میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سنگھ پریوار اور شنکراچاریہ ایک دوسرے کے خلاف کیوں؟

سنگھ پریوار اور شنکراچاریہ ایک دوسرے کے خلاف کیوں؟

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۸ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

رام مندر کے حوالے سے ہونے والی تقریب کی دو ٹوک مخالفت پہلے پوری کے شنکرآچاریہ سوامی نشچلانند نے کی ۔ رام مندر کے پران پرتشٹھا پروگرام میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے شنکرآچاریہ نشچلانند نے پی ایم مودی پر کھلا حملہ بول دیا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ یعنی مودی بھگوان کی مورتی کو اسپرش (مس) کریں اور میں وہاں کھڑا ہو کر تالیاں بجاؤں! یہ تو مریادا (میرے وقار) کے خلاف ہے ۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی نے ابھی ابھی زبردست کامیابی درج کرائی ہے مگر اس س بے نیاز رتلام پہنچ کر شنکر آچاریہ نے واضح انداز میں کہا کہ پروگرام میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ اپنے عہدے کے وقار کا خیال رکھتے ہیں۔ یہاں تک تو بات ان کی اپنی ذات تک محدود ہے لیکن آگے انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ پی ایم مودی کا رام للا کی مورتی کو چھونا بذاتِ خودمریادا کے خلاف ہے ۔ وزیر اعظم کا تعلق پسماندہ سماج سے ہے اس لیے ان کے مورتی کو چھونے پر اعتراض دراصل ہندو دھرم کے اندر ذات پات کی درجہ بندی یعنی ورن آشرم کے عین مطابق ہے ۔ وزیر اعظم مودی نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کے بلا اعلان قائم کردہ ہندو راشٹر میں انہیں یہ دن دیکھنا پڑے گا۔
سوامی نشچلا نند کے دیگر اعتراضات تو ثانوی درجہ کے ہیں مگر مورتی کو چھونے سے متعلق کہی جانے والی بات نہا یت سنجیدہ ہے ۔ اس پر گفتگو سے قبل یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ بابری مسجد کی دیوار پھاند کر اندر جو مورتی رکھی گئی اور یہ بھرم پھیلایا گیا کہ وہ اپنے آپ پرکٹ (ظاہر) ہوگئی ہے وہ کہاں گئی؟ اب مودی جی کو نئی مورتی کی ضرورت کیوں پڑی ؟ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ پروپگنڈا سراسر جھوٹا تھالیکن مودی جی کے مورتی کو چھونے سے متعلق اعتراض کو سمجھنے کے لیے ماضی کی تاریخ میں جانا ہوگا۔ مودی جی کے حلقۂ انتخاب میں واقع کاشی وشو ناتھ مندر میں 1958 تک دلتوں کو داخلہ کی اجازت نہیں تھی۔ ایک طویل لڑائی کے بعد جب دلتوں کو اجازت ملی اور انہوں نے مورتی کو چھوا توسوامی نشچلا نند کے گرو کرپاتری مہاراج نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے وشوناتھ مندر کو ہی اچھوت قرار دے کر اسی شہر میں گنگا کے ساحل پر ایک نیا وشوناتھ مندر بنوا دیا تھاس لیے سوامی نشچلا نند کے چھونے والے بیان کو کرپتاری مہاراج کے رویہ سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے ۔
شنکرآچاریہ نے ببانگِ دہل چھوت چھات کی حمایت کرکے سنگھ پریوار کی صد سالہ محنت پر پانی پھیر دیا۔ موہن بھاگوت میں اگر ہمت ہے تو اس بیان کی تردید کریں لیکن ان کے ایک جانب شنکر آچاریہ اور دوسری طرف نریندرآچاریہ ہیں ۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آگ میں جائیں یا کھائی میں کودیں ۔ نشچلانند شنکرآچاریہ کے اس مشورے کو پسِ پشت ڈالنا ناممکن ہے کہ رام مندر میں مورتی کی پران پرتشٹھا شاستروں کے مطابق ہونی چاہئے لیکن اگر ویسا کرنے سے سیاسی فائدے حاصل نہ ہوتے ہوں تو اس کا کیا کیا جائے ؟ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صاف کہا رام مندر پر جس طرح کی سیاست کی جا رہی ہے وہ نہیں ہونی چاہئے ۔ سوامی نشچلا نند کو ملک میں پیر پسارتی فسطائیت سے کوئی پریشانی نہیں ہے ان کو سادھو سنتوں کے سیاسی استعمال پر اعتراض ہے ۔ ابھی حال میں انہوں نے کہا تھا کہ سیاسی جماعتیں پہلے سنتوں کو اپنا اسٹار پرچارک بناتی ہیں اور بعد میں وہ مونی بابا بنا دئیے جاتے ہیں۔ یہ الزام ہوا میں نہیں لگایا گیا بلکہ اس کے حق میں انہوں نے بابا رام دیو اور شری شری روی شنکر کی مثال بھی دے دی ۔ شنکر آچاریہ نے کسی پارٹی کا نام تو نہیں لیا لیکن جب کہا کہ پہلے ایک سیاسی جماعت نے ان دونوں کا بھرپور استعمال کیا اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد انہیں مونی بنا دیا تو سب سمجھ گئے کہ اشارہ کس طرف ہے ۔ انہوں نے باگیوشور دھام کے دھیریندر شاستری پر اس لیے تنقید کی تھی کہ وہ بی جے پی کے پرچارک (مشتہر) بن گئے ہیں۔
سوامی نشچلا نند نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ان کے پاس علم کی کمی ہے ۔ شنکر آچاریہ نے تو وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی نہیں بخشا اور استفہامیہ انداز میں پوچھارام جنم بھومی کو لے کر مودی کا کیا کردار رہا ہے ۔ رام مندر کی تعمیر کو لے کر کیا ان کی ایک بھی تقریر سننے کو ملے گی؟ یہ ایک حقیقت ہے 2019 کی انتخابی مہم کے دوران وہ فیض آباد کے قریب جاکر مزدوروں کے حقوق پر تقریر کرکے لوٹ آے تھے ۔ وہ تو جب آگے چل کر پتہ چلا کہ نہ تو اچھے دن آئیں گے اورنہ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس(ترقی) ممکن ہے تو مودی جی رام مندر کے اندر پناہ لے لی ۔ نام نہاد ہندو راشٹر کی سیاست کے بارے میں شنکرا چاریہ یہ کہیں کہ اگر اس وقت سیاست میں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے تو اس کے بارے میں کیا کہا جائے ؟ کانگریس اگر وہ بات کہہ دے تو وہ پہلے ہندو مخالف اور پھر ملک کی غدار شمار پاتی ہے لیکن اگر بی جے پی میں جرأت ہے تو وہ انہیں القاب سے شنکرا چاریہ کو نواز کردیکھے اس کے ہندوتوا کی پول کھل جائے گی ۔ اس لیے یہ کہنا پڑے گا کہ سوامی نشچلا نند مودی سرکار کی ہیکڑی نکال دی ان بھارتیہ جنتاپارٹی یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور ان کی بات مان بھی نہیں سکتی۔ اس دھرم سنکٹ کی وجہ سے بہت زیادہ بولنے والی پارٹی نے اس بابت خاموشی اختیار کررکھی ہے اور اپنی چونچ نہیں کھول پارہی یعنی کچھ بول نہیں پارہی ہے ۔
سوامی نریندر آچاریہ کے بارے لوگ بہت کچھ سچ اور جھوٹ جانتے ہیں مگر سوامی نشچلانند کے بارے میں عوام کی معلومات کم ہے اس لیے دونوں کو جانے بغیر ان کا موازنہ مشکل ہے ۔ اڑیشہ کے پوری میں واقع گوردھن مٹھ کے شنکر آچاریہ بہار میں پیدا ہوئے تو ان کے والدین نے انہیں نیلامبر کے نام سے پکارا ۔ تقریباً 31سال قبل 18اپریل 1974 کو وہ سوامی کرپاتری مہاراج کے مرید بن گئے اور سنیاس لے لیا ۔ اس طرح وہ نیلامبر سے سوامی نشچلانند ہوگئے ۔ اس وقت مودی جی کی سنگھ کے اندر بھی کوئی خاص اہمیت یاحیثیت نہیں تھی اور سیاست میں تو کوئی ان کو نہیں جانتا تھا۔ آگے چل کر پوری کے 144 ویں شنکر آچاریہ نرنجن دیو تیرتھ مہاراج نے انہیں 9 1992 کو 145 ویں شنکر آچاریہ کتعہدے پر فائز کردیا ۔ اس کا مقام اگر کوئی جاننا چاہتا ہوتو وہ گوگل کی مدد سے ان کی ویب سائٹ پر جاکر پڑھ سکتا ہے جہاں جلی حروف میں لکھا ہے ”حکمرانوں پر حکمرانی کرنے والا عہدہ’۔ وزیر اعظم نریندر مودی سے ان کے اختلاف کو سمجھنے کے لیے یہ ایک جملہ کافی ہے ۔ شنکر آچاریہ کسی چمپت رائے کی مانند حاکمِ وقت کو وشنو کا اوتار سمجھ کر اس کی چاپلوسی نہیں کرسکتا اس لیے وہ اصولی طور پر پران پرتشٹھا کی تقریب میں جاکر وزیر اعظم کی جئے جئے کار کرنے کو وہ اپنے وقار کے خلاف سمجھتے ہیں ۔
شنکرآچاریہ نشچلانند مندروں کے انتظام و انصرام میں سرکاری مداخلت کے مخالف ہیں۔ ان کے خیال میں مندر چلانے والے ٹرسٹ کو مضبوط تر بنانا چاہیے ۔اسی لیے وہ مذہبی مقامات پر بنائے جانے والے کوریڈور کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔ کوریڈور کی اصطلاح سنتے ہی وزیر اعظم کے حلقۂ انتخاب میں تعمیر ہونے والے کاشی وشوناتھ کاریڈور کا خیال لوگوں کے ذہن میں آتا ہے ۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہا کہ آج مذہبی مقامات کو سیاحتی مقام بنایا جا رہا ہے ۔ اس طرح ان میں عیش و عشرت کی چیزیں شامل کی جارہی ہیں جو درست نہیں۔ یہ بہت ہی بنیادی قسم کی بات ہے لیکن بی جے پی کی سیاست بنیادی طور پر اس کے چند پسندیدہ سرمایہ داروں کے حصولِ مفادات کا ذریعہ ہے ۔ وہ لوگ سرکاری خزانے سے رقم لے کر تعمیرات کرتے ہیں اور اپنے منافع میں حکومت کو شریک کرنے کے لیے برسرِ اقتدار پارٹی کو چندہ دیتے ہیں۔ اس کی مدد سے ذرائع ابلاغ کو خرید کر سرکار کے حق میں ماحول سازی کی جاتی ہے ۔ اب ایسا کرنے سے عیاشی بڑھے یا بدعنوانی میں اضافہ ہو حکومت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ویسے وارانسی کاعام ہندو اس بات سے بھی ناراض ہے کہ اس کاریڈور کی تعمیر کی خاطر سیکڑوں ایسے مندروں کو زمین بوس کردیا گیا جو ہزاروں سال سے موجود تھے اوران سے عقیدتیں وابستہ تھیں۔
شنکرآچاریہ کو صرف ایک شخص کے ساتھ پروگرام میں بلایا جانا بھی پسند نہیں آیا۔ا نہوں نے کہہ دیا کہ یہی وجہ ہے کہ میں تقریب میں نہیں جاؤں گابلکہ سو لوگوں کے ساتھ بلایا جائے تب بھی نہیں جاوں گا۔ شنکر اچایہ نے کہا ایودھیا کے ساتھ ان کا رشتہ اٹوٹ ہے اور انہیں ایودھیا جانے سے پر ہیز نہیں ہے ۔ رام ان کے دل میں ہیں لیکن ٢٢ جنوری کو ایودھیا نہیں جانے کے سبب ایودھیا سے ان کا رشتہ نہیں ٹوٹے گا لیکن اس موقع پر ان کا جانا مناسب نہیں ہے ۔ اب یہی بات کانگریس کہہ رہی ہے کہ وہ پہلے ہی اپنے وفد کو بھیج کر واپس بلا لے گی۔ویسے بھی آدھے ادھورے مندر کوئی کبھی بھی جائے وہ تو ادھورا ہی رہے گا۔ اس دن تو سارے کیمرے صرف ایک فرد کی جانب مرکوز رہیں گے ۔ شنکر آچاریہ سے ملتی جلتی بات مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے بھی کہی۔ وہ بولے مجھے ایودھیاجانے کے لیے کسی دعوت کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس سے پہلے جب بی جے پی نے رام کے نام پر انہیں گھیرنے کی کوشش کی تھی تو انہوں نے کہا تھا وہ دل میں رام اور ہاتھ میں کام کے اصول کو مانتے ہیں۔ اس لحاظ سے مودی مخالف ادھو شنکرآچاریہ سے زیادہ قریب دکھائی دیتے ہیں۔ اب ہندو عوام کو ان میں سے یہ طے کرنا ہے کہ ان کا اصلی رہنما کون ہے اور ڈھونگی کون ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں