منی پاکستان دھول ستان سے کیچڑ ستان تک
شیئر کریں
کراچی کے یہ تسلیم شدہ اسماءگرامی ہیں کہ یہ شہر قائد ہے، یہ روشنیوں کا شہر ہے، یہ علم و ادب کا شہر ہے، یہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شہ رگ ہے، یہ پاکستان کا بین الاقوامی شہر ہے اور یہ منی پاکستان کا اعزاز رکھنے والا شہر ہے۔ ہم نے تو اپنی گزشتہ تحریروں اور تقریروں میں ہمیشہ یہ پیغام ارباب حکومت وقت کو دیاہے کہ اس شہر کی تعمیر و ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے اور اگر اس بلند پایہ شہر کو ایسے نظام سے مربوط کیا جائے جس میں یہ ضمانت موجود ہو کہ اس کو اپنے تمام اعزازات کا تقدس برقرار رہے، مگر آج تک ہماری تحریر نقارخانے میں طوطی کی آواز ہی رہی اور کوئی اس شہر کو اہمیت کے حامل نظام سے ہم آہنگ نہ کرسکا۔ جب اس ملک میں انگریز قابض تھے اور زمام ونظام ان کے ہاتھ تھا تو یہ ہمیں تسلیم کرنا مجبور ی ہے کہ وہ بہتر تھا، زیر تعلیم بچوں کا یہ احترام اور خیال تھا کہ گرمیوں اور سردیوں کے مطابق بچوں کیلیے اسکولز، کالجوں اور درس گاہوں میں باضابطہ چھٹیوں کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا، جبکہ تعلیمی معیار کا بھی فقدان نہیں تھا بلکہ اُس وقت کے طلبہ و طالبات اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں بلند اور اعلیٰ ترین نتائج حاصل کرتے تھے اور اگر آج ہم ماضی اور موجودہ حالات کا تقابلی جائزہ لیں تو ہمارے اطمینان کی دیواریں شکستہ ہونگی، یہ نظام کی بوسیدگی اور کمزوری ہے ورنہ آج ہمارے قومی حالات اس قدر مضبوط ہوتے کہ ترقی اور خوشحالی کی فصلیں لہرارہی ہوتیں۔
یہ صرف ہم جانتے ہیں بلکہ آگاہ ہیں کہ شہر کراچی کی گرمی اور سردی کی حالت کوئی زیادہ وقت نہیں رکتی اور نہ ہی اس کے دن اور نہ ہی راتیں طویل ہوتی ہیں اس کے باوجود ہماری گرمی اور سردی کے کنٹرول کا نظام ہی نہیں۔ جب گرمی آتی ہے تو سڑکیں گرد و غبار سے اَٹ جاتی ہیں، گاڑیوں پر غبار جم جاتا ہے یہاں تک کہ پیدل چلنے والوں کی آنکھیں گرد و غبار سے بھرجاتی ہیں اور بیماریاں گھروں میں دستک دینا شروع کردیتی ہیں ، اکثر لوگ ہسپتالوں میں داخل ہوکر علاج کراتے ہیں اور جب سردی کی ابتداءہوتی ہے تو انتہا تک کے حالات ناگفتہ بہ ہوتے ہیں۔ گزشتہ چند روز کراچی میں دعاﺅں سے طلب کی گئی بارش ہوگئی اور لوگوں نے بارانِ رحمت قرار دیتے ہوئے بارش کا شاندار استقبال کیا، مگر کراچی کی عوام کا اظہار تشکر زیادہ دیر نہ ٹھہرسکا اور زبان خلق اس بارش کو رحمت کم اور زحمت زیادہ سمجھنا اور قرار دینا شروع ہوگئی، کیونکہ سڑکیں نہ صرف پانی کی زد میں آئیں بلکہ پھسلن کے باعث حادثات بڑھ گئے، زخمیوں کی تعداد بڑھتی گئی اور گاڑیوں کے لامتناہی نقصان ہوئے، پھر کھودی گئی سڑکیں پانی سے لبریز اس قدر ہوگئیں کہ راستے بند ہوگئے ۔عوام اپنے گھروں تک پہنچنے کے راستے تلاش کرتے رہے اور مین شاہراﺅں کی حالت زارکا ذکر تو درکنار کراچی شہر کی بستیاں بھی زیر آب آگئیں، محلے اور علاقے پانی میں اس قدر ڈوب گئے کہ لوگ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلنے پر مجبور ہوگئے، گلیوں کے گٹر کھل گئے اور راستے دریا بن گئے، اسکولز کے دروازے اور گیٹ بند ہوگئے، بچے گھروں میں قید ہوگئے اور ستم در ستم کہ بجلی کی لائنیں ٹرپ ہوتی گئیں جس کے باعث علاقے اندھیروں میں ڈوبتے رہے اور متعلقہ تمام ادارے خود بے بس اور مجبور دکھائی دیے کہ وہ بھی اپنی موومنٹ میں کامیاب نہ تھے، ان حالات میں ہم بھی احتجاج کا اپنا استحقاق محفوظ رکھتے ہیں کہ وقت کی حکومت اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے اور ایسے نظام کو مربوط اور مضبوط کرے کہ گرمیوں اور سردیوں میں اس قدر عوام خستہ حال نہ ہو، ہم نے اپنی تحریری نشست کے آغاز میں ہی کراچی شہر کی عظمت کا تذکرہ قلم بند کیا تھا کہ جتنے اعزاز اس شہر کے مقدر میں ہیں اتنے ملک کے کسی دوسرے کے پاس نہیں ہیں اس لیے ضرورت تو اس امر کی ہے کہ اس شہر کے وقار کر پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہونا چاہیے، اور ہم اس سچائی پر پردہ نہیں ڈال سکتے اور نہ ہی چھپاسکتے ہیں کہ اس شہر کو سیاست اور نظریات میں اس قدر تقسیم در تقسیم کیا گیاہے کہ اس کے سامنے نظام نہ صرف بستر مرگ پر پڑا ہے بلکہ بے یارومددگار ہوکر اپاہج ہوچکا ہے، یہ تو افسوسناک کہانی ہے کہ شہر کراچی طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہے، آج اس کا تقدس مجروح ہے، ہمیں افہام و تفہیم، ہم آہنگی اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اس عظیم شہر کو خوبصورت سے خوبصورت تر اور ترقی، خوشحالی اور امن کو بہتر سے بہتر کی طرف بڑھنا چاہیے تھا، لیکن ہم ناکام ہیں اورنا اہلی کی بے مثال تاریخ رقم کررہے ہیں اور اگر ہم اس شہر کو بے مثال بنالیتے ہیں تو اس میں پیدا ہونے اور تعلیم و تربیت حاصل کرنے والی نوجوان نسلیں اپنے نمایاں کردار سے ملک کا نام بلند سے بلند تر کرتیں، چلیے ہم یہ فیصلہ کریں، کراچی منی پاکستان ہے اگر اس کی بنیادیں کامیاب نظام سے تیار کرلیں تو یہ پورے پاکستان پر اپنے اثرات مرتب کرے گا اور پاکستان زندہ باد منی پاکستان پائندہ باد کی صدائیں بھی گونجیں گی۔
٭٭