دہشت گردی کا ایک اور المناک واقعہ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے!
شیئر کریں
ابھی ہم پشاور اور قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں دہشت گردوں کانشانہ بننے والے شہیدوں کو سپر د خاک بھی نہیں کرسکے تھے کہ دہشت گردوں نے سہون میں درگاہ لعل شہباز قلندر کے احاطے میں خودکش دھماکا کرکے کم وبیش 100افراد کے لہو سے ہاتھ رنگ لیے جن میں خواتین اوربچے بھی شامل ہیں ۔ اس خود کش دھماکے میں شدیدزخمی ہونے والوں کی تعداد بھی 100سے زیادہ بتائی جاتی ہے،اس طرح گزشتہ 5دن کے اندردہشت گردی کے8واقعات میں شہید ہونے والوں کی تعداد 150سے تجاوز کرگئی ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدار میں درگاہ شاہ نورانی میں بھی زور دار بم دھماکا ہوا تھا، جس کے نتیجے میں 52 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ 13 فروری کو لاہور کے مال روڈ پردھماکا ہوا جہاں پنجاب اسمبلی کے سامنے دہشت گردوں نے خودکش حملہ کرکے 13 افراد کو ہلاک اور 85 کو زخمی کردیا۔لاہور دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ ‘جماعت الاحرار’ نے قبول کی تھی،13 فروری کو ہی کوئٹہ میں سریاب روڈ میں واقع ایک پل پر نصب دھماکا خیز مواد کو ناکارہ بناتے ہوئے بی ڈی ایس کمانڈر سمیت 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔اس کے بعد 15 فروری کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کی مہمند ایجنسی میں خودکش حملے کے نتیجے میں خاصہ دار فورس کے 3 اہلکاروں سمیت 5 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔اس حملے کی ذمہ داری بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے الگ ہونے والے گروپ ’جماعت الاحرار’ نے قبول کی تھی۔15 فروری کو ہی پشاور میں ایک خود کش حملہ آور نے ججز کی گاڑی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں گاڑی کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا تھا،کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی،خود کش دھماکوں کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں سیکورٹی فورسز کے قافلوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، جمعرات 16 فروری کو بلوچستان کے علاقے آواران میں سڑک کنارے نصف دیسی ساختہ بم پھٹنے سے پاک فوج کے ایک کیپٹن سمیت 3 اہلکار جاں بحق ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق سہون میں دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ گویا داعش نے اس دھماکے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں اپنا وجود ثابت کرنے اوریہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں نہ صرف وہ موجود ہیں بلکہ اتنے طاقتور ہیں کہ جب چاہیں بڑی تعداد میں بے قصور لوگوں کو لہو میں نہلا سکتے ہیں ، اورہنستے بستے گھروں سے آہ وبکا کی آوازیں بلند کرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔یہ صورتحال حکومت اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کیلیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ سہون جیسے تاریخی مقام پر جہاں ہمیشہ ہزاروں افراد موجود رہتے ہیں کسی ہنگامی حالت سے نمٹنے کاکوئی معقول انتظام نہیں ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آئی جی سندھ اور کمشنر حیدر آباد کو فون کرکے دھماکے کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو فوری واقعے کی جگہ پہنچنے کی ہدایت کی تھی لیکن حکومت سندھ کے پاس رات کو پرواز کرنے کے قابل ہیلی کاپٹر نہ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کوفوری طبی امداد پہنچانا ممکن نہیں تھا،ایسی صورت میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سہون دھماکے کے فوری بعد پاک فوج کو متاثرین کی فوری امداد کی ہدایت کی اور پاک فوج، رینجرز اور میڈیکل ٹیمیں جائے وقوع کی طرف روانہ کردی گئیں اور دھماکے کے زخمیوں کو فوری ریسکیو کرنے کے لیے آرمی کے ہیلی کاپٹرز استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاک فوج کے سربراہ کی اس بروقت ہدایت کے نتیجے میں زخمیوں کو فوری طبی امداد ملنے کی امید پیداہوئی ورنہ نہ معلوم کتنے زخمی طبی امداد ملنے سے قبل ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔
درگاہ لعل شہباز قلندر کے احاطے میں دھماکے پر تبصرہ کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ نے بجا طور پر یہ خدشہ ظاہر کیاہے کہ ’دہشت گردی کے حالیہ واقعات افغانستان سے کیے جارہے ہیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے خبردار کیا ہے کہ دہشت گرد ایک بار پھر افغانستان میں منظم ہورہے ہیں اور وہاں سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔، اور دہشت گردی کی یہ کارروائیاں پاکستان مخالف غیر ملکی طاقتوں کی ایماپر کی جارہی ہیں ، پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس موقع پر یہ واضح کیا ہے کہ اس طرح کے واقعات پر پاک فوج کے صبر وتحمل کا غلط مطلب نہ لیا جائے۔ پاک فوج ان ملک دشمن قوتوں سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے اور ان پاکستان مخالف قوتوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔‘آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بجاطورپر ’عوام کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی ہے اور یہ یقین دہانی کرائی کہ کسی کو عوام کے جان و مال سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے، پاک فوج قوم کے ساتھ کھڑی ہے اور سیکورٹی فورسز غیر ملکی طاقتوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔‘آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پراعتماد لہجے میں کہا ہے کہ قوم کے خون کے ایک ایک قطرے کا بدلہ لیا جائے گااور ‘اب کسی سے بھی رعایت نہیں ہوگی’۔جنرل قمر باجوہ نے دھماکے کے بعد قوم سے پر امن رہنے کی بھی اپیل کی اور کہا کہ مسلح افواج دشمن قوتوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گی، ہم اپنی قوم کے دفاع میں کھڑے ہیں ‘
دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرنے اوراب کسی کے ساتھ رعایت نہ برتنے کے حوالے سے پاک فوج کا بیان بلاشبہ پاکستان کے عوام کے دل کی آواز ہے اور اس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ پاک فوج دہشت گردی کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پرعزم ہے۔
یہ درست ہے کہ دہشت گرد ہمیشہ نازک مقامات کی تاک میں رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی کارروائی کردیتے ہیں لیکن دہشت گردی کے پے درپے واقعات اور ان میں بھاری جانی نقصانات کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے عوام کی جان ومال کے تحفظ سے اغماض برتنے کی یہ صورتحال ناقابل معافی ہے۔ارباب اختیار کو خود ہی اس صورتحال پر توجہ دینی چاہئے اوریہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ ان کا تمام عیش وآرام اس ملک کے وجود کاہی مرہون منت ہے ،ارباب اختیار کو یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ ہمارے اور خود ان کے اپنے بچوں کامستقبل بھی دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر محفوظ نہیں ہوسکتا، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب اختیار زبانی بیانات دینے کے بجائے عملی اقدامات پر توجہ دیں اور دہشت گردوں کے ناپاک اور مذموم عزائم ناکام بنانے کے لیے مربوط ومنظم لائحہ عمل اختیار کرنے پرتوجہ دیں اورعوام کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ۔