مسلم دنیا کے دارالحکومت اسرائیلی موساد کے نرغے میں۔۔۔
شیئر کریں
(گزشتہ سے پیوستہ)
یہی صورتحال باقی کے یورپی ملکوں کی بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ یہودی دنیا میں کہیں بھی رہے اور کسی بھی رنگ یا نسل سے اس کا تعلق ہو اسے اسرائیل کے آئین کے مطابق اسرائیل کا شہری ہونے کابھی حق ہے۔اس لیے کسی بھی ملک کا پاسپورٹ حاصل کرنا اور کسی بھی ملک کے باشندے کے طور پر یہودی بآسانی جہاں بھی جانا چاہے پہنچ سکتا ہے۔ امریکا اور یورپ کے سفید فام یہودیوں کے علاوہ سیاہ فام یہودی بھی اسرائیل میں بستے ہیں ان میں سے یہود فلاشا کی بڑی تعداد بھی شامل ہے فلاشا یہود (اسرائیل کا بیٹا) کا تعلق اتھوپیا سے ہے اس نسل کے بارے میں قدیم مورخین کا دعوی ہے کہ یہ حضرت سلیمان ؑ اوریمن کی ملکہ سبا کے سے پیدا ہونے والے بیٹے کی نسل سے ہیں جو اپنی مقامی زبان کے ساتھ ساتھ عبرانی زبان بھی روانی سے بولتے ہیں ۔اسرائیل میں ان کی بڑی تعداد ستر کی دہائی میں لاکر بسائی گئی تھی اس سے بہت پہلے یمن کے یہودیوں کی بڑی تعداد کو اسرائیل لایا گیا تھا یہ بالکل جنوبی جزیرۃ العرب کے گندمی رنگ کے عربوں کی طرح ہیں اور عبرانی کے علاوہ عربی زبان مادری زبان کی طرح بولتے ہیں اسرائیل میں ان کی آبادی پہلے سے کہیں زیادہ ہوچکی ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی سفید فام یہودی عربی زبان مہارت سے بولنے لگے تو وہ شام، اردن ، لبنان، مراکش، الجزائر یا فلسطینی عرب لگے گا۔ اسرائیل کا سابق آرمی چیف اور موجودہ وزیر خارجہ گوبی آشکنازی کا تعلق بھی مراکش کے یہودیوں سے ہے جو ہجرت کرکے اسرائیل میں آباد ہوئے تھے۔
اوپر بیان کردہ ان تمام حقائق کو ذہن میں رکھ کر آگاہ رہیں کہ اسرائیل میں عربی زبان سیکھنے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اسرائیل میں قائم کردہ عربی زبان کی تعلیم کے لیے بڑے بڑے ادارے قائم ہیں جہاں پر فارن سروس کے علاوہ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوج کے اندرمواصلات کے شعوبوں میں کام کرنے والے یہودیوں کو عربی زبان ازبر کرائی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران عرب پائلٹوں کوجہاز اڑاتے ہوئے آپس میں بات کرنے سے روک دیا گیا تھا کیوں اسرائیلی پائیلٹ ان کی گفتگو انٹرسپٹ کرکے آسانی سے سمجھ جایا کرتے تھے۔۔۔یہ تو وہ مرحلہ ہے جو تاریخ کا حصہ بن چکا لیکن اب جو حالات ہیں وہ کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔اب عالمی صہیونی دجالیت کے پنجے مختلف قومیتوں کے بھیس میں ہر جگہ رسائی حاصل کرچکے ہیں۔اس سلسلے میں دنیا کے موجودہ نازک حالات کے پیش نظر پاکستان کے دفاعی اداروں کو مزید چونکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ماضی کے’’ دوست ملک‘‘ بھی اب اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں منسلک ہوکر دوست نہیں رہے۔۔۔۔اگر فلاشا یہود میں سے کوئی یہودی کسی بھی افریقی ملک کے سفارتکار کے طور پر اسلام آباد پہنچ جاتا ہے تو ہمیں نہیں معلوم یہ اتھوپیا ، صومالیہ، سوڈان یا کسی اور افریقی ملک کا سفارتکار یا کاروباری شخص ہے کہ نہیں۔یہی صورتحال سفید فام یہودیوں کی ہے جو اسرائیل میں درجہ اول کے شہری شمار ہوتے ہیں اور عالمی دجالی صہیونیت کے سرخیل ہیںان کے مختلف حلیوں اور روپ سے آگاہ رہنا انتہائی ضروری ہے ۔ بحرین، عرب امارات، سوڈان، مراکش، عمان نے اسرائیل سے تعلقات بحال کر لئے ہیں، سعودی عرب کے غیر اعلانیہ تعلقات سے اب کسی کو انکار نہیں ، جبکہ مصر اور اردن کے پہلے سے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیںاس لیے پاکستان کو داخلی محاذ کے ساتھ ساتھ اب خارجی سطح پر بھی خاصی احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ دشمن کی نظریں پاکستان کے دفاعی اداروں پر ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان جیسے ملک کو زیر کرنے میں بڑی رکاوٹ پاکستان کے دفاعی ادارے ہیں اسی لئے داخلی سطح پر ملک دشمن سیاستدانوں کو استعمال کیا جارہا ہے جبکہ خارجی سطح پر پاکستان کے ماضی کے دوستوں کے ذریعے دبائو کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اللہ تعالی مسلمانوں کو حقائق اور ظواہر میں تمیز کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔