میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نامنظور

بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نامنظور

ویب ڈیسک
پیر, ۱۷ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے کہا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ متوسط اور غریب طبقہ کیلئے قیامت سے کم نہیں۔ عوام کی جیبوں پر 500ارب کا ڈاکہ ڈالا گیا۔ ٹیکسز،سرچارجز،ڈیوٹیز اور ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ شامل کر کے فی یونٹ قیمت 56روپے تک پہنچ گئی۔امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ حکومت آئی ایم ایف کے حکم پر قوم کا خون نچوڑ رہی ہے۔ حکمران قرض خود ہڑپ کرتے ہیں۔ ادائیگی کے لئے عوام کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے۔ عوام کے حق کے لیے اسمبلیوں۔ عدالتوں۔ چوکوں۔ چوراہوں سمیت ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے۔ پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی نے پی ٹی آئی دور میں مہنگائی کے خلاف مظاہرے اور لانگ مارچز کیے۔ اقتدار میں آ کر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی۔
گزشتہ ڈیڑھ برس میں بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اتنا اضافہ ہوا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ حکومت آئی ایم ایف معاہدہ قوم کے سامنے لائے۔ غریب عوام پر ظلم کی بجائے حکمران اشرافیہ اپنی مراعات ختم کرے۔ پی ڈی ایم۔ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی ایک ہی سکے کے مختلف رخ ہیں انھوں نے قوم کے لئے بارودی سرنگیں بچھائی ہیں۔ ترقی اور خوشحالی کے لیے ظالم جاگیرداروں اور کرپٹ سرمایہ داروں کی حکومتوں سے جان چھڑانا ہو گی۔ قوم اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے جماعت اسلامی کا ساتھ دے۔ اسلامی نظام ہی ملک کو بچا سکتا ہے۔ معیشت کی تباہی موجودہ اور سابقہ حکومتوں کی بیڈگورننس کا نتیجہ ہے۔ ملک وسائل سے مالا مال لیکن دولت کی غیرمساویانہ تقسیم اور وسائل پر دو فیصد اشرافیہ قابض ہے ۔ ایک طرف دولت کے انبار۔ دوسری جانب کروڑوں افراد بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم ہیں۔ آدھی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔حکمرانوںکی مراعات پر 17ارب ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ مقروض اور غریب ملک کے حکمران محلات میں مغل بادشاہوں کی طرح رہتے ہیں۔ ملک کے لیے خون پسینہ بہانے والوں کے لیے کوئی اجر نہیں۔ غریب کماتا ہے۔ حکمران کھاتے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں مہنگائی میں 34.3 فیصد اضافہ ہواجس سے عوام کاجینا مشکل ہوچکاہے۔ 160 روپے فی کلو آٹا ہو تو ایک سربراہ کیسے دس بارہ بندوں کی کفالت کرسکتا ہے۔ ابھی مزید 650 بلین کا قوم کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جائے گا۔ لگتا ہے آئندہ آنے والے دنوں میں حکومت سانس لینے پر بھی ٹیکس لگا دے گی۔ پی ڈی ایم مہنگائی کے خلاف پی ٹی آئی حکومت مخالف ریلیاں نکالتی تھی لیکن پی ٹی آئی کی طرح پی ڈی ایم کی حکومت بھی سو فیصد ناکام ہوگئی۔ صرف چہرے بدلے ہیں لیکن اشرافیہ ایک ہی ہے۔ حکومت چاہے جس بھی جماعت کی ہو، اس ملک کی حکمران جب تک کرپٹ اشرافیہ رہے گی، عوام کو سکون نہیں مل سکتا۔ ان لوگوں نے آئی ایم ایف کہنے پر غریبوں پر مزید 170ارب ٹیکسز لاد دیے۔ یہ خود اپنی مراعات کم کرنے کو تیار نہیں نہ یہ کابینہ کو مختصر بنانا چاہتے ہیں۔ ملک کی زمین سونا اگلتی ہے۔ ہمارے پاس معدنیات کی وسیع دولت ہے۔ محنتی قوم ہے، پڑھے لکھے نوجوان ہیں، ہمیں کسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں۔ جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ پاکستانی قوم مانگنے والی نہیں دینے والی بنے، ہم دنیا کی امامت کر سکتے ہیں اور اس کے لیے ایمان دار اور اہل افراد کا اقتدار میں آنا ضروری ہے۔ قوم ووٹ کی طاقت سے آزمائی ہوئی جماعتوں کو گھر کا راستہ دکھائے اور جماعت اسلامی کے امیدواروں کو الیکشن میں ووٹ دے تاکہ ایک اسلامی پاکستان کی بنیاد رکھی جائے۔
ملک کے 23 کروڑ عوام بے حد پریشان ہیں۔ پاکستان زرعی ملک ہے مگرآٹا نہیں، دالیں، چینی، سبزیاں مہنگی ہوگئی ہیں اس بدحالی کی بنیادی وجہ حکمران ہیں۔ سابقہ اور موجودہ حکومت نے عوام کو آئی ایم ایف کا غلام بنایا۔سیاستدان ٹھیک ہو جائیں تو سب ادارے ٹھیک ہو جائیں گے۔ جب سیاستدان ڈی ٹریک ہو جائیں تو ادارے بھی ڈی ٹریک ہو جاتے ہیں۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں اور پاکستان تحریک انصاف سب نے ہی اس ملک کو نقصان پہنچایا ان حکمرانوں کی وجہ سے آج نہ تو عدالت میں انصاف ہے اور نہ ہی کہیں اور۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں عوام اب مزید مہنگائی برداشت نہیں کرسکتے جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس پر کوئی کرپشن کا کیس نہیں ۔امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم حکومت کا کوئی فیصلہ قبول نہیں ۔ قرض آپ لیں ،ٹیکس عوام دے، ایسا نہیں چلے گا۔ حکمرانواںسے پورا حساب کتاب ہوگا ۔آئی ایم ایف کا 23واں پروگرام چل رہا ہے۔ قرضوں سے بہتری آتی تو پاکستانی قوم مریخ پر ہوتی۔ وزیروں۔ مشیروں۔ بیوروکریسی کے استعمال میں پانچ لاکھ گاڑیوں کو مفت پٹرول ۔ غریب پونے تین سو کا لیٹر خریدتا ہے۔ حکومت عوام پر ٹیکسز کا بوجھ ڈالنے کی بجائے اپنے اخرات کم کرے اور پروٹوکول کلچر کا خاتمہ کرے ۔ بڑے جاگیرداروں ،بڑے صنعت کاروں اور ریئل اسٹیٹ پر ٹیکس نافذ کرے۔ اوورسیز پاکستانیوںکا اعتماد بحال ہوجائے تو سالانہ ترسیلات زر 50ارب ڈالر تک جاسکتی ہے۔ انکم ٹیکس کے ساتھ زکوٰة لاگوکی جائے ۔25لاکھ لوگ انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ ساڑھے سات کروڑ زکوٰة دے سکتے ہیں۔ جی ایس ٹی میں اضافہ نہیں۔ آمدن پر ٹیکس لگائے جائیں ۔ ممبران پارلیمنٹ ،بیوروکریسی کو مفت پٹرول کی سہولت بند کی جائے ۔ اگر عام شہری پونے تین سو روپے لیٹر پیڑول خریدتا ہے تو ارب پتی مفت خورے کیوں نہیں۔ معیشت کو اسلامی بنایا جائے۔منی بجٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ مہنگائی ۔ بے روزگاری اور آئی ایم ایف غلامی کے خلاف جاری تحریک کو ملک کے طول و عرض میں پھیلائیں گے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں