مودی کا دورہ اسرائیل حقیقی اہداف کیا ہیں؟
شیئر کریں
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے گزشتہ ماہ سے اب تک کے دو دورے خاصے اہم تصور کیے جاتے ہیں۔ ایک گزشتہ ماہ دورۂ واشنگٹن ہے جس میں وائٹ ہائوس میں مودی نے امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ چار گھنٹے گزارے اور اوول آفس میں ون آن ون ملاقات کی۔ مودی کی کسی امریکی صدر سے سے اوول آفس میں یہ تیسری ملاقات ہے۔ اس سے پہلے 2014ء اور 2016ء میں مودی نے سابق صدر اوباما سے اسی اوول آفس میں ملاقاتیں کی تھیں۔حالیہ دورہ امریکا کے دوران مودی کے وفد میں نمایاں ترین شخصیت بھارتی قومی سلامتی کا مشیر اجیت دوول تھا ۔ بھارت کے لیے اس دورے کی نمایاں ترین بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے بھارت کو دہشت گردی سے متاثرہ ملک قرار دیا اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ بھارت کے اندر دہشت گردوں کی دراندازی کو روکے۔ پاکستان کی اگر کوئی خارجہ پالیسی ہوتی تو ان دونوں تباہی کے دیوتائوں کو منہ توڑ جواب دیا جاسکتا تھا لیکن بدقسمتی سے دنیا کی تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر حکمران جماعت نے وطن عزیز کو خارجہ اور سفارتی پالیسی کے معاملے میں مکمل طور پر بانجھ کردیا ہے۔
اس دورے کے ایک ہفتے بعد ہی مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا ، ستر برسوں میں کسی بھارتی وزیر اعظم کا یہ پہلا اسرائیلی دورہ ہے جسے مشرق وسطی اور جنوبی اور وسطی ایشیائی تناظر میں اہم واقعہ قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اس نازک موقع پر بھی پاکستانی حکمرانوں نے آنکھیں بند رکھیں ۔ دیگر تجارتی تعاون کے علاوہ مودی نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہوکے ساتھ تین بلین ڈالر کے دفاعی معاہدے کیے۔ یاد رہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بھارت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے اور اس برس بھی اسرائیل کے ساتھ یہ اس کا سب سے بڑا دفاعی سودا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے پیر امریکا کی طرح افغانستان میں بری طرح اکھڑ چکے ہیں دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کی وادی میں کشمیری مسلمانوں کی تحریک آزادی وقت کے ساتھ ساتھ زور پکڑتی جارہی ہے جس نے بھارتی نیتائوں کی کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ برہان وانی شہید کی شہادت کے ایک برس گزرنے پر پوری مقبوضہ وادی میں ایک طوفان برپا ہے آزادی کی تحریک لیڈروں کے بعد وہاں کے نوجوانوں نے عملاً اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ بھارتی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ افغانستان سے بوریا بستر سمیٹنے کے نتائج بھارت کے لیے مقبوضہ کشمیر میں ہولناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب محصور غزہ کے فلسطینی مسلمان اس پسپائی سے شہ پکڑ کر اسرائیل کے خلاف جدوجہد مزید تیز کرسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے غم سانجھے ہوچکے ہیں اور بلی تھیلے سے باہر آرہی ہے، بھارت ستر برس تک غیر جانبدار رہنے کا ڈراما رچاکر اسرائیل کے ساتھ بظاہر دوریاں ثابت کرتا رہا لیکن اندر خانے اس کے اسرائیل کے ساتھ ہمیشہ قریبی روابط رہے جبکہ 1962ء کے بعد اسرائیل اور بھارتی رہنمائوں کے درمیان نہ صرف روابط رہے بلکہ پاکستان کے خلاف اسرائیل نے ہمیشہ بھارت کو فنی اور جنگی مدد فراہم کی۔ لیکن جیسے ہی عربوں نے اسرائیل کے ساتھ ڈھکے چھپے انداز میں روابط کا سلسلہ شروع کیا، بھارت نے موقع غنیمت جان کر اسرائیل کے ساتھ زیر زمین تعلقات کو سطح زمین پر لے آیا۔لیکن اتنی قربتوں کے باوجود عجیب بات یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل کی جان اس وقت کابل میں پھنسی ہوئی ہے۔ بے پناہ جانی اور مالی نقصان کے باوجود امریکا پر اصل حکمران صہیونی بینکروں کی لابی امریکا کو افغانستان سے نکلنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں،چاہے اس میں کتنے ہی امریکی اور یورپی فوجیوں کا جانی نقصان ہوجائے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں افغان طالبان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی برابر کوششیں بھی جاری ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امریکا نے ہمیشہ حقانی گروپ کی رٹ لگا کر اسے افغان طالبان سے منفرد کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جب سے امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا ہے اس کی کوشش رہی ہے کہ افغان طالبان کے اندر پھوٹ دالی جائے اور پھر انہیں مختلف حصوں میں تقسیم کرکے ہر گروپ سے اپنے من مانے مطالبات تسلیم کرانے کے لیے مذاکرات کیے جائیں۔ ان معاملات کا آغاز 2005ء سے ہوا ہے جب افغان طالبان کے حملوں میں شدت آنا شروع ہوئی کیونکہ 2001ء میں جب امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا اس وقت طالبان نے پسپائی کی پالیسی اختیار کی تھی تاکہ اپنی دفاعی پوزیشن کو مستحکم کیا جائے۔
امریکا اور اس کے صہیونی صلیبی اتحاد نیٹو کو یہ غلط فہمی تھی کہ طالبان کو منتشر کردیا گیا ہے اور اب ایک دو برسوں کے دوران ان کا مکمل صفایا کردیا جائے گا ۔ اس حوالے سے پاکستان کے اندر مغرب نواز لبرل فاشسٹوں نے بھی لڈیاں ڈالنا شروع کردی تھیں کہ افغانستان میں طالبان کا باب ختم ہوچکا۔ اس لیے پاکستان کے اندر بھی اب اسلام پسند اکثریت کو آسانی کے ساتھ دبایا جاسکے گا ۔ اس دوران بڑے بڑے لبرل قسم کے اینکروں نے ’’کپی گروپ‘‘ سے تعلق رکھنے والے ’’دانشور‘‘ کالم نگاروں کو تجزیات کے لیے اپنے پروگراموں میں جگہ دینا شروع کی جس کے دوران ان امریکا اور بھارت کے راتب خوروں نے دور کی کوڑی لانا شروع کردی۔ لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ اچانک صورتحال بدلنا شروع ہوگئی۔ امریکا اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادی جو کابل میں فتح کا جھنڈا گاڑ کر بیٹھ گئے تھے ان کا کابل سے باہر نکلنا مشکل ہوگیا۔ طالبان 2005ء تک اپنی صفیں درست کرچکے تھے اور امریکا اور نیٹو کو اب وہ فصل کاٹنا تھی جو وہ گزشتہ پانچ برس میں افغانستان میں بو چکے تھے۔یہ بات بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ اگر افغان طالبان 2005ء میں اپنی عسکری تحریک میں تیزی نہ لاتے تو امریکا مشرف دور میں ہی پاکستان کے خلاف اپنے معاندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے عملی اقدامات پر اتر آتا کیونکہ وہ افغانستان میں صرف افغانستان کے لیے نہیں آیا تھا بلکہ پاکستان کے جوہری اثاثے اس کا سب سے بڑا ہدف ہیںکیونکہ پاکستان کے جوہری اثاثوں پر ہاتھ صاف کیے بغیر وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے دجالی ایجنڈے کو مکمل نہیں کرسکے گا۔ لیکن ان سارے منصوبوں پر پانی اس وجہ سے پھر گیاکہ افغان طالبان امریکا کو افغانستان میں تاریخ کا سبق سکھانے پہاڑوں سے اترنا شروع ہوگئے اور امریکا اور اسرائیل کے دجالی منصوبے جہاں تھے وہیں رک گئے۔
ان حالات سے بچنے کے لیے امریکا میں یہ فیصلہ کیا گیاکہ طالبان کو مختلف درجہ بندیوں میں تقسیم کرکے انہیں آئندہ حکومت میں شمولیت اور مفادات کی ترغیب دے کر نام نہاد امن پر مجبور کیا جائے اور ان کے اندر پاکستان دشمنی کا بیج بھی بویا جائے تاکہ انہیں یہ باور کرایا جاسکے کہ پاکستان ہی نے امریکا کو افغانستان میں سب سے زیادہ سہولیات مہیا کرکے افغانوں کے کے ساتھ دھوکاکیا ہے اس طرح افغان طالبان کے اندر پاکستان کی ہمدردیاں ختم ہوں گی اور آئندہ آنے والے حکومتی سیٹ اپ میں پاکستان نواز عناصر نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے جس کا امریکا کے بعد سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہوگا جو افغانستان میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے نیٹ ورک بچھائے بیٹھا ہے۔ اس سلسلے میں امریکا کی نظر التفات سب سے زیادہ مبینہ ’’حقانی گروپ‘‘ پر تھی کیونکہ یہ افغان طالبان کا ایک بہت مضبوط عسکری ونگ کہلاتا تھا لیکن امریکا نے ہمیشہ سے طے شدہ پالیسی کے تحت اس گروپ کو مذاکرات پر مجبور کیا تاکہ اسے باقی افغان طالبان سے الگ کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں امریکی کس حد تک مجبور تھے اس کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2005ء سے امریکی اس حوالے سے صبر کیے بیٹھے تھے کہ کسی نہ کسی طرح حقانی گروپ کو طالبان سے الگ کیا جاسکے یا ان کے ذریعے باقی طالبان کو بھی مذاکرات کی میز تک لایا جاسکے ۔امریکا کے اس صبر کی کمر 2012ء میں جاکر ٹوٹی جب اسے اس بات کا پوری طرح ادراک ہوچکا تھا کہ اس گروپ کو کسی بھی قیمت پر توڑا نہیں جاسکتا۔
اس مقصد میں ناکامی کے بعد امریکا کا اصرار تھا کہ پاکستان شمالی وزیر ستان میں عسکری آپریشن کرے۔ امریکا کا دعویٰ تھا کہ اس علاقے میں حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے افراد آزادانہ نقل وحرکت کرتے ہیں اور یہیں سے منظم ہوکر افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کی جانب سے امریکا پر واضح کیا گیا تھا کہ اگر امریکا کو اس بات کا خدشہ ہے کہ شمالی وزیرستان سے حقانی گروپ کے افراد افغانستان میں جاکر اس کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں تو وہ افغانستان کے اندر پاک سرحد سے متصل علاقوں میں اپنی حفاظتی چوکیوں میں اضافہ کرے لیکن امریکا نے ہمیشہ پاکستان کے اس مشورے کو نظر انداز کیا اور اپنی ایک ہی ضد پر قائم رہا کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں عسکری آپریشن کرے ۔لیکن پاکستان کی جانب سے امریکا پر واضح کردیا گیا تھا کہ اول تو اس علاقے میں آپریشن کی ضرورت نہیں اور اگر کبھی آپریشن کرنے کی نوبت بھی آئی تو اس کا فیصلہ پاکستان کی عسکری قیادت خود کرے گی اور اس سلسلے میں پہلے قوم کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت افغانستان کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک قائم کرکے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی وارداتیں کرائی جانے لگیں تو پھر اس کے بعد پاک فوج کی جانب سے طویل آپریشن کے ذریعے ان کا صفایا کرنا پڑا ۔
امریکا کی جانب سے اس اقدام کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ افغانستان میں طالبان نے اپنے حملوں میں انتہائی تیزی کردی تھی اس کے ساتھ ساتھ امریکا اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادیوں کے جنگی ہیلی کاپٹروں کے ساتھ وہی سلوک ہونا شروع ہوگیاجو ماضی میں سوویت یونین کے گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ساتھ افغان مجاہدین نے کیا تھا۔ یوں اچانک امریکا اور اس کے اتحادیوں کا جنگی نقصان کئی گنا بڑھ گیا اس صورتحال نے بھی امریکا کوبرانگیختہ کردیا ۔پاکستان کو قبائلی علاقوںمیں عسکری آپریشن کے ذریعے پھانسنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ جس وقت پاکستانی فوج ان علاقوں میں آپریشن کریں تو یہاں کے لوگ اور قبائلی پاکستان کے اندرونی حصوں کی بجائے افغانستان کی جانب ہجرت کریں گے امریکا، کابل انتظامیہ اور بھارت کا منصوبہ یہ تھا کہ آپریشن کے جواب میں افغانستان کے علاقے کنڑ اور خوست میں ہجرت کرکے آنے والے پاکستانی قبائل کو پاکستان کے خلاف اکسایا جاسکے گا اور انہیں یہ باور کرایا جائے گا کہ جس پاکستانی فوج نے انہیں گھر سے بے گھر کیا ہے اور انہیں اپنے علاقے کو چھوڑ کر افغانستان ہجرت پر مجبور کیا ہے ان کے خلاف یہ قبائل بھی بندوق اٹھا لیں ۔ اس طرح پاکستان اور اس کی فوج کے خلاف ایک نیا فتنہ کھڑا کردیا جائے غالبا اسی بات کا ادراک پاکستان کے مقتدر اداروں کو بھی تھا اس لیے انہوں نے یہ اقدام اٹھایا کہ امریکا کے اس بے جا مطالبے کو تسلیم نہ کیا جائے اور آپریشن اس وقت کیا جائے جب پاکستان کو اس کی ضرورت محسوس ہو اور بعد میں ایسا ہی کیا گیا۔ جہاں تک حقانی گروپ پر امریکا کی پابندیوں یا اسے دہشت گرد قرار دینے کا تعلق ہے تو اس کا اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ امریکا کی جانب سے اس گروپ کے خلاف اعلان کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ امریکا اس گروپ سے مکمل طور پر مایوس ہوچکا ہے اور صرف پاکستان پر دبائو بڑھانا ہے کہ وہ اس کے خلاف عسکری آپریشن کرے ۔
یہ وہ صورتحال ہے جس نے بھارت اور اسرائیل کو اب کھلے طور پرایک کردیا ہے اور آنے والے وقت میں ہنود اور یہود کا یہ اتحاد نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے اندر سی پیک کے منصوبے کی تکمیل تک اپنا رنگ دکھانے کی کوشش کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی دبائو کے تحت پاکستان کے اندر ایسی سیاسی تبدیلوں کی بھی کوشش کی جائے گی جو مستقبل میں دہلی اور تل ابیب کے موافق ہوں۔ پاکستان کے ایسے سیاستدان اور بیوروکریٹ جنہوں نے وطن عزیز سے دولت لوٹ کر مغرب کے بینکوں میں چھپا رکھی ہے، اس صہیونی سازش کے سامنے آسانی کے ساتھ چارہ بننے کے لیے تیار رہتے ہیں اس لیے بدلتی ہوئی اس دنیا میں عالمی صہیونیت کے ان دجالی منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے سب سے پہلے پاکستان کے اندر صفائی ضروری ہے یہ کام ملک اور قوم کی بقا کے لیے ناگزیر ہوچکا۔
٭٭…٭٭