ملیر میں لینڈگریبرز کو جھٹکا در محمد گوٹھ کو مسمار کرکے اراضی کو واگزار کرانے کا حکم
شیئر کریں
( رپورٹ جوہر مجید شاہ) ڈسٹرکٹ ملیر میں لینڈ گریبرز کو بڑا جھٹکا سندھ ھائی کورٹ کی جانب سے غیرقانونی طور پر قائم گوٹھ کو فوری مسمار کرنے کے احکامات جاری قبضہ کی گئی اراضی کو واگزار کرانے کا حکم نامہ جاری واضح رئے ڈسٹرکٹ ملیر میں مقامی انتظامیہ و پولیس کی کالی بھیڑیں اور سیاسی و بااثر طاقتور کرپٹ مافیا کی زیر سرپرستی ضلع ملیر کی اربوں/کھربوں کی سرکاری اراضی لینڈ گریبرز کے بے رحم پنجوں میں ہیں جو انتظامیہ کیلے کسی چیلینج سے کم نہیں نیز یہ عمل فرائض منصبی سے مجرمانہ غفلت و چشم پوشی بھی ہئے اس ضمن میں یاد رئے کہ مسماہ حسنہ بیگم کی جانب سے سندھ ھائی کورٹ میں دائر درخواست پر معزز عدالت نے ڈسٹرکٹ ملیر شاہ لطیف ٹاؤن کے سیکٹر 30 اے پر قائم غیرقانونی در محمد گوٹھ کو (گرانے) مسمار کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا زرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق مسما? حسنہ نے 2016ئ میں ڈائریکٹر جنرل ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی” حکومت سندھ” و دیگر متعلقہ اداروں/حکام کیخلاف سندھ ہائی کورٹ میں پیٹیشن نمبر CP – D-6715/2016 دائر کی تھی جس کا فیصلہ کورٹ نے 17 مارچ 2020 کو سنا دیا تھا اور ڈی سی ملیر کو 30 اے پر قائم غیر قانونی در محمد گوٹھ کو گرانے کے آرڈرز جاری کردیئے تھے، مگر لینڈ گریبرز سے ساز باز اور تمام اداروں کی ملی بھگت سے عدالتی فیصلے/احکامات پر تاحال عملدرامد نہیں ہوپاریاتھا جبکہ (کورونا) کو بھی مافیا نے آڑ بنارکھا تھا جسکی وجہ سے غیرقانونی طور پر قائم گوٹھ کے خلاف کی جانے والی کاروائی تاخیر کا شکار رہی اس مجرمانہ غفلت میں ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی انتظامیہ کی کرپٹ مافیا بھی پیش پیش تھی اندرونی زرائع نے مزید انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ۔اس غیرقانونی گوٹھ کی مد میں لی گئی لاکھوں/کروڑوں کی رشوت کی رقم بھی داؤ پر لگ گئی ہئے ادارتی زرائع نے انکشاف کرتے ہوئے مزید بتایا کہ ملیر ڈیولپمنٹ آتھارٹی کے کرپٹ عناصر کی وجہ سے یہ معاملہ نہ صرف تاخیر کا شکار رہا بلکہ سندھ ھائی کورٹ کا جاری حکم نامہ بھی چھپانے کی ناکام اور غیرقانونی کوشیش بھی کی واضح رہے در محمد گوٹھ کو سندھ ھائی کورٹ نے سنہ 2011 میں گرانے کا حکم جاری کیا تھا نیز درمحمد کے خلاف فیک اسناد کورٹ کے سامنے پیش کرنے کے جرم میں تھانہ شاہ لطیف میں FIR درج کرانے کا حکم بھی دیا تھا مافیا کی دیدہ دلیری اور قبضہ مافیا کی سرپرستی کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جاسکتا ہئے کہ اس آرڈر کے جاری ہونے اور FIR کے اندراج کے باوجود درمحمد آج تک اس سیکٹر پر قبضہ کرکے بیٹھا ہوا ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ شاہ لطیف ٹاؤن کے دس مزید سیکٹرز پر بھی گورنمنٹ اور MDA کے کرپٹ عناصر کی سرپرستی میں قبضہ کرایا گیا ہئے۔