میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کے فور منصوبے کی تعمیر سیاسی سازشوں کا شکار، سندھ حکومت نے نیسپاک کی رپورٹ مسترد کردی

کے فور منصوبے کی تعمیر سیاسی سازشوں کا شکار، سندھ حکومت نے نیسپاک کی رپورٹ مسترد کردی

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۷ جولائی ۲۰۲۰

شیئر کریں

(رپورٹ :اسلم شاہ)سندھ حکومت نے کراچی کے سب سے بڑے فراہمی آب کے منصوبہ پر نیسپاک کی رپوٹ کو مسترد کردیا ہے۔ اور K-4منصوبے کی تعمیرپُرانے روٹ پر کرانے کا ایک بار پھرمنصوبہ تیار کرتے ہوئے نئے سیاسی کھیل کا آغاز کردیا ہے۔ منصوبے کی تاخیر اور لاگت میں اضافہ کا ذمہ دار اس کے ڈیزائن اورنقشہ جات میںخامیوںکے الزامات کی تصدیق کے باوجود کنسلٹنٹ عثمانی اینڈکمپنی کے خلاف ایکشن ، جرمانے یا بلیک لسٹ نہ کرنے پر ماہرین نے حیرت کا اظہار کیا ہے، اس ضمن میں کنٹریکٹرز ،پروجیکٹ اور سندھ کے مجاز ادارے(متاثرین K-4پروجیکٹ) کے افسران نے مل کر کنسلٹنٹ کمپنی عثمانی کے ایگزیکٹو عاصم عثمانی کو ایک بار پھراعتراضات دور کرنے اور دو ماہ میں نئے ڈیزائن اور نقشہ تیار کرنے ہدایت دیدی ہے۔ اس بارے میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بھی ربڑ اسٹیمپ بن گیا ہے اور رپورٹ کو دیکھے پڑھے بغیربورڈ سے رمضان کے آخری دنوں میں ایک خفیہ اجلاس میں رپورٹ کو صوبائی حکومت کے افسران پر مشتمل اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کرنے کی سفارش حاصل کرلی ہے اور اسٹینڈنگ کمیٹی نے بھی تما م رپورٹ کو پڑھے بغیر منظوری کے لئے سندھ کی کابینہ کو ارسال کردیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ سارا عمل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انتہائی برق رفتاری سے شروع کیا گیا ہے۔ جس میں سارے متعلقہ اور مجاز اداروں کو مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔
چنانچہ سندھ حکومت نے نیسپاک کی رپورٹ پر فوری بحال کرکے لئے 5نومبر 2019ء کو ایک ٹیکنیکل کمیٹی قائم کی، بورڈ اور حتمی منظوری سندھ حکومت کو کرنا تھی ، ٹیکنیکل کمیٹی نے ڈیزائن کاجائزہ رپورٹ کے ساتھ ساتھ سب کمیٹی نے تمام رپورٹوں اورسفارشات اور تفصیلی غورو فکر کے بعد مارچ 2020میں ٹیکنیکل کمیٹی کی رپورٹ کو اصلاحی اور طریقہ کار کو حتمی شکل دینے کے بعد ٹیکنیکل کمیٹی اس سے آگے بڑھنے کی تمام سفارشات اور راستا کا تعین اور حل کے لئے19 تجاویزپر مشتمل اپنی سفارشات سندھ کابینہ کو پیش کی تھیں جبکہ ٹیکنیکل کمیٹی نے اپنی چھ نکات پر مشتمل سفارشات بھی پیش کی ہے ،17جون 2020ء کو صوبائی کابینہ نے منظوری دی، سیکریٹری بلدیات روشن علی شیخ کی عدم موجودگی میں آصف ضامن نے پروجیکٹ ڈائریکٹر k-4منصوبے کی بریفنگ دی،منصوبے کی تھرڈ پارٹی نیسپاک کے اعتراضات پیش نہیں ہوئے تاہم سندھ کی ٹیکنیکل کمیٹی کی تمام سفارشات کی اس میں منظوری لے لی گئی ،بتایا گیا کہ ابھی تک آبپاشی کے نظام میں بہتری او ر اپ گریڈ کرنے والے کراچی کے پانی کے کوٹے کی ارسا سے تاحال منظوری نہیںتاہم وفاقی سطح پر اس پربات کرنے کی سفارش موجود ہے ۔ اس ضمن میں ماہرین کا کہناتھا کہ تعمیرا تی منصوبے میں کنٹریکٹراور کنسلٹنٹ کی سنگین غلطیوں کا اعتراف ِجرم بھی سامنے آگیا ہے،تاحال تعمیرات میں آنے والے اخراجات 11ارب روپے کا حساب لینے اور اس کیخلاف کارروائی کے بجائے پوری سندھ حکومت منصوبے کے کنسلٹنٹ عثمانی اینڈ کمپنی کو بچانے میں لگ گئی ہے،رشوت کمیشن ، کیک بیکس اور چمک کے ذریعہ قوم کے ڈیڑھ ارب روپے سے بننے والی نیسپاک سرکاری کنسلٹنٹ کمپنی جوبین الاقومی کمپنی سے الحاق رکھتی ہے، نے اس منصوبے کے پرانے روٹ پر بعض خامیوں کی نشاندہی اور سنگین اعتراضات اٹھائے تھے۔ منصوبے کے پہلے مرحلے میں260ملین گیلن یومیہ پانی کی تعمیر کا کنٹریکٹ جلد بازی میں کنٹریکٹرایف ڈبلیواو کو دیدیا گیا اور بعدازاں دو الیکٹریکل اور میکنیکل پر مشتمل دو فلٹر پلانٹس کا ٹھیکہ بھی الاٹ کردیا گیا جس کا کنٹریکٹر کا نہ تو تجربہ تھا اور نہ ہی اس کے پاس ٹیکنیکل ماہرین موجود تھے۔ چنانچہ کنٹریکٹرز نے ٹھیکہ کو سب لیٹ کرنے کی کوشش کی ۔جس میں وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ دوسری جانب منصوبے کا ڈیزائن کسی کمپنی سے ری چیک یا تھرڈ پارٹی سے چیک نہیں کیا گیااور تعمیرات کے دوران معلوم ہوا کہ اس منصوبے میںدونئے پمپنگ اسٹیشن کو چلانے کے لئے 35میگاواٹ کی بجلی کامنصوبہ ، شہر میں پانی کی فراہمی کا کوئی متبادل پلان شامل نہیں تھا۔ فلٹریشن اور دیگر منصوبے کو بھی سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والے واٹر کمیشن نے نوٹس لیا تھا تو سندھ حکومت متحرک ہوئی اور نیا پلان تشکیل دیا گیا تھا،نئے کھیل میں روشن علی شیخ سیکریٹر ی بلدیات سندھ کے سربراہی میںوہ سب کمیٹی قائم کی گئی جس میں اسداللہ خان منیجنگ ڈائریکٹر واٹر بورڈ ،سیدمحمد طحہ اسپیشل سیکرٹری ٹیکنکل بلدیات سندھ، بریگیڈئرریٹائرڈ ڈاکٹر نصراللہ عبیرکنسلٹنٹ ایف ڈبلیو او، اسد ضامن پروجیکٹ ڈائریکٹر K-IV،محمد ایوب شیخ پروجیکٹ ڈائریکٹر ورلڈ بینک واٹر بورڈ،ڈاکٹر نوازش علی سپرٹینڈنٹ انجینئر ای این سی برانچ ، بریگیڈئر قاضی ناصر محمود 5کور کراچی، شفقت حسین چیف انجینئر ایری گیشن ڈیپارٹمنٹ سندھ، پروفیسر محمد شفیق اعجازاین ای ڈی یونیورسٹی، ڈاکٹر کامران انصاری مہران یونیورسٹی اور سیدعادل گیلانی منیجنگ ڈائریکٹر ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل پاکستان ارکان پر مشتمل جائزہ کمیٹی میں تین افسران واٹر بورڈ ،تین ارکان کنٹریکٹرتین سرکاری افسران اورنجی یونیورسٹی کے دو افسران بھی سرکاری ملازم ہیں،سب کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق حکومت سندھ عثمانی اینڈ کمپنی کی واٹر بورڈ کی بورڈ کے منظوری سے مشروط کرنا درست عمل نہیں تھاسندھ حکومت کا ماتحت ادارہ واٹر بورڈ ہے ،اس سے اجازت لینا غیر قانونی تھا، ماہرین کا دو ٹوک کہنا تھا کہ ایک ایسی سب کمیٹی کے ذریعہ مسترد کردی گئی جس میں کنٹریکٹرز، پروجیکٹ سے جڑے واٹر بورڈ اور سندھ حکومت کے 9مجاز افسران موجود تھے جس میں دو یونیورسٹی کے پروفیسر ز کو شامل کیا گیا تھا، ان کے اضافی نوٹ رپورٹ میں شامل نہیں کیے گئے او ر سب سے دلچسپ امریہ ہے کہ اس سب کمیٹی میںشفافیت ظاہر کرنے لئے عادل گیلانی ٹرانسپیرنسی انٹریشنل کو پہلی بار سندھ حکومت کی کسی کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے، پیپلز پارٹی کے دور کی سنگین الزام عائد کرنے والے ٹرانسپرینسی انٹریشنل آف پاکستان کے عادل گیلانی کو شامل کرکے سندھ حکومت کی نان ٹیکنکل افسران کی کمیٹی نے K-4منصوبے کے روٹ کا دور اور جائزہ لیے بغیر پرانے روٹ پر تعمیرات کی منظوری دینے کی سفارشات مرتب کرکے ان سے دستخط کرائے ۔ یہ ساری جعلسازیاں اس رپورٹ سے واضح ہوتی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ عثمانی اینڈکمپنی منصوبے کے پہلے مرحلہ k-IVکے ترمیم شدہ پی سی ون کو تیار کریں گے تاکہ وہ قابل قبول منظوری کے لئے اپنی سفارشات مرتب کرکے واٹر بورڈ کو پیش کرے گاجبکہK-IVکے طور پر منصوبے کو ترجیحی بنیاد پر عملی جامہ پہنایا اور پہلے مرحلے میں اس اضافی کام کو مکمل کیا جائے گا، کیونکہ ورلڈ بینک عالمی مالیاتی ادارے کے دیگر منصوبے میں فنڈنگ کی توقع ہے،حالیہ شدید بارش کے دوران منصوبے کے بعض مقامات پر نا پختہ حصوں کے نقصانات سے تعمیراتی کام پر بھی سوالات اٹھائیں گئے تھے۔ انتہائی خراب صورتحال ہونے پر قومی احتساب بیور و کراچی اور فوجی قیادت نے منصوبے کے متاثر ہ کینال اور دیگر تعمیراتی کام کا جائز ہ لیا تھا سپر پیسیجز ، پلورٹس ، کازویز ، ڈھلوان سمیت تمام روٹ کے راستوں کا ازسرِ نو جائزہ لینے اور ڈیزائن تبدیلی سے واضح کیاگیا ہے کہ کے فور پروجیکٹ قومی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے، اس کی تاخیر کی وجہ پروجیکٹ کے ڈیزائن کا پہلے دن سے ہی مسئلہ رہا ہے اور ڈیزائن کو ری چیک یعنی تھرڈ پارٹی چیک کرنے کے لیے نیسپاک کو کنٹریکٹ دیا گیا جوآئی لینڈکے بین الاقومی ادارہ deltares سے منسلک ہے، جبکہ ایف ڈبلیو او کو جون 2016ء میں کنٹریکٹ دیا گیا تھا، تو اسے تعمیرات شروع کرنے سے پہلے تین ماہ کے اندر ڈیزائن ری چیک کرنا پڑا ( حقیقت یہ ہے کہ کنسلٹنٹ کمپنی نے پانی کے کسی منصوبہ پر کبھی کام نہیں کیاہے، لہذا یہ ایک معمہ ہے کہ عثمانی نے منصوبہ کااصل پرنٹ چیک کیوں نہیںکیا) ، ٹیکنیکل کمیٹی نے تصدیق کی ہے کہ عثمانی اینڈ کمپنی کے ڈیزائن میں بڑے پیمانے پر خامیاں موجود تھیںجو تاخیر اور اس کی لاگت میں اضافہ کی ذمہ دار کمپنی ہے،اور نیسپاک کے تمام اٹھائے گئے اعتراضات فوری دور کرنے اور منصوبے کے کسی جز کے مسنگ نہ ہونے پر زور دیا تھا، سندھ حکومت نے سیکریٹری اعجاز احمد میسر کی سربراہی میںاپنے طور پرکمیٹی تشکیل دی تھی ،نیسپاک کے ماہرین نے یہ بھی محسوس کیا کہ کے فور ایک ایسے خطرناک راستے میں بنایا گیا تھا جس کے لیے مستقل چوکیداری کی ضرورت ہوتو اس کے چلانے کی لاگت میں اضافہ ہوگا۔ یاد رہے کہ عثمانی اینڈ کمپنی کے دوسرے راستوں کو مسترد کرنے کی وجوہات مطالعہ کا حصہ نہیں تھیں ۔ اس پر حکومت سندھ نے ایک ٹیکنکل سب کمیٹی تشکیل دی جس کے لیٹر نمبر LG/DIR/PM&EC/727(33-KWSB)2019/1266بتاریخ 30اکتوبر 2019ء کے تحت نیسپاک کی رپورٹ پر سندھ حکومت کی بنائی کمیٹی نے جائزہ لیا اور اس پر اپنی حتمی رپورٹ مرتب کرلی ہے،کمیٹی نے 23,30,31اور یکم جنوری 2020ء کو اجلاس منعقد کیے۔ کمیٹی کے سامنے عاصم عثمانی ایگزیکٹو عثمانی اینڈ کمپنی سے نیسپاک کے اعتراضات پر فرداً فرداً سوالات کے جواب دیے اور سب کمیٹی نے 21فروری 2020ء کو تمام اعتراضات کو دور کردینے اور اس میں ترامیم کی رضامندی ظاہر کردی۔ اس کی تیاری میں دو ماہ کی مہلت فراہم کرنے کی درخواست کردی،صوبائی کابینہ اجلاس میں آصف ضامن پروجیکٹ ڈائریکٹر K-4منصوبے کے بارے میں منظوری حاصل کی گئی ہے۔ سندھ حکومت کے فور منصوبے کے لئے موجودہ روٹ کو برقرار رکھ سکتی ہے ، سندھ حکومت نے 650ملین گیلن یومیہ کے بجائے کے فور کے 260ملین گیلن یومیہ کے نفاذ کے آپشن کو منظوری دی جائے،ورلڈ بینک کے مالی تعاون سے چلنے والے منصوبے کے تحت k-4منصوبے کے فیز ون کو آگے بڑھانے کا کام شروع کیا جائے گا، زمین کی جلد خریداری میں سندھ حکومت k-4منصوبے کی اتھارٹی کی سہولت فراہم کرسکتی ہے، عثمانی اینڈ کمپنی کو دو ماہ میں تمام ٹیکنیکل امور کو نمٹانے اور نئے سرے سے اس کے ڈیزائن پر مشتمل پی سی ون تیار کرنے کی اجازت دیدی گئی،جبکہ نیسپاک کے اعتراضات میںنہر کے راستے کو ہائیڈر ولک تجریہ اطمینان بخش دیا گیا ہے اور موجودہ روٹ میں تبدیل کی ضروت نہیں ہے، 260ملین گیلن یومیہ پانی کا منصوبہ k-4کا فیز ون 121کلومیٹر تک ہے اس کے مطابق ڈیزائن کو تبدیل کرنے اور اس میں ترمیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیںہے، عثمانی اینڈکمپنی ہائیڈرولک رپورٹ کا جائزہ لیں گے اور ڈیزائن کو یکساں طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تو تبدیل کریں گے۔ عثمانی اینڈ کمپنی ہموار راستوں کو یکساں اورگہرائی کے سیشن کو سیپج کا ازسرِ نو جائز ہ لے گی، ڈیزائن رپورٹ کے مطابق کراس نالے کے نظام کے اعتراضات کا تفصیلی جائزہ لیکرازسرِنو ڈیزائن،عثمانی اینڈکمپنی جوگرافی کو مکمل کرنے کے لئے نیسپاک کی گائیڈلائن پرچلے ،کراس ڈرینج بینکوں کو شامل کرنے کے لئے رہنمائی کریں ،عثمانی اینڈ کمپنی ان تمام امور کی دوبارہ جانچ پڑتال کرے گی جن کے لئے آخری اقدامات کی ضرورت ہے ، عثمانی کی ماہر ٹیم تمام ڈھانچے کے ڈیزائن کا جائز ہ لے گی، عثمانی کو لازمی طورk-4پروجیکٹ کی ترمیم شدہ ڈیزائن کی رپورٹ کو بغیر کسی اضافی لاگت والے سرکاری خزانے کو جاری رکھنا چاہئے ، ایف ڈبلیو او کنسلٹنٹ کی ساکھ کے ذریعہ ترمیم شدہ ڈیزائن رپورٹ کی تیسری پارٹی کی توثیق کرے گا، عثمانی اینڈکمپنی کو لازمی اور قابل ہنر مند پیشہ ور افراد کی تقرری کے لئے لازمی ہے کہ وہ ترامیم شدہ ڈیزائن کی رپورٹ کو برابر نیسپاک کے نتائج کی حیثیت سے یقینی بنائیں گے عثمانی اینڈ کمپنی ترمیم شدہ ڈیزائن کی تکمیل پر نظرثانی شدہ پی سی ون تیار کریں گے ، پمپنگ ہاوس اور فلٹریشن پلانٹوں کی بجلی کی ضرورت کے لئے منصوبہ تیار کرے گی، جاپان کی جیکا کے ماسٹر پلان اسٹڈی کے بطور k-4کے پہلے فیز کی تیاری میں لاگو کیا جائے گا ،سندھ حکومت ارسا اور وفاقی حکومت کے ساتھ k-4 کے تمام مراحل کے لئے اضافی پانی کی دستیابی کا معاملہ اٹھائے گی، پانی کے معیار کے مسئلے کو کینجھرجھیل پر بتایا جائے اور sepaکو نیسپاک کے ذریعہ دکھائے جانے والے خدشات کو چیک کرنے کی ہدایت کی جاسکتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں