ دے کر کہا کرتے تھے کہ جب انعام الٰہی کی قدر نہ کی جائے تو سزا بھی ملتی ہے۔ ہندوؤں اور انگریزوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا استحصال ہوتا تھا، اچھی نوکریاں ان کے لئے نہیں تھیں، کسی بھی جگہ اگر کوئی لائق مسلمان ہوتا تو اسے ہٹا کر ہندو کو لگا دیا جاتا تھا،جس کی وجہ سے مسلمانوں کی اقتصادی حالت خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح اور پاکستان کا خواب دیکھنے والے علامہ اقبال نے طے کیا کہ قوم کو ایک مرکز میں جمع کر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن قائم کیا جائے، چنانچہ قائداعظم کو علامہ اقبال نے لیڈر شپ سنبھالنے کے لئے قائل کر لیا اور قائداعظم نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا نعرہ لگا کر برصغیر کے تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے پاکستان حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کر دی۔ اب یہ قائداعظم کی لیڈر شپ کا کمال ہے کہ انہوں نے لیڈر شپ کا حق ادا کر دیا۔ قائداعظم نے کہا تھا ”پاکستان اسی روز قائم ہو گیا تھا، جس روز برصغیر ہند میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔ دراصل دو قومی نظریے کی بنیاد بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی الگ تہذیب و ثقافت ہے، جبکہ ہندوؤں کی الگ تہذیب و ثقافت ہے۔ فرق صرف اس مثال سے سمجھ میں آ جاتا ہے کہ ہندو گؤ ماتا (گائے) کی پوجا کرتے ہیں، جبکہ مسلمان اسے کھا جاتے ہیں۔
ہر بچے کے اندر ایک بڑا آدمی اور کامیاب انسان بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ آپ کے گھر اور تعلیمی اداروں کے علاوہ نظریاتی سمر سکول جیسے ادارے آپ کی ذہنی نشوونما کرتے ہیں اور ایک ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں کہ آپ پڑھ کر مستقبل میں ایک کامیاب پاکستانی بن سکیں۔ ہر شعبہ میں کامیابیاں آپ کی منتظر ہیں۔ علم اور تعلیم کے ساتھ بزرگوں کی عزت سے آپ بڑے سے بڑا مرتبہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے اساتذہ، بزرگوں، والدین کے ساتھ پورے معاشرے میں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے اور کامیابی کی کنجی جو قائداعظم نے ہمیں دی ہے اسے مضبوطی سے پکڑ لینا چاہئے۔ اس کنجی کا نام ہے اتحاد تنظیم اور یقینِ محکم۔
قائد اعظم نے مسلمانوں کو نبی کریم ۖ کا یہ حکم بھی یاد کروایا کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ قرآن حکیم کا ایک نسخہ اپنے پاس رکھے تاکہ وہ اس سے اپنے لیے رہنمائی حاصل کر سکے۔ قائد اعظم نے بڑے واضح اور دو ٹوک انداز میں یہ بھی فرمایا تھا کہ ”پاکستان سے صرف حریت اور آزادی مراد نہیں اس سے فی الحقیقت مسلم آئیڈلوجی مراد ہے جس کا تحفظ ضروری ہے”۔ اب اگر مسلم نظریے کے تحفظ سے مراد سیکولر ازم ہے اور انسانی زندگی کے ہر شعبہ یعنی روحانی زندگی سے لے کر معاشرت، سیاست، معیشت اور فوجداری اور دیوانی قوانین تک قائد اعظم قرآن حکیم سے رہنمائی لینے کی جو بات کرتے ہیں، اس کا مطلب بھی سیکولر ازم ہے تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم کا ایجنڈا سیکولر تھا۔ اور اگر قرآنی تعلیمات اور قرآنی احکامات کو نافذ کرنے کا مطلب سیکولر ازم نہیں ہے تو پھر قائد اعظم کی سوچ کو سیکولر کیسے کہا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس نظریہ پاکستان کی برکت سے ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا، اسی نظریے یعنی قرآن کریم کی اصولی ہدایات پر عمل کر کے اور اسوہ رسول ۖکی پیروی سے ہی ہم پاکستان کو ایک بہترین اسلامی و فلاحی ملک بنا سکتے ہیں۔ صرف پاکستان بننے کی وجہ سے آج ہم دْنیا میں سر بلند کر کے زندگی بسر کر رہے ہیں اس لئے کوئی بھی کام کرتے ہوئے کبھی پاکستان کی عزت کے خلاف کوئی فیصلہ نہ کرنا۔ کوشش کرنا کہ جہاں بھی موقع ملے وہاں پاکستان کا ذکر بہت اچھے لفظوں میں کرنا۔
دو قومی نظریہ درحقیقت اسلام کے عقائد و اعمال کا نام ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح بانی پاکستان اس نظریاتی اساس کے پاسدار تھے۔ وہ قرآن حکیم ہی کو پاکستان کا آئین و قانون تصور کرتے تھے۔ علامہ محمد اقبال صرف اسلامی نظام کے حوالے سے ہی مسلمانان ہند کی تحریک آزادی کے علمبردار تھے۔ بانیان پاکستان کی فکر سے دوری آزادی کی برکات سے محرومی کا باعث ہو سکتی ہے پاکستان کی سالگرہ ہے ہمارے لئے یوم احتساب کا درجہ رکھتی ہے کہ ہم اپنی آزادی کی حفاظت کے اہل بھی ہیں کہ نہیں؟ 27 رمضان کو یوم آزادی قرار دے دیں، پوری قوم اس رات لیلتہ القدر، ختم قرآن کی وجہ سے مساجد میں سربسجود ہوتی ہے، اس سے بہتر تشکر کا موقع کونسا ہو سکتا ہے۔ صرف صدر وزیراعظم کے پیغام مبارکبادی ذرائع ابلاغ پر قوم کو پہنچائے جائیں ۔ قرآن و رمضان سے پاکستان کی نسبت محض اتفاق نہیں بلکہ قدرت کاملہ کی عظیم حکمت عملی ہے جس کے ذریعے اہل پاکستان سے ملت اسلامیہ کی نشاة ثانیہ کا کام لینے کا موقع فراہم کرنا مقصود ہے۔ پاکستان دنیائے اسلام میں صرف ایک ملک ہے جو نظریاتی حوالے سے وجود میں آیا، اس کا نام ”پاکستان” خود اس پر دلیل ہے۔ 14 اگست کو تقریبات پر اٹھنے والے کروڑو روپے کے اخراجات سے نجات اور بغیر کسی خرچ کے لیلتہ القدر کی تقریب دعا و تشکر اسلامی اقدار کی برکات میں سے ہے ۔
٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں