کینٹ اسٹیشن پر ڈھائی ارب روپے کے پلاٹ پر قبضہ
شیئر کریں
حکومت سندھ بے بس، وفاقی حکومت کا نیب سے رابطہ
دیگرجرائم سے قطع نظر پاکستان میں قبضہ مافیا روز بروز طاقتور بنتا جارہا ہے‘حکومتیں بھی ان کے سامنے سرنگوں ہوچکی ہیں
کراچی میں ایم کیو ایم‘پی پی پی‘ن لیگ‘ق لیگ‘ فنکشنل لیگ ‘ قوم پرست جماعتیں زمینوں پر قبضوں میں سب سے آگے ہیں
کئی مقامی سیاسی رہنمابھی سرکاری زمینوں پر قبضے کرکے ان کو فروخت یا جعلی آبادیاں قائم کرکے رفو چکر ہوجاتے ہیں
ذوالفقار مرزا ‘ اویس مظفر ٹپی کا جھگڑا بھی زمینوں پر قبضوں سے شروع ہو ا‘ جوایسی نہج پر پہنچ گیا جہاں سے واپسی ممکن نہیں رہی
الیاس احمد
پاکستان میں دن بہ دن لاقانونیت عروج پر پہنچتی جارہی ہے۔ حکومتیں بھی اب جرائم پیشہ افراد کے سامنے بے بس نظرآتی ایک جرائم پیشہ گروہ ختم نہیں ہوتاکہ دوسراسامنے آجاتاہے۔ اورختم ہونے والاگروپ بھی اپنی باقیات چھوڑجاتاہے جوکسی نہ کسی اندازمیں کارروائیوں میں مصروف رہتی ہے۔ دیگرجرائم سے قطع نظر قیام پاکستان سے لے کر آج تک قبضہ مافیا روز بروز طاقتور بننا جارہا ہے ۔حکومتیں بھی ان قبضہ مافیا کے سامنے سرنگوں کرچکی ہے ۔اگریہ کہاجائے توغلط نہ ہوگاکہ قبضہ مافیا اب حکومتوں کے لیے ناگزیر بن چکے ہیں۔
کراچی میں ایم کیو ایم، پی پی پی، مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ فنکشنل اور قوم پرست جماعتیں زمینوں پر قبضوں میں سب سے آگے ہیں۔ مبینہ طورپر ایم کیو ایم لندن کا خرچہ بھی کراچی کی زمینوں پر قبضوں سے پوراکیا جاتا تھا اور پھر کراچی کے شہریوں نے چائنہ کٹنگ کا نام بھی سنا جس کے تحت کسی بھی سرکاری اور غیر سرکاری پلاٹ پر قبضہ کرکے اس کے چھوٹے چھوٹے پلاٹ بناکر فروخت کئے جاتے تھے ۔چائنہ کٹنگ کا سب سے بڑا ماہر چنوں ماموں تھا جو ایم کیو ایم لندن کے رہنما محمد انور کا سگابھائی ہے ۔22 اگست 2016ء کے بعد چنوں ماموں ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
اس کے علاوہ کئی سیاسی رہنمابھی ایسے ہیں جن کے بارے میں اطلاعات ہیں وہ سرکاری زمینوں پر قبضے کرکے ان کو فروخت کیاکرتے تھے اور جعلی آبادیاں قائم کرکے وہ رفو چکر ہوجاتے تھے اور عوام بیچارے مقدمات اور عدالتوں کا سامنا کرتے رہتے ۔
عدالتوں میں 50 ہزار سے زائد مقدمات زمینوں کی الاٹمنٹ، قبضوں کے چل رہے ہیں۔ قبضہ مافیانے سرکاری اور غیر سرکاری کسی ادارے کو نہیں بخشا۔ قبضہ مافیااپنی ساری کارروائیاں تنہانہیں کرتی ان کو پولیس اور حکومتوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہیں زمینوں پر قبضے کرلیتے ہیں پولیس سرکاری ایجنسیاں ریونیو افسران اور حکومتی شخصیات ان قبضوں میں مل جل کر شامل ہوتے ہیں اور جو کماتے ہیں وہ بھی آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔ ذوالفقار مرزا اور اویس مظفر ٹپی کا جھگڑا بھی کراچی کی زمینوں پر قبضوں سے شروع ہوا تھا جو بعد میں آگے جاکر ایسی نہج پر پہنچ گیا جہاں سے دونوں کی واپسی پھر ممکن نہیں رہی ۔حال ہی میں وفاقی وزارت ہائوسنگ نے چیئرمین نیب کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کینٹ اسٹیشن کراچی میں ایک ہوٹل کے عقب میں ان کا ایک ڈھائی ارب روپے کا پلاٹ پڑا ہوا ہے ۔جس میں قبضہ مافیا نے قبضہ کرکے اس پر غیر قانونی طورپر بس اڈا بنالیا ہے جہاں سے وہ روزانہ لاکھوں روپے کمارہے ہیں ۔جب یہ قبضہ ختم کرانے کی کوشش کی جاتی ہے تو سندھ پولیس اور حکومت سندھ آڑے آجاتی ہے۔ اور یوں قبضہ مافیا جیت جاتا ہے اور وفاقی وزارت ہائوسنگ ہاتھ ملتی رہ جاتی ہے چیئرمین نیب کو اپنے خط میں کہا گیا ہے کہ حکومت سندھ سے وہ مایوس ہوچکے ہیں اب نیب فوری طورپر ایسے افراد کے خلاف کارروائی کرے جو اس قبضہ مافیا کی سرپرستی کرتے ہیں۔ لہذا یہ پلاٹ خالی کرواکر وفاقی وزارت ہائوسنگ کے حوالے کی جائے۔ اس لیٹر کے بعد نیب نے محکمہ اینٹی کرپشن سندھ سے رابطہ کیا ہے محکمہ اینٹی کرپشن نے فوری طورپر ثبوت جمع کرنا شروع کردیئے ہیں تاکہ نیب کو تفصیلی رپورٹ میں بتایا جاسکے کہ اس پلاٹ پر کس نے قبضہ کیا ہے؟ اس کی سرپرستی کون کررہا ہے؟ اور اب اس پر قبضہ ختم کرانے میں کون رکاوٹ بنا ہوا ہے؟ محکمہ اینٹی کرپشن نے صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ سے بھی تفصیلات مانگ لی ہیں۔ پولیس سے بھی تفصیلات طلب کی گئی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر کب قبضہ ختم کیا جاتا ہے؟