ججزسے زیادہ حکمرانوں سے پوچھ گچھ ہوگی
شیئر کریں
نا اہل قرار دیے گئے سابق وزیراعظم نوازشریف کا کہنا ہے کہ سازشیوں نے اقامہ کی بنیاد بنا کرمجھے نکالا اب انھیں میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل رہا لیکن ان کی سازشیں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔جاتی امرا لاہور میں کارکنون سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے نوازشریف نے کہا کہ ہم نے عوام سے کیے تمام وعدے پورے کیے، لیکن سازشیوں نے اقامہ کو بنیاد بنا کر مجھے نکال دیا، اب کوئی ثبوت نہیں مل رہا تو ریفرنس پر ریفرنس بنا رہے ہیں۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ سازشیوں کی سازشیں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، میں پریشان نہیں ہوں اور نہ ہی میرے چاہنے والے پریشان ہیں، ماضی گواہ ہے کہ ہم نے عدلیہ کو بحال کیا اور اب عدل بحال کرکے دم لیں گے، لودھراں کے ضمنی انتخابات نے بتادیا کہ کون عوام کا خیرخواہ ہے اور آئندہ انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) کو ہی کامیابی ملے گی۔سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے صدر نوازشریف کا کہنا ہے کہ پی سی او ججز مجھے اب پارٹی صدارت سے ہٹانا چاہتے ہیں ‘ میں ان کے فیصلوں کو نہیں مانتا۔ احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے پرویز مشرف کے زمانے میں حلف لیا انہیں پی سی او جج کہا جاتا ہے، اب ایک آمر سے حلف لینے والے ہمیں اخلاقیات کا درس دیں گے، جو اپنے حلف سے غداری کرتے ہیں ان کے درس کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ ہم عزت نفس پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ہمیں اپنے ضمیر کی آواز کو سننا چاہیے، کسی پاکستانی اور سیاسی لیڈر کو پی سی او ججز کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ نوازشریف کا کہنا تھا کہ جج صاحبان جس طرح کی زبان استعمال کررہے ہیں وہ انہیں زیب نہیں دیتی،جس طرح کے جملے اور الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں کیا اس کے لیے بھی کوئی قانون ہے، پھر ان ججز اور عمران خان کی زبان میں کیا فرق رہ گیا ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں نے کسی قسم کی کوئی کرپشن نہیں کی، یہ لوگ ٹیڑھی بنیادوں پر کثیر المنزلہ عمارت تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دل اور نیت صاف ہو تو اللہ تعالیٰ ساتھ دیتا ہے۔
نا اہل قرار دیے گئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ ’’ انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والوں کو اللہ کے سامنے جواب دہ ہوناہے‘‘۔ میاں نواز شریف نے بہت صحیح بات کی ہے گو کہ اس کی آڑ میں بھی اپنا دکھڑا رویا ہے کہ ’’انہیں کیوں نکالا‘‘۔ چنانچہ اگلے ہی جملے میں فرمایا ہے کہ ’’مخالفین کو صادق و امین اور ملک کی خدمت کرنے والوں کو نا اہل کر کے گھر بھیج دیا‘‘۔ صادق و امین قرار دیے گئے مخالفین سے ان کا اشارہ عمران خان کی طرف ہے۔نواز شریف کے بیانات کے اندازہ ہوتاہے کہ ان کے دل میں ایک نہیں کئی کانٹے کھٹک رہے ہیں اور روزانہ ہی ان کے لبوں سے یہ آہ بلند ہوتی ہے کہ انہیں کیوں نا اہل قرار دیا گیا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ منصفین کو اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ منصفوں، قاضیوں، ججوں پر بہت بڑی ذمے داری عاید ہوتی ہے کیوں کہ ان کے کسی غلط فیصلے سے متعدد لوگ بلکہ نسلیں تک متاثر ہوتی ہیں۔ اور جو جج صحیح فیصلے کرتے ہیں ان کے لیے اللہ نے بڑا اجر رکھا ہے۔ لیکن اللہ کے سامنے تو سب ہی کو جواب دہ ہونا ہے اور حکمرانوں پر ان بھی بڑی ذمے داری عاید ہوتی ہے ان سے ججوں کے تقرر کے حوالے سے بھی باز پرس کی جائے گی گویا اگر کوئی جج اپنے فرائض منصبی نواز شریف کے قول کے مطابق احسن طورپر ادا نہیں کررہاہے تو اس کی ذمہ داری بھی خود نواز شریف پر ہی عاید ہوتی ہے کہ انھوں نے ساڑھے 4سال تک بلاشرکت غیرحکمرانی کرنے کے باوجود ایسے ججوں کوتبدیل کرنے کے لیے کوئی موثر قانون سازی کیوں نہیں کی اگر وہ اپنے دور عروج میں اپنی یہ ذمہ داری پوری کرلیتے تو شاید انھیں آج یہ شکوہ نہ کرنا پڑتا، اور جہاں تک پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کو کسی جج کی قابلیت اوردیانت کاپیمانہ بنانے کاسوال ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا درست نہیں ہے کیونکہ ملک میں عوام کو نامساعد حالات میں بھی انصاف فراہم کرنے اورانصاف کے دروازے کھلے رکھنے کے لیے نامساعد حالات میں ایسے فیصلے کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ پی سی اوججز نے بھی بعض انتہائی اہم فیصلے صادر کیے ہیں جن کی دوست دشمن سب ہی تعریف کرتے ہیں ۔ ایسے بھی حکمران گزرے ہیں جن کے سامنے جج بھی بے بس رہے۔ لیکن تاریخ اسلام میں ایسے متعدد جج یا قاضی گزر چکے ہیں جو حکمرانوں کے رعب میں نہیں آئے ، ان کے خلاف فیصلے کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا اور حکمرانوں نے ایسے فیصلے تسلیم بھی کیے۔ اللہ کے سامنے جواب دہی کا خوف حکمرانوں کو دوسروں سے زیادہ ہونا چاہیے کیوں کہ وہ اپنے اقتدار کی خاطر اپنے اختیار کو بڑی بے دردی سے استعمال کرتے ہیں اور ملک و قوم کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان کا پہنچایا ہوانقصان ایک جج کے غلط فیصلے سے کہیں زیادہ سنگین ہوتا ہے۔ 1971میں پاکستان کے دو لخت ہونے اور لاکھوں افراد کی ہلاکت کا سبب کسی جج کا فیصلہ نہیں بلکہ حکمرانوں کی بدکرداری اور اقتدار سے محبت تھا۔ پاکستان میں ایسی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ امریکہ کی دھمکی پر پورا پاکستان امریکہ کے قدموں میں رکھ دینے کا کارنامہ بھی کسی جج کا نہیں بلکہ ایک حکمران کا تھا۔ میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ ملک کی خدمت کرنے والے کو نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیا لیکن میاں صاحب اپنی خدمات کی فہرست ضرور بتائیں جو انہوں نے عوام کے لیے انجام دیں۔ وہ بار بار ایسے منصوبوں کا ذکر کرتے ہیں جو نامکمل بھی رہے اور ان سے ایک عام آدمی کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوئے۔ ان کے تیسرے دور حکومت میں نہ تو بے روزگاروں کو روزگار ملا، نہ تعلیم و صحت کے مسائل حل ہوئے۔ خود میاں نواز شریف اور ان کی اہلیہ بیرون ملک جا کر اپنا علاج کراتے ہیں۔ میاں صاحب کے سمدھی اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی نامعلوم اسپتال میں علاج کرانے کے لیے بیرون ملک کے ایک اسپتال میں پڑے ہوئے ہیں۔ میاں نواز شریف ملک میں ایک بھی ایسا اسپتال نہیں بنوا سکے جہاں غریبوں کا نہ سہی، حکمرانوں کا معقول علاج ہوسکے اور پاکستان کا زرمبادلہ بچ جائے۔ غریبوں کے لیے جو سرکاری اسپتال ہیں وہاں نہ ڈاکٹر ہیں نہ دوائیں بلکہ مریضوں کے لیے بستر تک نہیں۔ خلیفہ دوم حضرت عمرؓ نے کہا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے بکری کا ایک بچہ بھی دم توڑ جائے تو عمرؓ سے جواب طلب کیا جائے گا۔ یہ ہے اللہ کے سامنے جواب دہی کا خوف۔یہاں توکتنے ہی مریض دوا، علاج نہ ہونے سے دم توڑ جاتے ہیں۔ حاملہ خواتین اسپتال کے سامنے بچہ جن دیتی ہیں کہ اسپتال میں داخلے کی اجازت نہیں ملتی۔ میاں نواز شریف کبھی حساب لگائیں کہ ملک کے کتنے ہی بچے ایسے ہیں جو اسکول جانے سے محروم ہیں۔ نئی سڑکیں اور رنگ برنگی لائنیں تعمیر کرنا اچھا کام ہے لیکن عام آدمی کی بنیادی ضرورتیں کچھ اور ہیں۔ نواز شریف صاحب ہر خرابی کا الزام عدالت پر لگا دیتے ہیں کہ ان کو نا اہل کرنے سے تمام ترقیاتی کام رک گئے۔ میاں صاحب، آپ کو جولائی 2017میں گھر بھیجا گیا اس سے پہلے کیا ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہ رہی تھیں جو اچانک خشک ہوگئیں۔ گزشتہ 6 ماہ میں ایسا کیا ہوگیا؟ کیا ان کے ہوتے ہوئے پیٹرول، ڈیزل کی قیمتیں ماہانہ بنیاد پر نہیں بڑھ رہی تھیں؟ کیا ان کے دور حکومت میں عوام کی ضرورت کی ہر چیز ان کی قوت خرید سے باہر نہ ہوچکی تھی؟ میاں صاحب کو شاید یاد نہ رہا ہو کہ 2013ء کے انتخابات میں وہ نعرے لگاتے اور اخبارات میں اشتہارات شائع کرواتے تھے کہ اشیا ضرورت کی قیمتیں 1999کی سطح پر لائیں گے جب ان کو پرویز مشرف نے برطرف کیا تھا۔ میاں نواز شریف ذرا ایمانداری سے بتائیں کہ وہ کس شے کی قیمت واپس 1999کی سطح پر واپس لائے۔ کیا انہیں اللہ کے سامنے جواب دہی کا خوف نہیں ہے؟ البتہ انہیں یہ یاد رہا کہ انہوں نے بھارت سے دوستی کے مینڈیٹ پر الیکشن جیتا ہے۔ اگر لودھراں میں ن لیگ کی کامیابی اللہ کی رضا اور فیصلہ ہے تو یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ ان کو نا اہل قرار دینا اور وزارت عظمیٰ سے محروم کرنا بھی اللہ کی رضااور فیصلہ ہے۔ میاں نواز شریف اٹھتے بیٹھتے عدالتوں اور ججوں کے خلاف اپنے دل کا غبار نکالنے کے بجائے اللہ کے سامنے جواب دہی کی تیاری کریں۔میاں صاحب کو یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ اب ان کے ہاتھ سے حکمران جماعت کی سربراہی بھی چھین لی جائے گی اور اسی خوف اورخدشے کی وجہ سے اب وہ اور ان کی لاڈلی بیٹی آپے سے باہرہوتے جارہے ہیں،وہ یہ نہیں سوچ رہے کہ ہوسکتاہے کہ اگلے انتخابات میں بھی ان کی پارٹی کو مینڈیٹ مل جائے اور اس طرح ان کی پارٹی کی حکمرانی کاتسلسل قائم رہے لیکن کیا عوام کی نظروں میں عدلیہ کو مطعون اوربے وقعت کرنے کے بعد وہ اس ملک کے عوام کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بناسکیں گے؟ظاہر ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہوگا اور اگر اس ملک میں انصاف کانظام کمزور پڑگیا تو پھر یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول رائج ہوجانے کاخطرہ ہے اور ایسی صورت میںکسی کی عزت محفوظ نہیں رہ سکے گی اور یہ ملک خانہ جنگی کاشکار ہوسکتاہے، ایسی صورت میں کیا میاں نواز شریف کی پارٹی سکون کے ساتھ حکومت کرسکے گی؟۔
دانشمندی کاتقاضہ یہی ہے کہ نواز شریف عدلیہ کے فیصلوںاور یہ فیصلے دینے والے معزز ججوں کے خلاف سر عام دل کابخار نکالنے کے بجائے عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم کریں اور جن فیصلوں کے بارے میں انھیں شک ہو کہ ان میں ان کے ساتھ انصاف نہیں کیاگیاہے انھیں عدالتوں ہی میں چیلنج کرکے اپنی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کریں۔امید کی جاتی ہے کہ میاں نواز شریف صرف ذاتی مفادات کی خاطر اس ملک کے عدالتی نظام کوتباہ کرنے کی مذموم کوششیں ترک کردیں گے اورراست روی اختیار کرنے پر توجہ دیں گے۔