میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سید علی گیلانی کی آٹھ سالہ نظر بندی

سید علی گیلانی کی آٹھ سالہ نظر بندی

منتظم
جمعه, ۵ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

(پہلی قسط)
کتابوں‌ میں درج عبارات کی پامالی جتنی مطلق العنان ممالک میں ہوتی ہے اسے بھی زیادہ سیکولر اور جمہوری ملکوں میںہوتی ہے مگر بد نامی ڈکٹیٹروں کے حصے میں آتی ہے جمہوریت کا لفظ لفظ اپنے آپ پر ماتم کناں ہے اس لیے کہ اس کی آڑ میں جو مظالم حکمرانوں ،سیاستدانوں اور بیروکریٹوں نے مخالفین پر ڈھائے ہیں اس کی مثالیں بھی بہت کم ملتی ہیں ۔ظالم ہوکرچادرِجمہوریت پہنے جو لوگ اپنی کھلے پن اور وسعتِ قلبی پر فخر کرتے ہیں دراصل یہ کسی حد تک عملی اوراخلاقی استعداد سے محرومی کا نتیجہ ہوتا ہے۔یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم اپنی مخصوص آنکھ سے چیزوں کو دیکھ کر تجزیہ کرتے ہو ئے ’’اطمینان کی نیند‘‘سوجاتے ہیں یہی کچھ ملک کی ساری رعایا کا بھی حال ہوگا ۔یہ قصور فرد کی ذات کا ہوتا ہے یا اقتدار کی کرسی کا ؟گہرے تجزیے کا محتاج مسئلہ ہے ۔نہیں تو روئے زمین کے ’’کذابِ اکبر امریکا‘‘کے ذہنی طور پر بیمار صدر کو یروشلم کے مسئلے پر اسرائیل کے خلاف ووٹ ڈالنے سے کیوں تکلیف ہوئی ؟جمہوریت کی شکستہ کتاب میں شامل ابواب میں ایک باب تو یہ بھی مذکور ہے کہ ملک کے ہر فرد کو اظہار رائے ،تنقیداوراختلاف کا حق حاصل ہے مگر پوری دنیا میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جمہوریت کی دیوی جوں ہی اپنا رخ مسلم ممالک کی جانب پھیر دیتی ہے تواس کے اصول بلا توقف تبدیل ہو جاتے ہیںاور تو اور غیر مسلم ممالک میں بھی اس کی عزت دن دہاڑے تارتارکر دی جاتی ہے جب معاملہ اس ملک کے مسلمانوں سے متعلق ہو۔

جمہوریت کے جھوٹے چمپئن امریکا اور مغرب کے دو ہرے میعار کوہم نے باربار دیکھاہے کہ اس کے نزدیک جمہوریت ہر اس ملک اور قوم کے لیے ناگزیر ہے جہاں غیر جمہوری نظام ان کے مفادات کے خلاف ہوبرعکس اس کے اگر عرب ممالک کی طرح کوئی انسانیت دشمن ظالم ایجنٹ حکومت میں رہتے ہوئے امریکی اور مغربی مفادات کے تحفظ کو اپنا فرض قرار دیتا ہو تو اس کی تمام تر وحشیانہ پن کو یہی ممالک تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔ہندوستان کو دنیا کی بہت بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ہے مگر اس کا عمل بھی مغربی ممالک کی طرح آئین میں درج جمہوریت کے بالکل برعکس تب اپنے جوبن پردکھائی دیتا ہے جب معاملہ کسی مسلمان کا ہو اور پھر اگر خدانخواستہ جمہوریت کی نیلم پری کو درشن دینے کے لیے سرزمین کشمیر آناہو تو دلی کے سبھی مہاجنوں کی آنکھیں خون آلود دکھائی دیتی ہیں ۔ستر برس میں اہلیانِ کشمیر نے ایک مرتبہ بھی جمہوریت نہیں دیکھی ہے ۔1987ء میں راجیو فاروق اتحادنے اس تابوت میں آخری کیل ٹھونک کر اپنے آپ کو عالمی سطح پر ننگا کر دیا جب حکومت کی ساری مشینری کو استعمال میں لاکر ’’مسلم متحدہ محاذ‘‘کی فتح کو شکست میں تبدیل کر کے نئی نسلوں کے ذہنوں کو بداعتمادی اور بے اعتباری سے آلودہ کردیا ۔کشمیر ی مسلمانوں کے اعتماد اور اعتبار کو باربار ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی گئی شاید یہ سمجھ کر کہ کشمیری کمزور ہونے کی وجہ سے ہمیشہ خاموش رہے گا اور دلی والوں کوماضی کی غلطیوں سے نہ سیکھنے پر اپنے اوپر ماتم کرنا چاہیے نہ کہ کشمیریوں کو اس کا قصوروار ٹھہرانا چاہیے ۔
مسلم متحدہ محاذ کی شکل میں کشمیریوں کے ساتھ ’’اجتماعی جمہوری دھوکے‘‘سے پہلے بھی مسئلہ کشمیر زندہ تھا مگر جمہوری دعوے داروں کے من پسند طریقہ جدوجہد کو بھی جب دلی نے خاطر میں نہیں لایا تو سید صلاح الدین احمد سے لیکر محمد یسٰین ملک تک ہر ایک نے یہی سمجھا کہ آج کے دور میں تقریروں سے کوئی ہماری بات ماننے والا نہیں ہے لہذا بہتر ہے کہ اُنگلی ٹیڑھی کر نے والے راستے کو اختیار کر کے عسکری منہج اپنایا جائے ۔1990ء سے لیکر اب تک یہ سلسلہ جاری ہے البتہ اب اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے کہ کشمیریوں کو بندوق کے بہانے قتل کرنے والے ’’بھارت موافق فارمولے‘‘ کے برعکس 2008ء سے ’’پرامن تحریک‘‘چلانے کا ماحول جب بن گیا تو بندوق کو دہشت گردی کہنے والا ’’پرامن جدوجہد کا عاشق بھارت‘‘اس قدر حواس باختہ نظر آیا کہ فوجی سربراہ تک میڈیا کے سامنے بلا جھجک ’’پتھر بازی کے برعکس بندوق بازی‘‘کی تمنا کرتا ہوا نظر آیااور دنیا حیران رہ گئی کہ کیا یہ گاندھی جی کا دیش ہے یا کوئی مطلق العنان ملک چین ۔ پر امن جدوجہد کی قیادت یہاں سید علی شاہ گیلانی نے بحیثیت قومی لیڈر کے تب بھی کی جب کشمیر میدان جنگ بنا ہوا تھا اور اب بھی کر رہے ہیں جب ناتوانی اور کمزوری اپنے عروج پر ہے اور جملہ امراض کی ضد میں آنے کے باوجود ثابت قدمی کے ساتھ یہ شخص اپنے موقف پر قائم ہے ۔

سید علی شاہ گیلانی نے میدان سیاست میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر کی وساطت سے قدم رکھتے ہو ئے سرزمین کشمیر کے چپے چپے پر مسئلہ کشمیر اور حق خود ارادیت کی بھر پور وکالت کی حتیٰ کہ کشمیر اسمبلی میں بھی ببانگ دہل مسئلہ کشمیر کے پرامن تصفیہ کی وکالت کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔بھارت کے کشمیر پر قبضے کے بعد سے لیکر اب تک اس شخص نے اس کی چانکیائی سیاست کے ایک ایک طریقے اور رویے کو بہت قریب سے دیکھا ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی بھارت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کسی ’’طریقہ کار ‘‘کو وضع کرتا ہے سید علی گیلانی کو اس میں تردد اور تذبذب رہتا ہے ۔انھوں نے نہ صرف اپنے بیانات میں بلکہ پچاس کے قریب کتابوں میں بھی بھارت کے اس ’’دجل و فریب‘‘کو چاک کر رکھا ہے۔

حد یہ کہ میر واعظ کشمیرمحمد عمر فاروق اور محمد یسٰین ملک جیسے اعتدال پسند لیڈران بھی اب واضح لفظوں میں کہتے ہیں کہ بھارت کبھی بھی مسئلہ کشمیر کے حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرا نہیں کرتا ہے بلکہ یہ وقت حاصل کرتے ہو ئے بین الاقوامی برادری کو کنفیوژن میں رکھنا چاہتا ہے ۔

سید علی شاہ گیلانی کسی عسکری تنظیم کے برعکس ایک خالص سیاسی تنظیم ’’تحریک حریت جموں و کشمیر ‘‘ اور کئی سیاسی تنظیموں کے اتحاد حریت کانفرنس کے بھی چیرمین ہیں ۔پرامن جدوجہدکے طریقہ کار کو انھوں نے زندگی بھراختیار کیا ۔اس کے لیے ان کی تقاریر اور کتابیں گواہ ہیں مگر اس کے باوجود بھارتی ریاست نے انہیں ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے ۔بھارت کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان کی سرحدوں کے اندر ہر شہری کو پرامن طرز عمل اختیار کرتے ہوئے جدوجہد کرنے کی مکمل اجازت ہے ۔مگرجب یہی کچھ کشمیر کے آزادی پسند کرتے ہیںتو بھارت کی تمام تر مشینری حرکت میں آجاتی ہے ۔2002ء میں جب مفتی محمد سعید نے پہلی مرتبہ حکومت بنائی تو اس نے حریت والوں کو کھلا چھوڑ دینے کی وکالت کرتے ہو ئے ان پر قدغنیں ختم کر دیں اس نے ’’مخصوص حالات اور ماحول‘‘میں یہاں تک کہہ دیا کہ حریت والے بند رکھنے سے ’’ہیرؤ‘‘بن جاتے ہیں انہیں کھلا چھوڑ دو ہم دیکھ لیں گے یہ لوگ کیاکر سکتے ہیں ؟2002ء سے لیکر2007ء تک ایک ایسا مرحلہ بے شک آیا تھا جب کشمیر میں کوئی سیاسی چہل پہل نہیں تھی جو خود ایک طویل بحث ہے سے گریز کرتے ہو ئے ہم سیدھے 2008 ء کی امرناتھ لینڈ اشو پر آتے ہیں جب پورا جموں و کشمیر سڑکوں پر نکل آیا جس سے نہ صرف کشمیر میں ایک زلزلہ آیا بلکہ نئی دہلی تک خوف ودہشت میں مبتلا ہوگئی ۔حریت کانفرنس نے تمام تر اختلافات کے باوجود قوم کی قیادت کی تو پتہ چلا 2008ء ایک ایجی ٹیشن ہی کا نام نہیں بلکہ1990ء کی طرح کشمیر کی تاریخ میں ایک نئی تبدیلی کا آغازہے ۔ (جاری ہے )


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں