میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دلی تیرا شکریہ

دلی تیرا شکریہ

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۷ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

1947ء سے لے کر آج تک کشمیر کے تئیں نئی دہلی کی اپنائی گئی پالیسی کا بغور جائزہ لینے کے بعد ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ نئی دہلی کے پالیسی ساز اداروں میں براجمان تعصب و نفرت کے خمیر میں بوڑھے ہو رہے افرادکے بعد ایسے نوجوانوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے جو کشمیر کے ہر مسئلے کو تعصب کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔مدد کے نام پرکشمیر پر قبضہ کی ہی کہانی کے بعد اقوام متحدہ سے لے کرنرسیماراؤکی sky is the limitاور واجپائی کے ’’دائرہ انسانیت‘‘تک ان کے دعوؤں اور باتوں کا جائزہ لیجیے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک طرف چند میٹھے بولوں سے دنیا کو بیوقوف بنایا جا رہاہے، وہی دوسری جانب ایک چھوٹی سی قوم سے متعلق اسرائیل سے بھی زیادہ جارحانہ پالیسی اپناکر اس کا جینا حرام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جارہی ہے ۔مہاراجہ ہر ی سنگھ کے بعد جن کشمیری لیڈروں کو اقتدار کی کرسی پر بٹھایا گیا ان میں اکثر کو مسئلہ کشمیر پر خاموشی اختیار کرنے یا دلی کے منشا کے عین مطابق بات کرنے کے عوض ہی کرسی عطا کی گئی ۔جب بھی کسی نے دلی کے منشا کے برعکس بات کرنے کی کوشش کی بلا لحاظ عمر اس کو مریض سید علی شاہ گیلانی کی طرح یا تو نظر بند کیا گیا یا شبیر احمد شاہ اور دیگر حریت لیڈران کی طرح مشکوک اور مبہم کیسوں میں پھنسا کر تہاڑ جیل کی زینت بنا دیا گیا ،حتیٰ کہ مردو زن کی تخصیص کے بغیر ہی انھیں بیمار آسیہ اندرابی کی طرح پابندِسلاسل کر کے پریشان کیا جاتا رہا،نہیں تو مسرت عالم ،ڈاکٹر محمد قاسم ،ڈاکٹر شفیع شریعتی اور دیگر سیاسی لیڈران کا جرم کیا ہے سوائے اس کے کہ وہ لوگ وہی حق مانگتے ہیں جس کا وعدہ دلی والوں نے کیا تھا اور اس حق کا نام آزادی ہے مرعات نہیں۔
سیاسی لیڈران ہی کیا اب عرصے سے علماء اور دیگر شعبہائے حیات سے وابستہ دانشوروں کو بھی نت نئے طریقوں سے زچ کیا جا رہا ہے ۔میر واعظ عمر فاروق ہوں میر واعظ قاضی یاسر انہیںکبھی گرفتاری اور کبھی نظر بندی کے چکر میں رکھ کر پریشان رکھ کر یہ سمجھا رہا ہے کہ شاید اب یا تب یہ ’’بدل ‘‘جائیں گے ۔اکثر سیاسی لیڈران کو نظر بند رکھنے کی پالیسی بلا جھجک گذشتہ تین برس سے وہی حکمران اپنانے پر بضد ہیں جو 2014ء سے قبل نیشل اور کانگریس کی کولیشن سرکار کو ایک سید علی گیلانی کو نظر بند رکھنے پر باربار لتاڑتی تھی جبکہ آج نچلے درجے کے سیاسی کارکنان کو یا تو گرفتار کیا جاتا ہے یا کم سے کم نظر بند !گذشتہ تین برس میں اِس حکومت نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ کر’’علمائِ کشمیر‘‘کو ذاتی اور مدارس کی تفصیلات فراہم کرنے کے نام اتنا تنگ کر رکھا ہے کہ ہر دوسرے دن پولیس اور سی ،آئی ،ڈی اہلکارمدراس میں گھس کرانھیں حراساں کر رہے ہیں ۔کبھی بچوں کی تفصیل ،کبھی استادوں کے کوائف ،کبھی آمدنی اور کبھی اخراجات فراہم کرنے کے نام پر پریشان کیا جاتا ہے ۔اور تواور اس حکومت نے قلمکاروںاور دانشوروں کو بھی ذلیل کرنے میں کسر باقی نہیں چھوڑی ہے ۔ہر تیسرے دن کے بعد کبھی ایک چیز مانگی جاتی ہے اور کبھی دوسری ۔اور یہ کارنامہ گزشتہ تمام حکومتوں کے ریکارڈ توڑنے کی قسم کھائی موجودہ حکومت اس حد تک گر چکی ہے کہ زندگی بھر نیشنل کو کوسنی والے یہ لوگ ماضی کے شور شرابے کو بھول کر نئے نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں ۔
سنگ دلانِ دلی سے گلہ نہیں پر کشمیر واسیوں کو آخر کشمیریوں پر مظالم ڈھاتے ہو ئے ’’مسرت‘‘کیوں محسوس ہو رہی ہے ؟کیا ان کے اندر انسانی جذبات مر چکے ہیں ؟کیا ان میں انسانی ہمدردی نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے ؟ان لوگوں نے تو ہم قوم اور ہر مذہب ہونے کا بھی کوئی خیال نہیں کیا ہے ۔نئی دہلی کی پالیسی کے صرف دو پہلو ہیں ایک پیسے کے عوض قومی وفاداری کی فروخت دوم طاقت سے زیر کرنے کے چانکیائی حربے ۔سن سنتالیس سے لے کر آج تک آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے انھوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کو لالچ دے کر الحاق پرفراڈ طریقے سے دستخط کرائے ۔اس کے بعد شیخ عبداللہ کو جس طرح شیشے میں اتارنے کی کوشش کی وہ تاریخ کشمیر کا سب سے عبرتناک باب ہے ۔اسی کے ساتھ ہی ساتھ جو رول بخشی غلام محمد سے لے کر مفتی سعیداور اب ان کی ’’لاڈلی‘‘کا نظر آرہا ہے یہ صرف اقتدار اور دولت کا لالچ ہے ۔پر المیہ یہ ہے کہ یہ مین اسٹریم سے وابستہ بھارت نواز حکمران اور لیڈران 2017ء میں بھی نئی نسل کو ستر کے عشرے کے’’ کم تعلیم یافتہ سلہ اور گلہ‘‘ ہی تصور کر رہے ہیں ۔نئی پود نا صرف لکھی پڑھی ہے بلکہ ڈر اور خوف اس کے حاشیے پر بھی نظر نہیں آتا ہے ۔ ان میں دوسروں کے جینے کے لیے مرنے کا جذبہ بھارت کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ہی پروان چڑھا ہے ۔
1990ء میں عسکریت کے آغاز کے ساتھ ہی ساتھ نئی دہلی کے ’’بابوں‘‘نے سیکیورٹی ایجنسیوں کو کھلی چھوٹ دینے کی نا صرف وکالت کی ہے بلکہ ہر چھوٹ اور قانونی طاقت فراہم کرنے کے بعد افسپا کے ساتھ ساتھ ٹاڈا اور پوٹا کی آڑ میں کشمیری مسلمانوں کو کچلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا گیا؟اب تک اٹھائیس برس پرانی یہ سوچ موجود ہے کہ ہمیں کھلی چھوٹ کے بعد اب مکمل چھوٹ دینی چاہیے تاکہ ’’قتل عام ‘‘کے بعد وسیع قتل عام ممکن ہو سکے ۔ سوشل میڈیا پر آپ ’’سنگھ پریوار ‘‘سے وابستہ لیڈروں اور کارکنوں کی باتوں کو سن لیجیے تو وہ کشمیر میں برماکی فارمولہ اپنانے کی وکالت کرتے ہو ئے نظرآتے ہیں، حالانکہ بھارت کشمیر میں برما سے مختلف پالیسی نہیں اپنا رہا ہے بس فرق یہ ہے کہ یہ آہستہ آہستہ سب کچھ کرتا ہے جبکہ میانمار ایک ساتھ کر کے دنیا بھر کی بدنامی مول لے چکا ہے ۔بھارت کی متضاد پالیسی اسے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے ؟کہ ایک طرف نوے کے عشرے میں یہی لوگ کشمیریوں کو بندوق چھوڑ کر میز پر آنے کا وظیفہ ورد کرتے ہو ئے نہیں تھکتے تھے اور جب کشمیریوں نے انہی کے منشا کے عین مطابق 2008ء سے اب تک پر امن طرزجدوجہد اختیار کر رکھا ہے تو آخر اب دلی کے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھ رہے ہیں ؟آخر اب ’’جرنل صاحب ‘‘پتھر اٹھانے والے ہاتھوں میںبندوق دیکھنے کے متمنی کیوں ہیں ؟
بھارت میں بے شمارت قومیں آباد ہیں چاہیے وہ مرضی سے یہاں رہتی ہیں یااپنی مرضی کے خلاف ۔قانون ہر ایک کے مال و جان،عزت و آبرو اور مذہب کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ۔ساتھ ہی ساتھ آئین میں جلی حروف سے اظہار رائے کی آزادی اور ظلم و زیادتی کے خلاف احتجاج کرنے کا حق بھی موجود ہے مگر کشمیر کی وادی میں داخل ہوتے ہی یہ کتاب بالکل مختلف نظر آتی ہے ۔یہاں نا اظہار رائے کی آزادی ہے نا ہی ظلم و زیادتی کے خلاف احتجاج کے حقوق کا کوئی تصور موجود ہے اور جو بھی شخص قانون کی اس دفعہ کا استعمال کرتے ہو ئے اس پر عمل کر کے بھارت کو آئینہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کو ہزار طریقوں سے پریشان کیا جاتا ہے اور حریت کانفرنس کا ’’سیاسی پلیٹ فارم‘‘اس کی جیتی جاگتی تصویر ہے ۔ اور تو اور سوشل میڈیا کا استعمال بھی ’’دلی کے مزاج کی رعایت نا کرنے کی صورت میں ‘‘ممنوع ہے۔کشمیر میں سوشل میڈیا بھی قید ہے ۔جہاں بھی لوگ احتجاج کرنے سڑکوں پر آتے ہیں انتظامیہ اولین فرصت میں وہاں انٹرنیٹ کی سہولت ختم کردیتی ہے اور بسااوقات ٹیلی فون بھی ۔کشمیر دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں 2016ء میں ناصرف انٹرنیٹ بند کیا گیا بلکہ صارفین کوٹیلی فون سہولیات سے پانچ مہینوں تک محروم رکھا گیا ۔بھارت کس منہ سے جمہوریت کا دعویٰ کر رہا ہے 2008ء سے لے کر2017ء تک اس نے کشمیر میں جمہوریت کے چہرے پر کالک مل رکھی ہے ۔ گیسو تراشی کو ہی لے لیجیے کل تک پورا کشمیر ایک مصیبت میں مبتلا تھا۔ انتظامیہ نے مجرمین کی نشاندہی پر انعام مقرر کر رکھا ہے ۔عوام کو اسلام آباد سے لے کر کپوارہ تک اس بات کا یقین ہو چکا ہے کہ اس میں خود حکومتی ادارے ملوث ہیں اور وہی مجرمین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔عوام یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے کہ یہ ’’ہسٹیریا‘‘ہے ۔عوام پوچھتی ہے کہ ہسٹیریا صرف کشمیر میں ہی کیوں نظر آتا ہے آخر یہی کچھ جب یو،پی،ہریانہ کے بعد جموں کے چند ضلعوں میں ہوا تو وہاں کے حکمرانوں نے اس طر ح کے شگوفے کیوں نہیں چھوڑے ؟عوام پوچھتی ہے کہ آخر سینکڑوں واقعات کے بعد پولیس اور دیگر سراغرساں ادارے اس کا پتہ لگانے میں ناکام کیوں ہیں ؟عوام پوچھتی ہے کہ آخر ’’بے ہوشی کی قلیل مقدار‘‘جس سے ایک لڑکی یا عورت تین چار منٹ تک ہی بے ہوش رہتی ہے کے استعمال کی ٹریننگ ایک عام فرد کو کون دے سکتا ہے ؟عوام پوچھتی ہے کہ آپریشن تھیٹرس میں استعال ہونے والے بے ہوش کرنے والی ادویات کا استعمال اس مہارت کے ساتھ کون کر سکتا ہے؟ جبکہ ہر واردات میں انیس بیس کے فرق کے ساتھ کافی مماثلت پائی جا رہی ہے ۔کہا گیا کہ یہ ہسٹیریا ہے !پوچھا جا سکتا ہے کہ کشمیر پولیس نے ایسا کیا ’’وظیفہ‘‘پڑھا یا پڑھوایا کہ اچانک گیسو تراشی کے سانحات میں ریکارڈ کمی آچکی ہے ؟کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہو رہی ہے ۔
(جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں