نواز شریف رومانیہ کے حکمرانوں کے ساتھ سڑکوں پر ہونے والے انصاف کویاد رکھیں
شیئر کریں
سپریم کورٹ سے نااہل قرار دئے گئے سابق وزیراعظم نوازشریفنے گزشتہ روز احتساب عدالت میں پیشی کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی قسم کی لڑائی کے حق میں نہیں لیکن ملک کو آئین کے مطابق چلنا چاہئے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ میرے سوا جن سیاستدانوں پر مقدمات ہیں ان پرکرپشن اورکِک بیکس کے الزامات ہیں، میرا مقدمہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جس میں ایسا کوئی الزام نہیں ہے۔نوازشریف نییہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ ایسا نظام لے کرآئیں گے جوملک کی ضرورت ہے، موجودہ نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے، جامع نظام عدل لانے کے لیے کام کررہے ہیں، انصاف نہ ملنا یا دیرسے ملنا ملک کا بڑا مسئلہ ہے۔ اس سے قبل نواز شریف ووٹ کااحترام کرو کانعرہ لگاچکے ہیں جس کے جواب میں خود مسلم لیگی کارکنوں نے ووٹروں کا احترام کرو کامطالبہ کرکے بار بار عوام کے ووٹوں کے تقدس کا نعرہ لگانے والے نواز شریف اور ان کے جاں نثاروں کو اپنی اہمیت تسلیم کرنے کی دعوت دے چکے ہیں۔
ووٹ کے تقدس کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا اوراس میں بھی دورائے نہین ہیں کہ ووٹ کے تقدس کوبرقرار رکھنا اور اس کااحترام کرنا سیاستدانوں کاخواہ ان کا تعلق حکومت سے ہویا اپوزیشن سے اولین فریضہ ہونا چاہئے لیکن افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ ہمارے ملک میں ووٹ کا تقدس جتناہمارے حکمرانوں نے پامال کیا ہے اور کسی نے نہیں کیا ،سپریم کورٹ سے نااہل قرار دئے جانے کے بعد آج نواز شریف کو ووٹ کے تقدس کاخیال آرہاہے جبکہ یہی نواز شریف تھے جو اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کوکسر شان تصور کرتے تھے اور پورے ساڑھے 4سالہ دور حکومت میں ایک درجن مرتبہ بھی اسمبلی کو رونق بخشنے کو مناسب خیال نہیں کیا،لیکن سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد ووٹ کاتقدس ان کی سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ اشرافیہ کا ارشاد ہے کہ عدلیہ ووٹ کے تقدس کا احترام نہیں کر رہی ہے، کرپشن کے الزامات کا مطلب یہ ہے کہ ووٹ کے تقدس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ جمہوری کلچر میں ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے لیکن اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو عوام نے ووٹ دیے ہیں، اس کا مقصد کیا ہے ووٹ مختلف جماعتوں کے اکابرین کو اس لیے دیے جاتے ہیں کہ وہ عوام کے اہم اور بنیادی مسئلے حل کریں۔ یہی ووٹ کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔حیرت ہے کہ 70 سال سے کم ازکم نصف حصہ جمہوری دور پر مشتمل رہا ہے اس ستر سالہ دور میں کیا عوامی مسائل حل ہوئے ہیں۔ ہمارا حکمران طبقہ غیر ضروری اور غیر اہم مسائل کو حل کرکے یہ اعلان کرتا ہے کہ عوام کے مسائل حل کیے جا رہے ہیں، حالانکہ عوام کے حقیقی مسائل میں سے ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔
مثال کے طور پر مہنگائی کولے لیں حکومت حاصل کرنے سے قبل نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف لوگوں کومہنگائی سے نجات دلانے کے بلند بانگ دعوے کرتے رہے تھے لیکن ان کے ساڑھے 4سالہ دور میں جبکہ ان کی حکومت کاتسلسل اب بھی جاری ہے مہنگائی میں کمی ہونے کے بجائے اس میں دن بہ دن ہوشربا اضافہ ہوتا چلا گیا،نواز شریف کے برسراقتدار آنے سے قبل آٹا 14روپے کلو بآسانی دستیاب تھا اب وہی آٹا جس کامعیار پہلے سے بہت زیادہ خراب ہے 40-45 روپے فی کلو فروخت ہورہاہے ، ان کے حکومت سنبھالنے سے قبل 30روپے کلو فروخت ہونے والی چینی اب 50روپے سے زیادہ میں فروخت ہورہی ہے ، ان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل کوئی بھی دال 30-35روپے کلو سے زیادہ میں فروخت نہیں ہورہی تھی اورآج کوئی بھی دال 100روپے سے کم میں دستیاب نہیں ہے ۔کیا اسے مہنگائی میںکمی کہاجاسکتا ہے؟ دوسرا اہم مسئلہ بے روزگاری ہے، آج لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر روزگارکی تلاش میں خوار ہو رہے ہیں۔ روزگار میرٹ کے بجائے محض ذاتی حوالوں سے نا اہل نوجوانوں کو دیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں کارکردگی میں بدترین ناانصافی پیدا ہو رہی ہے۔اہل لوگ دھکے کھاتے پھررہے ہیں اور نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں ملک کا مستقبل آگیا ہے جس کا نتیجہ پورا انتظامی سیٹ اپ تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔ انتظامی سیٹ اپ کی خرابی سے ہر طرف افراتفری اور نا انصافی کا دور دورہ ہے۔ رشوت نچلی سطح سے اعلیٰ سطح تک طاعون کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ اس صورتحال کے باوجود نواز شریف اوران کے برادر خورد بڑی ڈھٹائی سے اعلان کررہے ہیں کہ اگر انھیں نہ ہٹایاجاتا تو وہ لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کردیتے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ساڑھے 4سال کے دوران تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کے بجائے دھکے دینے والے تین ماہ میں کس طرح لاکھوں نوجوانوں کو روزگار فراہم کردیتے،ترقی یافتہ دنیا ہی میں نہیں بلکہ بعض پسماندہ ملکوں میں بھی تعلیم اور علاج کو اولیت حاصل ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تو تعلیم اور علاج مفت فراہم کیے جاتے ہیں لیکن بعض پسماندہ ملکوں میں بھی تعلیم اور علاج عوام کو مفت فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیا ہمارے ملک میں عوام کی یہ بنیادی ضرورتیں مفت فراہم کی جارہی ہیں۔ پانی سب سے بڑی انسانی ضرورت ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔
خود عدالت عالیہ میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ہمارے ملک میں انسانی فضلہ ملا پانی عوام کو سپلائی کیا جارہاہے۔یہ ہیں وہ ضرورتیں جن کے لیے عوام اشرافیہ کو ووٹ دیتے ہیں اور ان ضرورتوں کی تکمیل سے ہی ووٹ کا تقدس برقرار رہتا ہے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ووٹ کے تقدس کی باتیں وہ لوگ کررہے ہیں جن پر اربوں روپوں کی کرپشن کے نہ صرف الزامات ہیں بلکہ ان الزامات میں مقدمات چل رہے ہیں۔ جن محترمین پر اربوں روپوں کی کرپشن کے الزامات ہیں اور الزامات کے ثبوت پیش کیے جارہے ہیں ان کے خلاف احتساب کو ووٹ کے تقدس کی پامالی کہا جارہا ہے۔ کیا ووٹ کی اور عوام کی اس سے بڑھ کر توہین ہوسکتی ہے؟
ہر ملک میں اپوزیشن حکومت کی سب سے بڑی ناقد ہوتی ہے لیکن یہاں حکمرانوں اور اپوزیشن کا عالم یہ ہے کہ ’’من تو شْدم تو من شْدی، من تن شْدم تو جاں شْدی‘‘ والی صورتحال ہے۔ ایک اپوزیشن جماعت دوسری ایسی حکمران جماعت کو اقتدار کی مدت پوری کرنے دیتی ہے جو کرپشن کے حوالے سے گلی گلی بد نام ہے اس سیاسی بد دیانتی کو مفاہمتی سیاست کا نام دیا جاتا ہے اور مفاہمتی سیاست کے اداکاروں پر فخرکیا جاتا ہے۔اس بد ترین کارکردگی کے باوجود احتسابی اداروں کے وقار کو جس طرح پامال کیاجارہا ہے عدلیہ ہی کی نہیں معزز جج صاحبان کی جس طرح تذلیل کی جارہی ہے پاکستان ہی کی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے محترم سیاست دانوں نے یہ دلچسپ طریقہ اختیار کرلیا ہے کہ صاف لفظوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم عدالت عظمیٰ کے فیصلے نہیں مانتے۔ اس موقف کی حمایت میں یہ چال چلی جارہی ہے کہ 20 کروڑ عوام عدالت عظمیٰ کے فیصلے ماننے کے لیے تیار نہیں۔مختلف ذرایع اور سرمائے کے ذریعے 25،30 ہزار لوگوں کو جمع کرکے ان سے سوال کیا جاتا ہے عدالت کے فیصلے منظور ہیں؟ اورپھر ان سادہ لوح اور مجبور عوام کے گروہوں کویہ کہنے پر مبجور کیاجاتا ہے کہ عدالت کے فیصلے نا منظور۔یہاں سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح بھرے جلسوں میں عدلیہ کو بے وقعت کرنے کی کوشش کرنے والی شریف فیملی صرف اپنے اقتدار کی خاطر ایسا کرکے اس ملک کے ساتھ کیسا سنگین مذاق کرنے کی کوشش کررہی ہے ،اپنے ذاتی وجماعتی مفادات کے لیے یہ جو خطرناک کھیل کھیلا جارہاہے کیا ہماری اشرافیہ اس کے انجام سے واقف ہے۔ اس ملک کو 70 سال سے لوٹ مار کا بازار بناکر رکھ دیا گیا ہے اپوزیشن کا ڈھونگ رچانے والے معززین آج جو منفی اور غیر جانبدارانہ کردار ادا کررہے ہیں کیا وہ جانتے ہیں کہ اگر عدالت کو بے توقیر اور بے دست و پا کردیاگیا توکیا پورا ملک ایک افرا تفری اور بد ترین انارکی کا شکار نہیں ہوجائے گا۔ہوسکتا ہے اشرافیہ کا یہ خیال ہو کہ اس طرح کا شدید دباؤ ڈال کر عدلیہ کو احتساب سے روکا جائے یا اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جائیں لیکن اس کا ایک انتہائی خطرناک پہلو یہ خدشہ ہے کہ 70 سال سے زندگی کی معمولی معمولی ضرورت، معمولی معمولی خوشیوں سے محروم عوام ظالموں کے خلاف باہر نہ نکل آئیں تو کیا انقلاب فرانس کی تاریخ نہیں دہرائی جاسکتی؟اشرافیہ کی بد قسمتی یہ ہے کہ میڈیا میں اشرافیہ ان کے خاندانوں کی لوٹ مارکی داستانیں ملک کے چپے چپے میں پھیل گئی ہیں اور عوام میں آئے دن اشتعال میں اضافہ ہورہاہے۔ اشرافیہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ اشرافیہ کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اس خطرناک صورتحال میں اپنے مستقبل اور اپنی بقا کا تو خیال کرے۔ جب آپ کہتے ہیں کہ 20 کروڑ عوام ہمارے ساتھ ہیں تو آپ کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ جو لاکھ ڈیڑھ لاکھ افرادمجبوریوں اور نا سمجھی میں آپ کے جلسوں میں آجاتے ہیں کیا یہی ہمارے ملک کی کل آبادی ہے؟ ہمارے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہیں جو گزشتہ 70 سال سے ایک عذاب ناک زندگی گزار رہے ہیں، ہمارے ملک میں دیہی آبادی کا 60 فی صد حصہ ہاریوں اورکسانوں پر مشتمل ہے، ہمارے ملک میں چھوٹے تاجر ہیں۔ ہمارے ملک میں ہزاروں لاکھوں اساتذہ ، سرکاری ملازمین ، وکلا ، ڈاکٹر، صحافی اورانجینئر ہیں۔ کیا یہ سب لوگ اپنی زندگیوں سے خوش ہیں، خدانخواستہ اگر حالات انارکی کی طرف چلے جاتے ہیں تو ان کروڑوں عوام کا رویہ کیا ہوگا؟ اشرافیہ آج عوام ہمارے ساتھ ہیں کہ مفروضات پر اتنی بڑی اور خطرناک لڑائی لڑرہی ہے کیا اس ملک کے20 کروڑ عوام اس اشرافیہ کے ساتھ ہوںگے جس نے 70 سال سے ان کی زندگی کو عذاب بنایا ہوا ہے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اور ان کے حواریوں کو اس پرسنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور ملک کو ایسی کھائی کی طرف دھکیلنے سے حتی الامکان گریز کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کانتیجہ تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا، نواز شریف کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ اگر عوام نے ان کے قول کے مطابق عدلیہ کے فیصلوں کو رد کرتے ہوئے فیصلے کرنے کااختیار اپنے ہاتھوں میں لے لیا تو پھر عام جلسوں کے دوران ان کی طرف جوتے کے بجائے گولی بھی آسکتی ہے اور اس ملک کے مہنگائی اوربیروزگاری سے پریشان عوام ان کو ان کی کار وں سے نکلنے سے پیشتر ہی سڑکوں پر گھسیٹ کر اور کھمبوں پر لٹکا کر ان سے کرپشن اورلوٹ مار کی ایک ایک پائی کاحساب لینے پر بھی کمر بستہ ہوسکتے ہیں اور اگر ایسا ہوگیا تو پھر بیرون ملک جمع شدہ ان کی دولت اور لوٹی ہوئی دولت سے خریدے ہوئے محلات ان کے کسی کام نہیں آسکیں گے۔نواز شریف اوران کے رفقا کو سوویت یونین کے زوال کے بعد چیکوسلواکیہ اور رومانیہ کے حکمرانوں کے ساتھ سڑکوں پر ہونے والے انصاف سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اورعدلیہ کااحترام ہر صور ت برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔