ایم کیو ایم میں ترقی پسندی
شیئر کریں
مختار عاقل
وزیر اعظم ہاﺅس کے خفیہ اجلاس کی کراچی کے انگریزی اخبار میں رپورٹ کی اشاعت نے پوری حکومت کو ہلادیا۔ رپورٹ میں پاک افواج کے حوالے سے بعض ”انکشافات“ کئے گئے تھے جس پر فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کی جانب سے سخت احتجاج کیا گیا اور حکومت پر زور دیا گیا کہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی رپورٹ توڑ مروڑ کر کس طرح اخبار کے رپورٹر تک پہنچی اور کس مقصد کے تحت شائع کرائی گئی۔ شکوک و شبہات نے سر اٹھایا تو سریاد آیا۔ بیچ بچاﺅ کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ سب سے زیادہ تشویش اخبار کے رپورٹر سیرل کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے پر تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی‘ یہ اقدام وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی طرف سے تھا جس کی فوج نے حمایت نہیں کی۔ اس نازک صورتحال میں سی پی این ای کے صدر جناب ضیاءشاہد‘ جنرل سیکریٹری اعجاز الحق اور اے پی این ایس کے صدر و سیکریٹری جناب سرمد علی اور عمر مجیب شامی نے فوری طور پر چوہدری نثار علی خان اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید سے ملاقات کا اہتمام کیا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مذاکرات کی میز سجائی گئی۔ دو سینئر صحافیوں مجیب الرحمان شامی اور عارف نطامی کو بھی میٹنگ میں شریک کرلیا گیا۔ جناب ضیاءشاہد نے بڑی تفصیل کے ساتھ صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس پورے کیس میں قصور وار مذکورہ صحافی نہیں بلکہ وہ شخص ہے جس نے ایک ایسے اعلیٰ سطحی اجلاس کی خبر باہر پہنچائی جس میں صرف 5 افراد شریک تھے۔ اس لیکیج کا ذمہ دار صحافی ہر گز نہیں ہے۔ بات معقول تھی حکومت کے کارپردازوں کی سمجھ میں بھی آگئی اور سیرل کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا افواہوں کے اس دور میں یقین کو گمان اور شک کو حقیقت میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین 22 اگست کی تقریر سے پہلے تک کراچی کی سب سے بڑی سیاسی حقیقت تھے لیکن ان کے خطاب سے دنیا بدل گئی۔ ان کے نام پر اور ان کے ہاتھوں سے تراشے ہوئے صنم بھگوان بن بیٹھے لندن مرکز سے رابطہ توڑ لیا اور اپنی رابطہ کمیٹی جوڑلی۔ لندن والوں نے ڈاکٹر فاروق ستار‘ عامر خان اور خواجہ اظہار الحسن کی بنیادی رکنیت ختم کردی۔ پارٹی سے نکال دیا لیکن عدالتوں کو ان سرگرمیوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ایم کیو ایم (پاکستان) کے رہنما اور میئر کراچی وسیم اختر اور ان کے سابقہ ساتھی انیس احمد قائم خانی‘ دونوں جیل میں بند ہیں اور ایک ساتھ عدالت میں حاضر ہوتے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اشتعال انگیز تقاریر کیس میں الطاف حسین اور ڈاکٹر فاروق ستار سمیت کئی رہنماﺅں کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے ہیں حالانکہ دونوں شخصیات ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرچکی ہیں۔ حکومت اور ریاست کا رویہ ایم کیو ایم کے بطن سے جنم لینے والے چاروں گروپوں کے ساتھ کم و بیش یکساں ہے۔ ان چاروں کو پولیس اور جیلوں کا سامنا ہے۔ سب سے زیادہ گرفت اور گرفتاریاں الطاف حسین کا ساتھ دینے والوں کی ہورہی ہیں۔ اس کے باوجود ایم کیو ایم لندن نے نئی رابطہ کمیٹی کا اعلان کردیا ہے۔ اس 12 رکنی کمیٹی میں جامعہ کراچی کے سابق معروف پروفیسر حسن ظفر عارف‘ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق مرکزی صدر مومن خان مومن اور پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق صدر ساتھی اسحاق بھی شامل ہیں جنہیں ایم کیو ایم (الطاف حسین) میں تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا جارہا ہے۔ ماضی میں جب بھی ایم کیو ایم کے ٹکڑے کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ پہلے سے زیادہ طاقتور بن کر ابھری ہے۔ الطاف حسین مکتبہ فکر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کی تشکیل سے قبل سندھ میں آباد مہاجر برادری بے یارو مدد گار تھی۔ وفاقی جماعتوں کے سیاستدان انہیں صرف ووٹ لینے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ تعلیمی اداروں میں ان کی تذلیل اور ملازمتوں میں نظرانداز کیا جاتا تھا۔ کئی سماجی اور معاشی ناانصافیاں روا تھیں اور کوئی پرسان حال نہ تھا۔ 1977ءکی نظام مصطفےٰ تحریک میں سب سے زیادہ قربانیاں کراچی‘ حیدرآباد‘ سکھر‘ نواب شاہ‘ میرپور خاص اور شہری سندھ میں آباد مہاجروں نے دیں لیکن جب حلوہ کھانے کا وقت آیا تو انہیں نظرانداز کردیا گیا۔ ایم کیو ایم ان تمام محرومیوں کا جواب تھی جس کے پلڑے میں ساری مہاجر آبادی نے اپنا وزن ڈال دیا تھا۔ 1947 ءمیں بھارت کے مختلف علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے ”مہاجروں“ کو اتحاد کی لڑی میں الطاف حسین نے پرویا اور سب کو متحد کرکے ایک مستحکم اور مضبوط سیاسی قوت میں تبدیل کردیا۔ یہی وہ احساس ہے جوماضی میں بھی کئی آپریشن ہونے کے باوجود ایم کیو ایم کو منتشر اور کمزور نہیں کرسکا ہے اس پارٹی کے ایک رہنما نے کہا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید ہوکر بھی اپنی قبروں سے سندھیوں کی قیادت کرسکتے ہیں اور پی پی پی کی موجودہ قیادت تمام تر کمزوریوں اور خرابیوں کے باوجود انہیں بار بار اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا سکتے ہیں تو زندہ الطاف حسین مہاجروں کی قیادت کیوں نہیں کرسکتے۔ یہ وہ احساس ہے جس نے ایم کیو ایم لندن کی نامزد رابطہ کمیٹی کو یہ کہنے کی جرا¿ت عطا کی ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار کسی اور نام سے پارٹی بنالیں۔ کوئی مائنس ون فارمولا نہیں چلے گا۔ انہوں نے خود کو بچانے کے لئے بانی ایم کیو ایم کو غیر قانونی طریقے سے تحریک سے الگ کردیا اور پارٹی کے آئین سے قائد کا نام ہی نکال دیا گیا۔ خالد مقبول صدیقی اور ڈاکٹر فاروق ستار کو عوام نے مسترد کردیا ہے۔ پروفیسر حسن ظفر عارف اور مومن خان نے کہا کہ بانی ایم کیو ایم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان ان کی مادر وطن ہے۔ وہ
دو مرتبہ 22 اگست کے الفاظ بھی واپس لے چکے ہیں۔ کارکنان بانی تحریک کی قیادت میں متحد ہیں۔ قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ترقی پسند تحریک کے تین اہم ناموں پروفیسر حسن ظفر عارف‘ مومن خان مومن اور ساتھی اسحاق کی ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی میں شمولیت کے بعد ترقی پسندوں کی ایک بڑی کھیپ ایم کیو ایم میں شامل ہوگی۔ پرانے لوگوں کی بھیڑ چھٹنے کے بعد میدان خالی ہے۔ ترقی پسند تحریک کے ایک اہم رہنما علی اختر رضوی نے 32 سال قبل ایم کیو ایم کا جو بیج بویا تھا جس نے بعدازاں گھنے درخت کی شکل اختیار کرلی‘ اس کی دیکھ بھال اور پروان چڑھانے کا بیڑہ ایک بار پھر ترقی پسندوں نے اٹھالیا ہے۔ 1992 ءکے آپریشن میں بزرگ رہنما اور صحافی اشتیاق اظہر اور سینئر سیاستدان اعجاز محمود نے آگے بڑھ کر ایم کیو ایم سنبھالی تھی دن رات ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر بیٹھ کر پارٹی امور چلائے اور تنظیم بچائی تھی اب یہ فریضہ پروفیسر حسن ظفر‘ مومن خان اور ساتھی اسحاق انجام دیں گے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے دن 16 اکتوبر کو کراچی میں بلاول بھٹو کی ”سلام شہداءریلی“ بھی کراچی کو پیپلز پارٹی کے پلڑے میں ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔