دیرینہ دوستوں کی ملاقاتیں‘ترکی و پاکستان یک جان‘ بھارت و اسرائیل میں قربتیں
شیئر کریں
فوجی بغاوت پر سب سے پہلے پاکستان کا پیغام آیا ،فراموش نہیں کرسکتا،کشمیر کا مسئلہ جلد حل ہونا چاہیے،ترکی و پاکستان لازم وملزوم ہیں، رجب طیب اردگان
اسرائیلی صدر کا دورہ بھارت،پرنب مکھر جی اور مودی سے ملاقاتیں، انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تعاون تیز کرنے پر اتفاق
ابو محمد
جہاں ترکی کے صدر اور عالم اسلام کے عظیم رہنما رجب طیب اردگان نے دنیا کی واحد ایٹمی پاور مسلم ریاست پاکستان کا 2 روزہ دورہ کیا تودوسری جانب یہود و ہنود ریاستوں کے سربراہان یعنی اسرائیل کے صدر اور بھارت کے وزیر اعظم کی نئی دہلی میں ملاقاتیں ہوئی ہےں۔ اسرائیلی صدر ریوین ریولن 8روزہ دورے پر بھارت پہنچے ہوئے ہیں ۔بظاہر تو دونوں دورے معاشی استحکام کیلیے معاہدوں اور باہمی تعلقات کے فروغ کے بارے میں بتائے جارہے ہیں لیکن خیال یہ ہے کہ دونوںہی ملاقاتیں بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے کثیرالمقاصد اہمیت رکھتی ہیں کیونکہ ترک صدر اس وقت نہ صرف عالم اسلام بلکہ عالمی سطح پر دہشت گردی کی سازشوں اور دنیا میں جاری اقتدار کی جنگوں میں مضبوط کردار کی علامت بنے ہوئے ہیں اور سامراجی مظالم شام میں ہوں یا فلسطین،کشمیر میں ہوں یامیانمار،عراق میں ہوں یا افغانستان ہرجگہ ترکی کی اسلامی تنظیم کے رہنما اور ترک صدر رجب طیب اردگان اپنا کردارادا کرتے نظر آرہے ہیں چاہے اس معاملے میں انہیں روس کو لگام دینا پڑے ،امریکا کے سامنے آواز حق بلند کرنی پڑے یا سرمایہ دارانہ ذہنیت کے حامل یورپی یونین کو اس کی اوقات میں رکھنا پڑے ،رجب طیب اردگان اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ادھر اسرائیل کی موجودہ سیاسی دنیا میں حیثیت و اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔تجزیہ کار تو اس حد تک کہتے ہیں کہ آئندہ سپر پاور کی کرسی امریکا سے اسرائیل کی طرف منتقل ہونے جا رہی ہے کیونکہ نومنتخب صدر ٹرمپ کے داماد کٹر یہودی ہیں اور انکی بیٹی نے بھی یہودی مذہب قبول کر لیا اور انتخابی مہم میں آگے آگے رہنے والی ٹرمپ کی بیٹی کے بارے میں یہ بھی قیاس کیا جارہا ہے کہ جیسے وہ وہائٹ ہاﺅس میں دوسری خاتون اول کی حیثیت سے سیاسی سرگرمیاں کرتی نظر آئیں گے اوریہودی مقاصد کی تکمیل کا فریضہ انجام دیں گی۔بہرحال وقت کے ساتھ ساتھ معاملات کھل کر خود ہی سامنے آجائیں گے ۔پہلے جائزہ لیتے ہیں ترک صدر کے دورہ پاکستان کا۔
پاکستان کے 2 روزہ دورے پر انے والے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے فتح اللہ گولن کی تحریک ’فیتو‘ کو دہشت گرد تنظیم قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نا صرف ترکی بلکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے۔
ترک صدر نے کہا کہ 15جولائی کو ترکی میں فوجی بغاوت کی مذمت کرنے والا پاکستان سب سے پہلا ملک تھا، مشکل وقت میں مدد کرنے پرپاکستانیوں کو فراموش کیا نہ کبھی کریں گے۔ ترکی اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ہم اس بھائی چارے کو دنیا بھر میں مقبول کریں گے۔رجب طیب ایردوان نے کہا کہ پاکستان اورترکی اعلیٰ اقدارکی حامل قومیں ہیں، پاکستان سے تعلق روز آخر تک جاری رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ کہ فتح اللہ دہشت گرد تنظیم ایک خونی تنظیم ہے اور خطے کے لیے خطرہ ہے، اس کا نیٹ ورک 120 ممالک میں ہے اور گولن پنسلوانیہ سے اپنی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں۔طیب اردگان نے کہا کہ فتح اللہ گولن کے زیرانتظام پاک ترک اسکولز کے عملے کو 20 نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دینا پاکستان کے تعاون اور یکجہتی کا ثبوت ہے، اس تنظیم کو پاکستان میں کہیں پناہ نہیں ملے گی۔انہوں نے کہا کہ ترکی اور پاکستان ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ فیٹو کو پاکستان کو نقصان پہنچنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، میں اس دہشت گرد تنظیم کے خلاف جنگ میں پاکستان کے تعاون پر مشکور ہوں۔امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹنے والے مبلغ فتح اللہ گولن کے حوالے سے ترک صدر نے کہا کہ ترکی کے اندر بغاوت کی کوششوں کےخلاف کارروائی کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ جلاوطن ترک رہنما فتح اللہ گولن امریکامیں بیٹھ کردہشت گرد تنظیموں کی سربراہی کررہے ہیں اور 15 جولائی کوترکی میں ہونے والی بغاوت کی سازش انہی کی کوشش تھی جسے طیب اردگان اور ترک عوام نے ملیامیٹ کردیا۔ اس واقعے کے بعد ترک صدر طیب اردگان کا یہ پہلا دورہ پاکستان ہے۔
15 جولائی کو ترکی میں بغاوت کی کوشش کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ باغی طاقتوں سے ملنے والے اسلحے کے تانے بانے مغرب سے ملتے ہیں، مغرب، داعش اور القاعدہ کی مدد کررہا ہے، داعش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ترک خبر رساں ادارے ٹی آرٹی کے مطابق ترک صدر نے کہا کہ دین اسلام امن اور سلامتی کا پیامبر ہے۔ اسلام اور دہشت گردی کا کوئی تعلق نہیں۔ دہشت گرد اسلام کو نقصان پہنچارہے ہیں، جس طرح دہشت گرد دین اسلام کو نقصان پہنچارہے ہیں کوئی نہیں پہنچا سکتا۔ مغربی دنیا داعش اور القاعدہ کی مدد کررہی ہے، داعش کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں کو سراہتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ گولن تحریک کو مغربی دنیاکی حمایت حاصل ہے، برائیوں کا خاتمہ ہماری ذمہ داری ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جدو جہد کررہا ہے ، ترکی بھی اسی طرح پی کے کے، داعش اور دیگر تنظیموں کے خلاف جدو جہد کررہا ہے۔ ہم نے داعش سے ملنے والے اسلحے سے اس کی نشاندہی کی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوری عمل مستحکم ہوا ہے، پاکستان نے مسلم امہ کے لیے ایک اہم مثال پیش کی ہے، پاکستان کی پارلیمنٹ سے تیسری مرتبہ خطاب کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔اپنے خطاب میں صدر اردگان نے کہا کہ پاکستانی بھائیوں سے محبت اور خلوص کا اظہار کرتا ہوں، ترکی سے آپ سب کےلیے محبتیں سمیٹ کر لایا ہوں۔انہوں نے کہا کہ پاک ترک تعلقات کونئی بلندی پر پہنچانے کے لیے پرعزم ہیں،ترکی پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مکمل تعاون کرےگا۔ پاکستان اور ترکی کی تجارت کا حجم ایک ارب ڈالر تک بڑھانا چاہتے ہیں، ہر طرح کی ناانصافی کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلیم کے میدان میں پیشرفت آگے بڑھائیں گے، پاکستان کے ساتھ انڈر گریجویٹ اوراعلیٰ تعلیم کے معاہدے طے پائیں گے۔
مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیری بھائیوں کی خواہش کے مطابق حل ہونا چاہیے، ترکی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی کوششیں اقوام متحدہ میں آگے بڑھائے گا، کشمیریوں پر ہونے والے مظالم سے آگاہ ہیں، وہاں درد ناک واقعات پیش آرہے ہیں۔کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پاکستان اوربھارت مذاکرات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں، کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے مو¿قف کی تائیدکرتے ہیں۔اردگان نے کہا کہ کنٹرول لائن پر حالیہ کشیدگی بھی باعث تشویش ہے اور ہم اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ لائن آف کنٹرول کی کشیدہ صورتحال کشمیر میں موجود ہمارے بھائیوں اور بہنوں پر اثر انداز ہورہے ہیں اور اب ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں انہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
پاک افغان تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اورافغانستان کے تعلقات بہترہوں۔ترک صدر نے کہا کہ پاک افغان تعلقات بہتربنانے کے لیے کردار ادا کریں گے، پاکستان، افغانستان اورترکی دوست ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف اور ترک صدر کے درمیان وزیر اعظم ہاو¿س میںملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کا کہنا تھا کہ ترک صدر کو پاکستان میں خود آمدید کہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ترکوں کو دوسرا گھر ہے، ترکی میں بغاوت کی ہونے والی کوشش سے پاکستان کو دھکچا پہنچا، پاکستانی قوم ترکی کی منتخب حکومت کو ہٹانے کی کوششوں کی مذمت کرتی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ترک عوام نے بغاوت کی کوشش ناکام بناکر نئی تاریخ رقم کی۔وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اور ترکی کے تعلقات باہمی اعتماد اور احترام پر مبنی ہیں، ترکی طیب اردگان کی قیادت میں ترقی کے منازل طے کررہا ہے۔اس موقع پر انہوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ ’میں مسئلہ کشمیر پر امن حل پر زور دینے پر صدر اردگان کا مشکور ہوں۔انہوں نے بتایا کہ ترک صدر کے ساتھ ملاقات میں دونوں ممالک نے 2017 کے آخر تک آزادانہ تجارت کے معاہدے پر بات چیت مکمل کرنے پر اتفاق کیا۔وزیر اعظم نواز شریف نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کے حوالے سے پاکستان کی حمایت پر ترکی کا شکریہ بھی ادا کیا اور کہا کہ اس سے پاکستان کی پوزیشن مستحکم ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاک ترک دوستی خطے میں استحکام کا ایک اہم عنصر ہے۔
ترک صدر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی دوستی اورساتھ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے، پاکستان اورترکی مشکل وقت میں ایک ساتھ رہے۔دونوں سربراہان مملک کی ملاقات کے بعد پاکستان اور ترکی کے درمیان وفود کی سطح پر بھی مذاکرات ہوئے۔پاک ترکی سرمایہ کاری گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رجب طیب اردگان نے کہا کہ ’ترکی پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کو اپنی ترقی سمجھتا ہے اور ہم پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ترکی کے دیرینہ تعلقات ہیں، جبکہ ترکی پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے۔
قبل ازیں صدر ممنون حسین سے ملاقات میں پاکستان نے طویل المدتی دفاعی شراکت داری کی تجویز پیش کی اور طیب اردگان نے اس خیال کی حمایت کی۔پاکستان اور ترکی کے درمیان دفاع کے کئی معاہدے موجود ہیں ، ترکی پاکستان کو خالد کلاس آبدوزوں کی تجدید میں معاونت فراہم کررہا ہے جبکہ نیول فلیٹ ٹینکر کی تعمیر میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعاون جاری ہے۔ترکی نے پاکستان سے ایم ایف آئی 17 سپر مشاق طیارے خریدنے میں بھی دلچسپی ظاہر کی تھی۔ دفاع کے علاوہ دونوں رہنماو¿ں نے کشمیر و افغانستان سمیت دیگر علاقائی امور کے حوالے سے روابط بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔
ادھر نئی دہلی میں اسرائیلی صدر ریوین ریولن سرکاری دورے پر بھارت کے رہنماو¿ں کے ساتھ ملاقاتوں میں مصروف ہیں ۔اس دوران نہوں نے اسرائیل اور بھارت کے درمیان مضبوط تعلقات کا اعادہ کیااور کہا کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان تعلقات اور تعاون کے ذریعے ملک کی سلامتی میں اضافہ ہوگا اور زراعت کے میدان میں، پانی کے معاملے میں، ٹیکنالوجی کے میدان میں، ثقافت میں اور تعلیم میں مدد ملے گی۔ نئی دہلی کے حیدرآباد ہاو¿س میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ دونوں ممالک کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کاسامنا ہے، اور ان قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مزید بین الاقوامی تعاون کی ضرورت کے خطرات کا ذکر کیا۔نریندر مودی نے کہاکہ میں دل کی گہرائیوں سے اسرائیلی تعاون کی قدر کرتا ہوں،ہمارے معاشروں کو محفوظ بنانے کے لئے مضبوط اور بڑھتی ہوئی شراکت داری کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں،” مودی نے کہا کہ "ہمارے لوگوں کو مسلسل دہشت گردی اور انتہا پسندی کی قوتوں سے خطرہ ہے. بین الاقوامی برادری کو دہشت گرد نیٹ ورکس اور ان ممالک کے خلاف عزم کے ساتھ کام کرنا چاہیے. ہم تمام امن پسند قوموں کوخطرہ ہے ۔انہوں نے انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تعاون تیز کرنے پر اتفاق کیا۔
ریولن نے مزید کہا کہ اسرائیل اور بھارت متاثر کن ماضی کے ساتھ دونوں ممالک کے عوام کی ایک فرم الائنس ہے۔قبل ازیں بھارتی صدر مکھرجی سے ملاقات میں انہوں نے کہاکہ مجھے امید ہے میرے دورے ہم اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کر سکیں گے۔واضح رہے کہ گزشتہ سال بھارتی صدر نے بھی اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔اسرائیلی صدر نے بھارتی رہنما مہاتما گاندھی کی قبر کا دورہ کیااور پھولوں کی چادر چڑھائی۔